فرق جان کے جیو ۔۔۔۔عامر عثمان عادل

کچھ برس قبل ناروے جانے کا اتفاق ہوا، ایک روز اکیلا گھر سے نکلا اور اوسلو کی سڑکیں ناپتا سٹی سنٹر جا پہنچا، وقت گزاری کی خاطر معروف انڈین سپر سٹور دہلی دیلوکا سے مصالحہ چائے کا کپ   لیا اور مصروف ترین چوک میں ایک بینچ پر بیٹھ کر سستانے لگا اپنے اپنے کام کاج کو آتے جاتے لوگ اپنی اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے مطلوبہ” تھے بان”، “تھوگ ” اور ” تھرک ” کی جانب لپکتے پاکستانی اور گورے عین چوک کے بیچ فوارے سے جھاگ اڑاتے پانی کے مہربان چھینٹے اور سامنے اٹکھیلیاں کرتے کبوتر مل کر ایسے منظر کے روپ میں ڈھل چکے تھے کہ بندہ پہروں یہاں بیٹھا رہے ، مجال ہے بوریت کا شکار ہو۔۔۔۔ اچانک شور اٹھا ،دیکھا تو سامنے سٹور سے ایک تنو مند ہٹا کٹا گورا ہاتھ میں تھیلا لئے بھاگتا ہوا نکلا جبکہ اس کے پیچھے دو سیلز گرلز چیختی دوڑتی نظر آئیں ،لپک کر اسے تھامنے کی کوشش ان دوشیزاؤں کومہنگی  پڑی۔ اس نے اسی تھیلے سے ان نازک کڑیوں کو دو تین لوٹنیاں دیں اور یہ جا وہ جا ۔۔۔۔وہ بیچاری ہاتھ سہلاتی رہ گئیں۔ شومئی قسمت شور کی آواز سن کر اس مارکیٹ میں تعینات ایک دبلا پتلا مگر مضبوط جسم کا مالک پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ دوڑتا ہوا سامنے سے آیا اور اس ” پھٹے ” ہوئے گورے کو یونہی “جپھنے” کی کوشش کی جیسے ہمارے ہاں کبڈی کا “جاپھی ” لیکن یہ کیا لگتا تھا وہ گورا بھی طمانچے دار کبڈی کا ماسٹر نکلا، اس نے سکیورٹی اہلکار پر تھپڑوں کی وہ بارش کی کہ اس بیچارے پر ترس آنے لگا ۔اس سارے عمل میں اس نے تھیلے کو خود سے جدا نہ ہونے دیا۔ اس کے تھپڑ سہتا وہ سکیورٹی گارڈ اس شعر کی عملی تصویر نکلا

دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہ تھا

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن !

جب گورے بدمعاش کے آگے ایک نہ چلی اور محسوس ہوا کہ یہ تو مجھے لے دے جائے گا، تو ناچار اس گارڈ نے دیسی طریقہ استعمال کیا اور اڑنگا دے کر اسے چاروں شانے چت کر دیا اور خود اس پر سوار ہو گیا لیکن وہ گورا اس حالت میں بھی مسلسل اس پر گھونسے اور لاتیں برسائے جا رہا تھا اس دوران میں نوٹ کرتا رہا کہ تھپڑ مکے کھانے کے باوجود اس گارڈ نے جواب میں ہاتھ نہ اٹھایا بلکہ اس کی پوری کوشش تھی کہ بس کسی طرح اس کو قابو کر لے ،اس دوران کسی نے پولیس کو اطلاع کر دی تھی ،پولیس موبائل آن پہنچی اور گتھم گتھا گورے اور سکیورٹی اہلکار کو آزاد کرایا گورے کی مشکیں کسیں، ہتھکڑی لگائی  اور پولیس وین میں بٹھا لیا ۔۔۔۔

ایک اور منظر میرے لئے حیران کن تھا ،فرض شناسی پر داد ملنے کی بجائے سکیورٹی والے کو پولیس آفیسر ڈانٹنے لگا ،بعد میں پتہ چلا کہ اسے اس بات پر ڈانٹ پلائی گئی ہے کہ اس نے گورے بدمعاش کو نامناسب انداز میں اس طرح زمین پر کیوں گرا رکھا تھا جبکہ وہ اسکا مجاز نہ تھا ،اگرچہ اس نے تھپڑ مار مار اس کا چہرہ لال کر دیا تھا، میرے اندر کے صحافی نے چین نہ لینے دیا ،پتہ کیا تو بتایا گیا کہ یہ گورا سٹور سے دختر انگور کی دو بوتلیں چپکے سے تھیلے میں ڈالتا ہوا پکڑا گیا  ہے۔سیلز گرلز نے روکا تو مزاحمت کر کے بھاگ نکلا، مزید یہ بھی بتایا گیا کہ یہاں کی پولیس ملزمان کو سر عام چھتر پولہ نہیں کر سکتی

کچھ عرصہ پہلے فیملی کے ساتھ لاہور جاتے ہوئے کامونکی کے پاس ایکسیڈنٹ ہو گیا معمولی چوٹیں آئیں لیکن اللہ کا شکر ہے بال بال بچ گئے ،گاڑی کا اچھا خاصا نقصان ہو گیا ،بچوں کو لئے پریشانی کے عالم میں کافی دیر کسی مدد کے منتظر سڑک کنارے کھڑے رہے۔ پولیس دکھائی  دی نہ موٹر وے پٹرول ۔کافی دیر بعد پنجاب پولیس کی ایک گاڑی ہمارے نزدیک رکی ،دو اہلکار اترے حادثہ زدہ گاڑی کا طواف کیا اور میرے پاس آئے میرے اور انکے بیچ جو مکالمہ ہوا وہ ملاحظہ کیجئے۔۔۔

اے گڈی تواڈی اے ؟

جی !

تے ہن لے جاو اینوں ایتھوں ،

میں خاموش !

وہ اہلکار ساتھ والے کو مخاطب کر کے بڑے طنز سے اوئے اینہاں نے فوٹو بنانی ہووے گی چھڈ اینہاں نوں !

مجھے توقع تھی کہ محافظ ہونے کے ناطے یہ خیریت دریافت کریں گے بچوں کا پوچھیں گے، گاڑی کو سڑک سے ہٹانے میں مدد کریں گے لیکن ان کا انداز روایتی تھا جس کیلئے ہماری پولیس بدنام ہے مایوس ہو کر میں نے ڈی آئی جی گوجرانوالہ کو کال کر کے آگاہ کیا کہ اس طرح حادثے کا شکار ہو کر سڑک پر بے یارومددگار کھڑے گھنٹہ  گزر  چکا ہے، آپ ہی کچھ کیجئے ان کی مہربانی مجھ سے جائے حادثہ کا پوچھا اور تسلی دی بس پھر کیا تھا کچھ دیر بعد قریبی دو تین تھانوں کی گاڑیاں سائرن بجاتی آن وارد ہوئیں اب انکی پھرتیاں قابل دید تھیں مزے کی بات وہی دونوں اہلکار دوڑتے ہوئے میرے پاس آئے۔۔۔

صاحب جی تسی دسیا ای نئیں بادشاہ لوکو ،بندہ اپنا تعارف تے کراندا اے ،سرکار معافی چا دیو !

میں  نے خاموش یادوں کی البم سے دو تصویریں آپ کے سامنے رکھ دی ہیں، ایک تصویر اس پولیس کی ہے جو ملزم کی عزت نفس کا خیال بھی نہیں بھولتی ،دوسری تصویر اس پولیس کی ہے جسکا سلوک ایک عام شہری کے ساتھ اکیسویں صدی میں بھی ایسا توہین آمیز ہے  کہ کیا کہنے! فرق کہاں ہے سوچ میں رویوں میں طرز حکمرانی میں یا انداز غلامی میں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

کاش ہمارے حکمرانوں نے پولیس کو سیاست سے آزاد کر کے ایک پروفیشنل فورس بنایا ہوتا جسے دیکھ کر ہم بھی سکھ کا سانس لیتے کہ یہ ہیں ہمارے جان و مال کے محافظ ،وردی علامت نہیں بن پائی  تحفظ کی! ہم کہتے ہیں وردی بدلو نہ بدلو، سوچ تو بدلو!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply