نیگیٹو مارکیٹنگ۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

ایم اے اکنامکس پارٹ ون میں بیس لڑکیاں اور پندرہ لڑکے تھے۔ان میں سے پندرہ کے پندرہ لڑکوں اور اٹھارہ لڑکیوں کو بوجوہ سر ارسلان سخت ناپسند تھے۔دو لڑکیاں مائرہ اور زارا اس سے متاثر تھیں لیکن بقیہ کلاس فیلوز کے ڈر سے اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتی  تھیں۔

سر ارسلان نے چار سال پہلے گولڈ میڈل کے ساتھ ایم۔اے اکنامکس اور گزشتہ سال ڈسٹنکشن کے ساتھ ایم۔فل کیا تھا اور اسی سال اسکی گریڈ 18 میں ڈائریکٹ سلیکشن ہو گئی تھی۔وہ انتہائی روانی سے انگریزی بولتا تھا،خوش لباس تھا،حاضر جواب تھا ،پر اعتماد تھا اور ان سب خوبیوں کی وجہ سے بظاہر ٹھیک ٹھاک متکبر تھا۔کلاس کے تیز طرار ترین لڑکے اسکے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے سے کتراتے تھے اور قافلہ غارت قسم کی لڑکیوں کو حسرت ہی تھی کہ وہ کبھی سیدھے منہ ان سے بات کرے۔وہ لڑکیوں اور لڑکوں کی بلا تخصیص بے عزتی کرنے میں مہارت رکھتا تھا ۔۔۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہترین اور devoted استاد تھا۔کام کی پرفیکشن پر سمجھوتا نہیں کرتا تھا اسی لیے زارا اور مائرہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔

سیکنڈ سمسٹر کے فائنلز ہونے سے پہلے ایک دن اس نے کلاس میں اعلان کیا کہ ۔۔

“اس مرتبہ پیپرز میں نیگیٹو مارکنگ ہو گی تاکہ آپ لوگ زیادہ توجہ سے تیاری کریں۔میں نے سفارشات بھجوا دی ہیں،انشاءاللہ منظور ہو جائیں گی۔”

یہ اعلان سنتے ہی پوری کلاس پر بجلی گر پڑی۔پیریڈ ختم ہوتے ہی لڑکے لڑکیوں کا ہنگامی اجلاس ہوا کہ اس نئے “فتنہ ء  ارسلان” سے کیسے جان چھڑائی جائے۔طے پایا کہ کل جوریہ ملک دختر بریگیڈیئر اظفر ملک جو کہ سر ارسلان کی ٹکر کی انگریزی بولتی تھی،نہایت خوش شکل ،بولڈ اور فتنہ انگیز تھی سر ارسلان کو قائل کرنے کی کوشش کرے گی کہ سفارشات واپس لے لیں کیونکہ نیگیٹو مارکنگ سے رزلٹ متاثر ہو گا۔

اگلے دن بد قسمتی سے جوریہ ملک کلاس میں دس منٹ لیٹ پہنچی۔سر ارسلان لیکچر شروع کر چکے تھے۔جوریہ ملک آج اس اہتمام سے تیار ہو کر آئی تھی گویا کہ مس یونیورس کے مقابلے میں شریک ہونے والی ہو۔

سر ارسلان نے انتہائی تنقیدی نظروں سے اسکا جائزہ لیکر کہا،

“کیا شادی سے بھاگ کر آرہی ہیں۔”

“نو سر آپ سے ضروری بات کرنی تھی”بے چاری جوریہ کو انگریزی بھول گئی اور وہ اردو میں منمنائی۔

مجھ سے بات کرنے کے لیے اتنے اہتمام کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔ اور میں جانتا ہوں آپ کیا بات کرنا چاہتی ہیں؟کوئی فائدہ نہیں ۔؟۔سفارشات آجکل میں منظور ہو جائیں گی۔”

پوری کلاس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔

جوریہ ملک کی بھی  انا اور عزت کا معاملہ تھا، وہ اٹھلاتی ہوئی سر ارسلان کے کندھے کے بالکل نزدیک جا کر نہایت لگاوٹ سے بولی،

“Let me explain Sir…. actually….”

“مس جوریہ،میں بہرہ نہیں ہوں۔۔۔۔پرے ہٹ کے بات کریں۔۔۔اور یہ ہائی ہیلز اتاریں۔۔۔گر کر خود اپنی ٹانگیں بھی تڑوائیں گی اور کسی شریف آدمی کا کندھا بھی۔”

اس عزت افزائی کے بعد کچھ کہنے کی گنجائیش ہی کہاں بچی تھی جوریہ ملک کے پاس۔۔۔مشن ناکام ہوا۔۔

پیریڈ ختم ہوتے ہی پھر ہنگامی اجلاس ہوا اور طے پایا کہ VC کے پاس جا کر سر ارسلان کی سفارشات نامنظور کرائی جائیں۔

ساری کلاس کے برعکس زارا اور مائرہ کو نیگیٹو مارکنگ پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔دونوں اچھی طالبات تھیں، سر ارسلان کی رائے سے متفق تھیں اور ان کی عزت کرتی تھیں۔ لہذا انھوں نے فیصلہ کیا کہ سر کو بروقت اس سازش سے آگاہ کر دیا جائے۔

وہ دونوں سر ارسلان کے کمرے کے سامنے پہنچیں تو دروازہ آدھ کھلا تھا اور اندر سے باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ایک آواز سر ارسلان کی تھی اور دوسری کسی لڑکی کی۔۔۔۔

” تو پھر تو نے اسی لنگور کے بچے کزن عامر خان ثانی سے شادی کرالی؟میرا انتظار تو کرتی شیریں۔۔۔فرہاد مر تو نہیں گیا تھا تیرا۔۔۔۔تو بھی کمینی نکلی۔۔۔۔”یہ سر ارسلان لڑکی سے مخاطب تھے۔۔

“تو کیا تیرے انتظار میں بڈھی ہو جاتی کاٹھے انگریز؟؟؟میں تو سوچتی تھی تو آسڑریا سے کوئی بدبودار سی میم بیاہ کے لائے گا۔۔۔لگتا ہے لفٹ نہیں کرائی کسی نے تجھے۔۔۔سلو۔۔۔ابھی تک ویلا ہے۔۔۔۔”لڑکی نے انتہائی بے تکلفی سے سر ارسلان کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا۔پھر اسکے بعد انکے مشترکہ قہقہے دیر تک کمرے میں گونجتے رہے۔

زارا نے انتہائی حیرت اور پریشانی سے مائرہ اور مائرہ نے زارا کو دیکھا۔انھیں کانوں سنی اور آنکھوں سے دیکھی پر بھی یقین نہیں آرہا تھا۔۔

یہ سر ارسلان کیسے ہو سکتے تھے؟ناقابل یقین۔۔۔۔۔مگر یہ سچ تھا۔۔اور انکے سامنے تھا۔

دونوں لڑکیوں کو شدید ذہنی جھٹکا لگا تھا۔۔جسے وہ لوہے کی ڈھال سمجھتی تھیں وہ تو محض چاندی کا ورق نکلا۔۔۔۔وہ خاموشی اور افسردگی سے واپس لوٹ آئیں۔۔۔۔۔۔

سر ارسلان کی ایک لمحے میں بری طرح “Negative marking” ہو گئی تھی۔۔۔۔۔کاش!وہ جان سکتے کہ۔۔

امتحان کی طرح زندگی میں بھی نیگیٹو مارکنگ سے بچنے کے لیے اپنی ذات اور نفس پر بہت محنت کرنی پڑتی ہے،معیار بنانے اور قائم رکھنے کے لیے خود پر کڑا پہرہ دینا پڑتا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ دنیا کی نظروں کا اور سوچ کا قلم بڑا ظالم ہوتا ہے،نمبر کاٹنے میں دیر نہیں لگاتا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بعض اوقات انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا۔۔اور اسکی نیگیٹو مارکنگ ہو جاتی ہے۔۔۔وہ top کرتے کرتے فیل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔اس ناکامی سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ  خود پر بھی بڑی گہری نظر رکھی جائے۔۔۔۔زندگی کے امتحان کی بعض اوقات سپلیمینڑی نہیں ہوتی۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply