• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کا پاورسیکٹر: گردشی قرضوں (سرکیولر ڈیٹ) کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

پاکستان کا پاورسیکٹر: گردشی قرضوں (سرکیولر ڈیٹ) کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

نوٹ”یونس ڈھاگہ صاحب معروف بیورو کریٹ اور سابق سیکرٹری بجلی و پانی رہے ہیں۔ انہیں تھر کول منصوبوں کا بانی بھی کہا جاتا ہے اور پاکستان میں بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لئے بجلی کی پیداوار کے نئے منصوبے شروع کروانے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں ان کی بطور سیکرٹری تجارت تعیناتی کی گئی ہے۔ پاکستان میں پاورسیکٹر کے گردشی قرضوں کا آج کل بہت غلغلہ ہے۔ اس حوالے سے ڈھاگہ صاحب کا ایک معلومات افزا مضمون کچھ روز قبل ایکسپریس ٹرائیبون میں شائع ہو۔مضمون میں پاور سیکٹر اور گردشی قرضوں کے حوالے سے عوام کے لئے مفید معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ مضمون چونکہ انگریزی میں تھا، اس لئے راقم نے سوچا کہ مفاد عامہ کے لئے اس کو اردو میں بھی شائع ہونا چاہیئے تاکہ عوام میں اس حوالے سے پائے جانے والے ابہام اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم پاکستانی پاور سیکٹر میں وصولیات اور نقصانات میں کمی کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور جب فیکٹریوں میں کام کرتے ہوئے طویل عرصہ بعدصفر لوڈشیڈنگ کے ماحول میں کام کرنے کے خوشگوار تجربے کے طفیل ان اعداد و شمار کی صحت پر بھی یقین آنے لگتا ہے۔ جب بجلی کے گھریلو صارفین لوڈشیڈنگ کو 14-12 گھنٹے یومیہ سے 4-3 گھنٹے پر آتا دیکھ کر صورتحال میں 75 فیصد بہتری محسوس کرتے ہیں ، ایسے میں گردشی قرضوں یا سرکیولر ڈیٹ کے دوبارہ سر اٹھانے کی خبریں پاور سیکٹر کی کارکردگی اور اب تک حاصل کی گئی بہتری کی پائیداری کے بارے میں کافی ابہام پیدا کرتی ہیں۔

گردشی قرضوں یا سرکیولر ڈیٹ کی پہلی مرتبہ باضابطہ تعریف وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے سن2014 میں کچھ اس طرح کی تھی
’’گردشی قرضہ ، مرکزی پاور پرچیزنگ ایجنسی کے ضمن میں نقد ی کی وہ قلت ہے جو وہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ادا کرنے سے قاصر ہو۔ یہ زائد المیعاد رقم مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے
۱) نیپرا کی جانب سے متعین کردہ نرخ اور اصل پیداواری لاگت کے تفرق کی وجہ سے۔
2) حکومت کی جانب سے سبسڈیز کی ادائیگی میں تاخیر یا ان کی عدم ادائیگی کی بنا پر۔
3) نرخوں (ٹیرف) کے تعین یا اس کے نوٹیفکیشن کے اجرا میں تاخیر کے سبب۔
حکومت کی یہ پالیسی ہے کہ گردشی قرضوں کو کم کیا جائے یا بتدریج ایک خاص سطح تک محدود کیا جائے تاکہ ان میں کمی لائی جاسکے اور گردشی قرضوں کی وجوہات کا خاتمہ کیا جائے۔‘‘

سادہ الفاظ میں گردشی قرضوں کا تعلق پاور سیکٹر میں مالی تدفق یا کیش فلو سے ہے ، جو نہ صرف بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی واجبات کی وصولیابی اور لائن لاسز کے حوالے سے کارکردگی سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ نیپرا کی جانب سے ٹیرف کے تعین سے متعلق فیصلوں اوربجٹ میں دی جانے والی سبسڈی بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

بجلی کے پیداواری یونٹس کو چلانے کے لئے درکار مالی تدفق یا کیش فلوز صارفین سے جمع شدہ واجبات کے ذریعے ہی پیدا ہوتے ہیں، اور صارفین کو اس ضمن میں اسی حد تک چارج کیا جاسکتاہے جس قدر نیپرا کا ٹیرف اجازت دے۔نپرا 11 ڈسکوز کے لئے ان کے دائرہ کار میں آنے والے علاقوں کی صورتحال کے پیش نظر 11 الگ الگ ٹیرف تیار کرتا ہے۔ حکومت اس صورتحال پر دو طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ حکومت تمام ڈسکوز کو ہدایت جاری کرتی ہے کہ وہ نیپرا کی جانب سے تیار کئے گئے 11 ٹیرفس میں سے سب سے کم مالیت ٹیرف کے حساب سے اپنے صارفین کو چارج کریں، تاکہ قومی سطح پر یکسانیت برقرار رکھی جاسکے۔ مثال کے طور پر اگر تمام سرکاری ڈسکوز کا اوسط ٹیرف 12 روپے فی یونٹ ہے، جبکہ کم ازکم ٹیرف جو طے کیا گیا تھا وہ 10 روپے فی یونٹ تھا، تو حکومت اس 2 روپے فی یونٹ کے فرق کے حساب سے سبسڈی فراہم کرے گی۔ دوسرے یہ کہ وفاقی حکومت اپنے سماجی اور اقتصادی اہداف کے تعاقب میں (اور کچھ زرعی صارفین کے معاملے میں صوبائی حکومتیں بھی) یکساں قومی ٹررف میں بھی کچھ مخصوص زمرہ جات (کیٹیگریز) میں شامل صارفین کے لئے مزید کمی کر دیتی ہے، مثلاً زرعی، صنعتی ،فاٹا ، بلوچستان اور آزاد کشمیر کے صارفین وغیرہ۔ حکومت ٹیرف میں کی جانے والی اس خصوصی کمی کا بھی ذمہ بطور سبسڈی لیتی ہے اور ڈسکوز کو اس کی ادائیگی کی پابند ہوتی ہے۔ چنانچہ نیپرا کی جانب سے نرخوں کا تعین، بجٹ میں سبسڈیز کی تخصیص، اور ڈسکوز کی واجبات کی وصولیابی اور لائن لاسز کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کارکردگی، یہ سب ملکر پاور سیکٹر کے مالی تدفق یا کیش فلوز پیدا کرتے ہیں۔
نیپرا تمام سرکاری ڈسکوز کے لئے نرخوں کا تعین ، دیگر کے علاوہ دومرکزی مفروضوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔

1)قومی سطح پر صارفین سے واجبات کی 100فیصد وصولیابی
2) قومی سطح پر اوسط 15.3 فیصد لائن لاسز

مسئلہ مگر یہ ہے کہ یہ دونوں مفروضے ہمارے ملک کے زمینی حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ گزشتہ چند سالوں (2014-2007) میں قومی سطح پر وصولیابی کی اوسط شرح 89-88 فیصد رہی ہے، جبکہ لائن لاسز 19فیصد رہے ہیں۔حالانکہ امن و امان اور ملک کی موجود سماجی اور اقتصادی صورتحال کے پیش نظر 100فیصد وصولیابی کے ہدف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے، تاہم اس کے باوجود ڈسکوز پر سے وصولیابی کی شرح بہتر کرنے اور لائن لاسز میں کمی کے حوالے سے عائد ذمہ داری ختم نہیں ہوسکتی۔ چلیئے دیکھتے ہیں گزشتہ دو برس میں اس حوالے سے معاملات کس حد تک تبدیل ہوئے ہیں (یا جوں کے توں ہیں)، اور کس طرح یہ سب عوامل گردشی قرضوں کی حالیہ اٹھان میں شراکت دار ہیں۔

