باپ کی عظمت۔۔۔۔ عائشہ یاسین

باپ۔۔۔۔اس لفظ کے آتے  ہی ذہن کے کتنے دریچے کھل گئے۔اس لفظ کو اک لفظ یا جملے میں کیسے بیان کیا جائے۔
باپ کا نام زبان پر  آتے ہی اک ناتواں اور ضعیف رو صورت آنکھوں  کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔میرے نزدیک باپ کی قدر و قیمت کسی دوسرے شخص سے کہیں زیادہ ہے  کیوں کہ میرا باپ اس دنیا میں حیات نہیں۔ باپ کیا ہوتا ہے کیسا ہوتا ہے اور کیوں  ہوتا ہے شاید مجھ سے یا مجھ جیسے لوگوں سے زیادہ کوئی نہیں  جان سکتا  اور نہ سمجھ سکتا ہے  جن کے والد محترم کا وصال ہوچکا  ہے ۔میرا دعویٰ  ہے کہ ان کے والد حضرات کو بھی اندازہ نہ ہوگا کہ ان کی سرپرستی اور سایہ ان کے بچوں پر کتنی بڑی رحمت اور شفقت ہے۔
ایک  توانا  گبرو  جوان مرد شادی کے بعد جب باپ کا مرتبہ پاتا ہے تو جس طرح ایک شوخ و چنچل لڑکی ماں بننے کے بعد ذہنی و جذباتی رد و بدل کا سامنا کرتی ہے اسی طرح ایک لاپرواہ اور بے باک لڑکے کے اندر بھی تبدیلیاں  رونما ہوتی ہیں ۔جس طرح ماں خوشی سے نہال ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ خوش اک باپ ہوتا ہے بس معاشرےکی بے وجہ کی پابندیوں نے مرد کو اظہار کی اجازت نہیں دے رکھی ۔وہ بھی اسی طرح مسرور ہوتا ہے جیسے کہ اک ماں اپنے آنے والے بچے کے واسطے سرشار ہوتی ہے۔
باپ وہ ہستی ہے جو اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے  دن رات جتا  رہتا ہے۔نہ اس کو اپنے آرام کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی  صحت  کی۔وہ اپنے دن رات صرف اس جہد میں سرف کرتا ہے کہ کچھ اور محنت کرلوں تو اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرلوں ۔اپنی اولاد کی ہر اس خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنے بچپن میں پوری نہیں کرپایا۔
باپ وہ ہستی ہے جو دن کو دن نہیں سمجھتا۔راتوں کو بھی  فکر معاش میں بے چین رہتاہے۔باپ کبھی ہمیں اپنی پریشانی یا الجھنیں  نہیں  بتاتا بلکہ خود سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہر مشکل اور دشواری کا سامنا کرتا ہے۔
دن بھر کی مشقت کے بعد پہلا خیال اپنے بچوں کا آتا ہے کہ بچے میرے منتظر ہوں گے کیوں نہ جاتے ہوئے اپنی جیب کے مطابق ٹافی سموسے جلیبی یا ان کا من پسند کوئی  کھلونا لیتا جاؤں ، یا اس کو اپنے بچے کی کوئی فرمائش یاد آجاتی ہے جو ننھے نے گھر سے نکلتے وقت کر ڈالی تھی۔ باپ اک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح اک چھت گھر کے مکین کو موسم کے سرد گرم موحول سے محفوظ رکھتی ہے اسی طرح باپ موسم کے نارواں سلوک سے ہمیں  تحفظ دیتا ہے ۔آندھی طوفان اور گرج چمک اور گنگھور گھٹا سے بچا کے رکھتا ہے ۔اس بات کا یقین اس وقت آیا جب میرے پیارے بابا دنیا سے رخصت ہوئے۔ایسا لگا کہ گھر کی چھت اڑ گئی ہو اور ہر آنے جانے والا یا بے درد موسم اپنا روز  دکھانے کے لئے آزاد ہوگیا ہو۔تیز ہواؤں  اور آندھی نے زندگی کو گھیر لیا ہو ۔تیز دھوپ اور آنکھوں کو چندیانے والی روشنی نے جسم اور آنکھوں کو ناکارہ کردیاہو۔دنیا کیا ہوتی ہے اور دنیا کے کتنے رنگ و روپ ہوتے ہیں وہ بابا کے جانے کے بعد خوب پتا لگے۔ایک سایہ تپتی چلچلاتی دھوپ میں  ڈھل گیا اور جہان فانی نے اپنا اصل ظاہر کرنا شروع کیا تب پتا  لگا کہ مسائل کیا ہوتے ہیں اور مشکلات کا اصل مفہوم کیا ہوتا ہے، زندگی کے کتنے ایسے ناگزیر پہلو تھے جس سے میں نا آشنا تھی اور جس کی  بھنک تک  بابا نے کبھی بھی لگنے نہ دی۔
باپ شفقت محبت اور ایثار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اس کا غصہ وقتی ہوتا ہے اگر وہ غصہ ہو بھی جائے تو اندر ہی اندر انتظار کرتا ہے کہ اسے منا لیا جائے۔وہ اوپر سے تو سخت ہوتا ہے پر اندر سے بلکل سادہ ہوتاہے۔یوں وہ ہر  پل ساتھ رہتا ہے لیکن کچھ تہوار یا موقعے  fathers day پر اور ساتھ عیدین پر   باپ کی کمی اور شدیت سے محسوس ہوتی  ہے۔باپ جیسا بھی ہو باپ ہوتا ہے۔اک گھنا سایہ دار درخت جو خود تو دھوپ طوفان بارش میں کھڑا رہتا ہے پر اپنے سائے میں رہنے والوں کو تحفظ  دیتا ہے۔اس کی شاخوں پہ کتنے ہی پرندے پھلتے پھولتے ہیں ۔باپ کا وجود بے پناہ عزیز اور ضروری ہوتا ہے۔باپ جیسا کوئی  نہ ہوتا ہے اور نا ہوسکتا ہے ۔میں نے ہر چہرے اور ہر آنکھ  میں اپنے بابا  کا روپ تلاش کیا پر نہ اس جیسی نظر ملی اور نہ دست شفقت ۔آج میں اک پیغام دینا چاہتی ہوں کہ جن کے باپ حیات ہیں ان کی قدر کیجئے ۔یقین جانئےیہ ہستی اک بار کھو گئی  تو کبھی اور کسی قیمت  پر واپس نہیں ملنی۔
اپنے باپ کی عزت کیجئے۔ان بوڑھی آنکھوں میں کبھی جھانک کے تو دیکھئے کبھی فرصت ملے تو ان   آنکھوں میں جلتے انتظار کے دیپ  کی لوء  دیکھیے ۔کبھی ان روٹھے وجود کو گلے سے لگا کر اس میں اولاد کی محبت کو جذب کرکے دیکھئے ٹھیک اسی طرح جب آپ کمزور اور ناتواں تھے اور باہر کسی کتے کے بھونکنے سے ڈر جایا کرتے تھے اور آپ کے والد محترم اپنے جوان بازووں میں بھر کے آپ کو کہتے تھے کہ میرا بیٹا/ بیٹی کیوں ڈرتا ہے اس کے بابا ہیں نا ۔آپ بھی اسی طرح جاکر  کہے ، بابا آپ کا بیٹا/بیٹی ہے نا۔جس طرح جب آپ کو چوٹ یا تکلیف کا احساس ہوتا تو وہ گھنٹوں آپ کا غم غلط کرنے کو کہانیاں سنایا کرتے تھے آج آپ بھی 24 گھنٹوں میں سے کچھ پل ان کو کہانیاں سنا آیا کریں ۔جس طرح آپ کی خواہش پر آپ کا باپ دن بھر کا تھکا ہارا فورا ً گھوڑا بن جایا کرتا تھا آج آپ اس کا ہاتھ تھام کر اس کو اپنے ہونے کا لمس دے آیا کریں ۔
کبھی ان کی طرف سے دل رنجیدہ ہوجائے یا ان کے بار بار بھول جانے یا سوال کرنے کی عادت طبیعت کو گران گزرے تو اس وقت  کو یاد کرلیا کریں جب آپ اپنی توتلی زبان میں گھنٹوں ایک  ہی سوال دہرایا کرتے تھے اور ہر بار یہی شخص جو اس وقت عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہے۔آپ کو پیار سے اک ہی جواب بتایا کرتا تھا۔آپ بھی اسی پیار و محبت سے جواب دہرایا کریں ۔یاد رکھیے  ماں باپ کی رضا اللہ کی رضا ہے۔
ہم جتنے بڑے عالم ہوجائیں عبادت گزار ہوجائیں لاکھوں روپے اللہ کی راہ پہ لٹا دیں ۔چاہے جتنے اخلاق کا مظاہرہ کریں لیکن اگر ہم والدین کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کرتے  تو ہم سے زیادہ اللہ کے  قہر کا حقدار کوئی  نہ  ہوگا۔اگر جنت کی طلب ہے تو ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جوکہ جنت کا دروازہ ہے ۔ان دونوں کو راضی رکھنا ہوگا۔ٹھیک اسی طرح رحم کرنا ہوگا جس طرح انہوں نے ہم پر رحم کیا۔جب ہم گوشت کے اک لوتھڑے کے سوا کچھ نہ تھے۔
وقت گزر جائے تو واپس نہیں آتا صرف یادیں رہ جاتی ہیں اسی لئے  ہمیں وقت کی قدر کرتے ہوئے ان لمحات کو خوبصورت بنا لینا چاہیے ۔اس طرح وقت امر ہوجاتا ہے۔
اللہ سب کے والدین کو سلامت رکھے ۔صحتمند و تندرست رکھے اور ان کا سایہ قائم رکھے ۔آمین

For my loving father who is not with me but he is always in my heart and breath.

عزیز تر مجھے رکھتا تھا  وہ رگِ و جان سے
یہ بات سچ ہے  میرا   باپ کم نہیں تھا میری ماں سے !

وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا تھا
یہ ہی وجہ تھی  کہ وہ مجھے چومتے ہوئے جھجکتا تھا !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہا ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پایا مگر سسکتا تھا  !
جڑی تھی اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے
یہ بات سچ ہے  میرا باپ کم نہیں تھا  میری ماں سے !

ہر اک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تھا
تمام عمر سوائے میرے وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا تھا  !
وہ لوٹتا تھا  کہیں رات کو دیر گئے، دن بھر
وجود اس کا پیسنے میں ڈھل کر بہتا تھا  !
گلے رہتے تھے پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں تھا  میری ماں سے !

پرانا سوٹ پہنتا تھا  کم وہ کھاتا تھا
مگر کھلونے میرے سب وہ خرید کے لاتا تھا  !
وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا تھا  جی بھر کے
نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا تھا  !
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں تھا میری ماں سے

Advertisements
julia rana solicitors london

اور جن کے والد نہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین یا رب اللعالمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply