آئین و قانون کی پاسداری۔۔زین سہیل وارثی

فورس کسی بھی ملک کی ہو نظم و ضبط کی پابند ہوتی ہے، پولیس ہو، شہری دفاع، خفیہ پولیس، فوج ہو یا رینجرز۔ آپ کسی بھی ملک کی فورس کو دیکھیں، ان میں ملک سے لڑنے کا جذبہ اسی شدت سے ہوگا جس کی ہر قوم توقع کرتی ہے۔ ہر ملک میں فورسز سول حکومت کی مدد کے لئے آتی ہیں، اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ احسان کرتی ہیں۔ اگر مجھے کسی کام کے لئے بھرتی کیا گیا ہے، مثال کے طور پر میں ایک منصوبہ (پروجیکٹ) بنانے کے لئے ملازمت کر رہا ہوں اور میں دوران ملازمت اس بات کا احسان کروں کہ یہ میری مہربانی ہے کہ میں منصوبہ (پروجیکٹ) پر کام کر رہا ہوں، میں کام نہ کروں تو منصوبہ نہیں بن سکے گا، آپ کا دیوالیہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ بات قبلہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنے پیشہ یا شعبہ کے ساتھ مخلص نہیں تو آپ کو تو اصولاً  ملازمت چھوڑ دینی چاہیے۔
ریاست نے تمام انسانوں کے ساتھ جو عمرانی معاہدہ کیا ہوا ہے اور اسے دستور کا نام دیا ہوا ہے، وہ اس عمرانی معاہدہ کے پابند ہیں جس طرح معاشرہ کے باقی افراد پر لازم ہے کہ وہ معاہدہ کی پاسداری کریں آپ بھی اس عہد کی پاسداری کریں۔ جو شخص فورسز میں بھرتی ہوتا ہے، وہ پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اس دستور سے وفاداری اور پاسداری کا عہد و حلف اٹھاتا ہے۔ عہد و حلف توڑنا اخلاقی، سماجی و مذہبی کسی بھی لحاظ سے درست اقدام نہیں۔ وہ شخص تو نہایت قابل مذمت ہے جو مسلمان ہو اور عہد پورا نا کرے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے تو ایسے لوگوں کے متعلق وعید بھی سنائی ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایک غلط دوسرے غلط کو صحیح ثابت نہیں کرتا ہے، مثلاً  بقول آپ کے بیانیہ کے اگر سیاستدان چور اور بدعنوان ہیں، تو یہ بات آپ کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کرنے یا حکومت پر قبضہ کرنے کا حق نہیں دیتی ہے۔ وہ چور اور کرپٹ ہیں تو ان کا احتساب تو ریاستی ادارے کریں گے، جن میں اینٹی کرپشن، ایف آئی اے، اور قومی احتساب بیورو ہیں۔ آپ کو تو یہ اختیار نہیں دیا، اگر دستور اجازت دیتا ہے تو بتا دیں، ہم جیسے ان پڑھ لوگوں کی رہنمائی ہو جائے گی۔ جس طرح میرے ایمان کی حدت مانپنے کا اختیار کسی شخص کو پروردگار خدائے بزرگ و برتر اللہ نے نہیں دیا اسی طرح آپ کو بھی اختیار نہیں دیا گیا کہ لوگوں کا احتساب آپ شروع کر دیں۔
عدل و انصاف کی اسلامی تشریح کے حساب سے دیکھا جائے تو اختیارات سے تجاوز کرنا، ظلم اور ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ آپ نے جب جب اختیارات سے تجاوز کیا، آپ نے ظلم و ناانصافی کی۔ اس ظلم و ناانصافی کے دور میں جو نسل پروان چڑھی، وہ آج کے حکمران ہیں وہ بھٹو ہوں شریف ہوں یا آج کے عمران خان۔ آپ ان سے کیسے علم، ایمانداری اور انصاف کی توقع کر سکتے ہیں، کیونکہ زمانہ کی کہاوت ہے جو بو  گے وہ ہی کاٹو گے۔
چند ایک لوگوں کے ذاتی اعمال پوری فورس کے کھاتے میں شمار ہو رہے ہیں، خدارا غور کیجئے، وقت کے ساتھ سوشل میڈیا اور مختلف ذرائع ابلاغ میں جس قسم کے مباحثہ ہو رہے ہیں، اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ حجاب کا وہ پردہ جو آپ کے اور لوگوں کے درمیان تھا، اب ہٹ گیا ہے، اور ہمارے معاشرے کی ایک روایت ہے جب حجاب ہٹ جائے تو معاملات خراب ہو جاتے ہیں۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی شحص بیمار ہو جائے اور لوگ اسکی عیادت کے لئے جائیں تو وہاں بہت ہی اچھی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہر شخص جو عیادت کے لئے تشریف لاتا ہے وہ یاں تو اس بیماری کا شکار ہو چکا ہوتا ہے یا اسکا کوئی قریبی عزیز اس مرض کا شکار ہوتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہاں موجود ہر شخص حکیم لقمان بن کر اپنا اپنا علم و گیان بانٹنا شروع کر دیتا ہے کہ جناب یہ استعمال کریں سب ٹھیک ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو لچ تلنا شروع کر دیتے ہیں اور مریض مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ یوں مریض اللہ کے طفیل سے ہی بچ جاتا مگر اس کو جو مشورہ دیے جاتے ہیں ان سے شفا کا تو پتہ نہیں البتہ مرض کی طوالت لازم طے ہوتی ہے۔
پاکستان کے تمام امراض کا حل آئین و قانون کی پاسداری ہے اور جمہوری عمل کی مسلسل مشق ہے، اگر یہ اصول نا اپنایا گیا تو ترقی معکوس کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہوا ہے وہ کبھی اختتام پذیر نہیں ہو گا۔

Facebook Comments