سن 2014 میں نیپرا کی مفروضہ اور وصولیابی و لائن لاسز کی اصل شرح میں تقریباً 15 فیصد کا فرق تھا (وصولیابی کی اصل شرح نیپرا کے مفروضے کے برعکس 88.6فیصد جبکہ لائن لاسز 15.3 کے بجائے 19.1فیصد تھے)۔ مفروضے اور اصل کے اس فرق کی قیمت ہر فیصدپوائنٹ کے لئے تقریباً 9 سے 10 ارب روپے ہے۔ تخمینوں کے مطابق اس تفرق سے گردشی قرضوں میں سالانہ تقریباً 140 ارب روپے کا اضافہ ہونا تھا، جس کی وجہ سے گردشی قرضے دسمبر 2014 کی 298 ارب روپے کی سطح سے بڑھ کر دسمبر 2016 میں 572 ارب روپے تک جا پہنچتے ۔ دلچسپ بات لیکن یہ ہے کہ دسمبر 2016 میں گردشی قرضوں کی اصل شرح محض 393 ارب روپے تک محدود رہی۔ گردشی قرضوں کی اٹھان کو محدود کرنے میں 3 بڑی وجوہات کار گر رہیں، جو بصورت دیگر ٹیرف کے نقائص کی وجہ سے ناگزیر ہوجاتیں۔

ا) 2015 اور 2016 میں سرکاری ڈسکوز کی کارکردگی میں واضح بہتری، جس میں 93 فیصد سے زائد کی بے مثال وصولیابی، اور لائن لاسز کو تاریخ کی کم ترین سطح 17.9 فیصد تک محدود رکھنا شامل ہیں۔ انہیں وجوہات کی بنا پر نیپرا کے مفروضوں اور اصل صورتحال کا فرق جو 2014 میں 15فیصد تھا، 2016 میں کم ہو کر 9.2فیصد رہ گیا۔ اس کارکردگی کے باعث، جس کی بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی کی گئی، دو سال میں پاور سیکٹر کے کیش فلوز میں 116 ارب روپے اضافی شامل ہوئے۔

ب)تیل کی قیمتوں میں کمی۔ اگرچہ اس فائدے کا بڑا حصہ صارفین کو ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں منتقل کر دیا جاتا ہے، تاہم رعایتی صارفین کی موجودگی کے پیش نظر 25-20 فیصد حصہ سیکٹر میں ہی برقرار رہتا ہے۔

ج) وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سبسڈی کے کچھ بقایاجات کی ادائیگی۔
پاور سیکٹر کے لئے مالی سال 14-2013 میں 430 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جو جی ڈی پی کا 1.7فیصد تھا۔15-2014 میں یہی رقم 221 ارب تھی جوکہ جی ڈی پی کا 0.7فیصد تھا، جبکہ مالی سال 16-2015 میں یہی رقم کم ہوتے ہوتے 118 ارب روپے رہ گئی ہے جو کہ جی ڈی پی کا0.4 فیصد رہ گئی ہے۔ بجلی کی ترسیل میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ میں کمی ، جو14-2013 کی سطح 14-13 گھنٹے سے اب 4-3 گھنٹے پر آچکی ہے، یہ عوامل اس بات کے متقاضی ہیں کہ بجٹ میں اسی مطابقت سے سبسڈی مختض کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مندرجہ بالا بحث و تمحیص سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟ یہ کہ پاور سیکٹر کی روانی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے اس کے کیش فلو پیداکرنے والے تینوں عناصر کو اپنا اپنا حصہ بخوبی نبھانا ہوگا۔بجلی پیدا کرنے والے اور اس کے تقسیم کار اداراوں کو اپنی کارکردگی سے نہ صرف 2015 اور 2016 میں حاصل کی گئی کامیابیوں کا تسلسل قائم رکھنا پڑے گا، بلکہ مزید تمسک پر بھی کام کرنا ہوگا۔ ریگولیٹرز کو بھی ٹیرف کا تعین کرتے وقت آدرشواری مفروضوں کے بجائے زمینی حقائق کو سامنے رکھنا پڑے گا، جبکہ بجٹ میں سبسڈیز کی تخصیص بھی حکومت کی جانب سے صارفین کو منتقل کئے جانے والے فوائد کے حوالے سے حکومتی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جانی چاہیئے ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، گرشی قرضوں سے نجات کی خواہش نہیں کی جاسکتی۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply