ایبسرڈ/ علی عبداللہ

کیا زندگی واقعی “ایبسرڈ” ہے؟ امیدیں ٹوٹتی ہیں، خواہشیں بکھرتی ہیں، آرزوئیں دم توڑتی ہیں اور انسان جب عقل کے آگے بے بس ہو جاتا ہے؛ عقل اور منطق سے ہر شئے پرکھنے کی عادت جب اسے کشمکش کے بھنور میں لا ڈالتی ہے تو وہ زندگی کو نہ سمجھ آنے والی شئے کہہ کر عارضی پناہیں ڈھونڈنے لگتا ہے۔ اس کے سوال عقل پر بھاری پڑنے لگتے ہیں اور وہ معنی کی کھوج میں بھٹکتا ہوا زندگی کو ایبسرڈ کا نام دے دیتا ہے۔ وہ منطقی سطح پر زندگی کی اونچ نیچ کا انکار نہیں کرتا، بلکہ انسانی سطح پر اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کائنات میں اس کے سوالوں کا جواب موجود ہی نہیں اور حقیقت جاننا ناممکن ہے۔ انسانی ذہن اور معاشرے کی اس سے وابستہ امیدوں کا جب تکمیل سے وصال نہیں ہو پاتا، تو وہ زندگی کی تلخیوں کو معنی سے مبرّا  قرار دے دیتا ہے، جیسے کسی نے کہا تھا،
“I might have been an unfortunate little bull in a Spanish arena, I got so smartingly touched up by these moral goads.”

اس سوال کے جواب کے لیے ایپی قورس، کنفیوشس،ارسطو، سقراط، سارتر، نطشے، کانٹ سمیت بے شمار ماہرین نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے، کیا یہ عجیب نہیں کہ ان سب کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف تھے اور ابھی تک ان ذہین لوگوں کے بتائے ہوئے مقصدِ حیات کے سامنے کئی سوال سر اٹھائے نظر آتے ہیں۔سائنسدانوں نے اپنی الگ توجیہات پیش کیں، مگر وہ سب بھی ایک دوسرے سے متفق نہ ہو پائے اور ماہرین سماجیات نے اپنے نظریات پیش تو کیے لیکن یہ سب لوگ مقصد ِحیات کے چند پہلوؤں پر نظر ٹکاتے رہے اور دیگر کئی پہلوؤں سے لا علم رہے۔ مقصد حیات کا کوئی یک لفظی مفہوم اور حل نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع اصطلاح ہے۔ میں سوچتا ہوں کیا کوئی ایسا ایک نظریہ ہے جس میں ان تمام ماہرین کے نظریات بھی سما جائیں اور وہ مقصد حیات کو بھی واضح کر سکے۔

جب عقل ایک حد پہ ٹھہر جاتی ہے، سوال بے معنی ہو جاتے ہیں اور نظریات بے کار پڑنے لگتے ہیں تو پھر کہاں سے رہنمائی لی جائے؟ کس سے مقصد حیات کی تکمیل کا راز پوچھا جائے؟ کون ہے جو عقل کی حد سے آگے رہنمائی کر سکے؟ کیا کوئی ایسا معنی ہے اس بے معنی دنیا میں؟ سوچتا ہوں کہ جب ہم کوئی آلہ خریدتے ہیں، کوئی گاڑی یا مشین متعارف کروائی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ایک کتابچہ بھی ہوتا ہے۔ حتی کہ بچوں کے کھلونے بھی خریدیں تو اندر سے ایک ہدایت نامہ ضرور نمودار ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ رہنما ہوتا ہے، رہنما اس طرح کے وہ اس کھلونے، آلے یا مشین کے استعمال کے بارے ہمیں آگاہ کرتا ہے، تاکہ اس کھلونے، مشین یا گاڑی کے مقصد کو عین اسی طرح پورا کیا جا سکے جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا، کیا زندگی بغیر کسی رہنمائی کے وجود میں آ سکتی ہے؟ کیا مقصد حیات کے بغیر حیات بخشی جا سکتی ہے؟ نہیں۔۔ ۔  جب ایک عام کھلونا ہدایت نامے کے بغیر نہیں آتا تو پھر زندگی اور اس کے مقاصد کے بارے میں بھی کوئی رہنما صحیفہ، کتاب یا گفتگو لازماً موجود ہو گی۔ عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم دیے گئے کتابچے کو پڑھے بغیر اشیا کو اکثر تجربوں کے بل بوتے پر ہی کبھی ٹھیک اور کبھی غلط طریقے سے استعمال کرتے رہتے ہیں۔یوں بھی ہوتا ہے کہ جو خوبیاں اور خصوصیات ان میں ہوتی ہیں ہم اکثر ان سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔

یہی معاملہ زندگی اور مقصد زندگی کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ ہم ہدایت نامے سے نکل کر اپنی سوچ اور خواہش کے مطابق زندگی کو سمجھنے اور اس کے مقاصد کو کھوجنے کی جستجو کرتے ہیں اور پھر اکثر ہماری امیدیں، آرزوئیں اور خواہشات تو ادھوری رہتی ہی ہیں مگر ان کے ساتھ ساتھ ہم کائنات اور حیات کے معنی کو بھی بے معنی سمجھنے لگتے ہیں- جہاں جہاں انسانی زندگی کا وجود ہے بلاشبہ وہاں وہاں ہدایت نامہ بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔

کسی نے کہا تھا،
“Suffering has been stronger than all other teachings and has taught me to understand what your heart used to be. I have been bent and broken, but—I hope—into a better shape.”
رنج و الم اور غم انسان کے سامنے کئی راز افشاء کرتے ہیں، لیکن اگر انسان ان سب سے کچھ کشید نہ کرے، مادی بدن پر انحصار کرتے ہوئے روح کی آواز کو دبا لے، امیدوں کے بل بوتے پر خود سر ہو جائے تو پھر ایک وقت آتا ہے، جب مایوسی کی سیاہ چادر اسے لپیٹنے لگتی ہے اور وہ کائنات کو ایبسرڈ پکارنے لگتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا،
“عرفت اللہ سبحانہ بفسخ العزائم” یعنی میں نے اپنے رب کو پہچانا اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے۔ ۔۔کیسی خوبصورت اور گہری بات ہے۔ رب امیدوں اور ارادوں کے ٹوٹنے سے کیسے پہچانا جاتا ہے؟ جب آپ کے بنے بنائے منصوبے ناکام ہوتے ہیں، انسانی دماغ اور وسائل کے مؤثر استعمال کے بعد بھی بنے بنائے کام بگڑتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے؛ یوں کہیے کہ یہ معرفت حاصل ہوتی ہے کہ ہم تو عاجز ہی ہیں، فقط ہماری مرضی اور ارادہ تکمیل کا ضامن نہیں ہے۔

یہی وہ احساس ہے جس سے آشنائی پر لوگوں نے غاروں اور ویرانوں میں اسے ڈھونڈا، حجروں میں خلوت نشینی اور خانقاہوں میں مراقبوں سے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اکثریت نے وہ ہدایت نامہ پڑھے سمجھے بغیر اسے کھوجنے کی حامی بھری اور پھر کیا ہوا ۔۔ ماضی کے اوراق پر جا بجا ایسوں کے حالات بکھرے پڑے ہیں۔ جبکہ جنہوں پہلے انجیل، زبور اور توریت میں ڈھونڈا انھیں بہت سی نشانیاں ملیں اور وہ اس کے قریب پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ ایسے لوگوں نے کائنات کے پیچیدہ سوالوں کو بے معنی نہ کہا، امیدوں کے بکھرنے پر مایوسی ان کے پاس نہ بھٹکی اور منصوبوں کے ناکام ہونے پر وہ رنجیدہ نہ ہوئے بلکہ وہ اس ہستی کے اور قریب ہو گئے جو انھوں نے انجیل،تورات اور زبور میں دیکھی تھی۔یہاں تک کہ ہدایت اور نور کا مکمل مجموعہ قران حکیم زندگی اور کائنات کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے انسان کو ملا۔ آدمی بے چین اور مایوس ہوا تو اس نے کہا، “لاتقنطو من الرحمۃ اللہ”، اس پر رنج و الم نے سایہ کیا تو کہا گیا، واستعینو بالصبر والصلاۃ”، جب غور و فکر کا ذکر آیا تو بتایا گیا، “جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے رب ! تو نے یہ (سب کچھ) بے کار اور (بے مقصد) پیدا نہیں کیا (آل عمران)، جب آدمی مقصد حیات پر متشکک ہوا تو کہا گیا، “وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون” یعنی ہم نے جنات اور انسانوں کو اس لیے تخلیق کیا کہ وہ ہماری بندگی کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نےلفظ بندگی اور عبادت پر غور کرنا شروع کیا تو تہہ در تہہ کئی معنی نکلتے چلے گئے اور ان میں وہ سب پہلو دکھائی دینے لگے جو فلسفیوں، سائینسدانوں اور ماہرین سماجیات نے پیش کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ سب کے سب ادھورے تھے۔ یہ ہدایت کا مجموعہ کسی سوال کو مبہم نہیں چھوڑتا، کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے اور مقصد حیات کا تعین کرتے ہوئے اس کے لیے ایک بہترین راستہ بھی پیش کرتا ہے،مگر آہ! ۔انسان بڑا بے مروت ہے، وہ ان سب چیزوں کو ایبسرڈ کہنے سے باز نہیں آتا، کیونکہ وہ ان سب کو اپنائے گا تو لازماً پابند ہونا پڑے گا اور پابند ہونا مادی جسم کو قبول نہیں ہے- سو امیدوں کی بادبانی کشتی کو وہ وقت کی بپھری ہوئی لہروں کے حوالے کر دیتا ہے- ہر دانش مند تسلیم کرتا ہے کہ ،
“ثباتی زیست کی تسلیم کرتا ہوں مگر
کیا ضروری ہے کہ بے مقصد بھی ہو جائے حیات”
ہر مقصد بامقصد نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی ہر راستہ صراط مستقیم ہوا کرتا، سو زندگی تب تک ایبسرڈ نہیں ہے، جب تک اسے ہدایت نامے کے مطابق دیکھا اور پرکھا جائے، لیکن انسان کی یہ چاہت کہ ہر سوال کا فوری جواب ملے، ہر شے کا راز فوری افشاء ہو، یہ بھی ممکن نہیں ہے۔
“مصلحت نیست کہ از پردہ دروں افتد راز”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply