طب میں ہونے والی بے تحاشا ترقی کے باوجود کینسر کے معاملے میں خاص پیشرفت نہیں ہو پا رہی تھی۔ اگر کوئی ٹیومر مقامی ہے (کسی ایک عضو پر جسے سرجن نکال سکتا ہے) تو علاج کا امکان تھا۔ یہ پروسیجر extirpation کہلاتے تھے اور یہ انیسویں صدی میں سرجری میں ہونے والی بڑی ترقی کا نتیجہ تھے۔ ولیم ہالسٹیڈ نے 1890 کی دہائی میں چھاتی کے کینسر کو چھاتی نکال کر علاج کرنے کا طریقہ نکالا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ایکسرے کی دریافت کے بعد ریڈی ایشن سے ٹیومر مارنے کا طریقہ بھی آ گیا۔
لیکن سائنس میں کینسر ابھی ایک بلیک باکس تھا۔ ایک پرسرار شے جس کو کاٹ کر الگ تو کیا جا سکتا تھا لیکن اس پر کوئی گہری میڈیکل بصیرت موجود نہیں تھی۔ صرف دو ہی طریقے تھے۔ یا سرجن اس کو کاٹ دے یا پھر ریڈی ایشن سے اس کو جلا دیا جائے۔ گرم شعاع یا سرد چاقو ۔۔ یہی دو انتخاب موجود تھے۔
مئی 1937 میں فارچون میگزین نے کینسر کی ادویات پر مضمون “کینسر: عظیم تاریکی” کے عنوان سے تھا۔ “اس بیماری کے خلاف کوئی ترقی نہیں ہو سکی۔ نہ علاج میں اور نہ بچاوٗ کے لئے۔ علاج کے طریقے بہتر ہوئے ہیں۔ بغیر بے ہوش کئے تکلیف دہ سرجری کی جگہ جدید طریقے نے لے لی ہے جس میں تکلیف نہیں ہوتی۔ گوشت میں کاسٹک سے جلانے کی ماضی کی اذیت کی جگہ ایکسرے اور ریڈیم کی ریڈی ایشن نے لے لی ہے لیکن اصول وہی دو ہیں۔ کاٹ دو یا جلا دو۔ کوئی نیا بنیادی طریقہ معلوم نہیں ہوا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کی تحقیق پر فنڈنگ بھی بہت محدود رہی تھی جبکہ بیماری خود بڑھ رہی تھی۔ اور اس بری خبر کی وجہ ایک اچھی خبر تھی۔ کینسر کی شرح میں اضافے کی وجہ لوگوں کی عمر کی طوالت میں ہونے والا اضافہ تھا۔ ٹائیفائیڈ نایاب ہوتا جا رہا تھا۔ چیچک خاتمے کے قریب تھی۔ بڑے قاتل کا کردار اب کینسر لے رہا تھا۔ 1926 میں تپدق کو پیچھے چھوڑ کر یہ دوسری سب سے موذی بیماری بن چکی تھی۔ (اول نمبر دل کی بیماریوں کا تھا)۔ اس وجہ سے اس کی تحقیق کو توجہ ملنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں میتھیو نیلی کی کوشش سے 23 جولائی 1937 کو نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت سائنسی ادارے نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا۔ ادارے کے لئے اکتوبر 1938 میں عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ لیکن یہ سیاسی لحاظ سے نامناسب وقت تھا۔ اس سے کچھ ہی عرصے کے بعد یورپ اور ایشیا عالمی جنگ کی لپیٹ میں تھے۔ کینسر کے لئے بنایا جانے والا سنٹر ملٹری ہسپتال بنا دیا گیا۔ سائنسدان، ڈاکٹر، سرجن، لابی کرنے والے سب پس منظر میں چلے گئے۔ کینسر کی تحقیق پر خاموشی چھا گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ پس منظر تھا جب فاربر نے کینسر پر تحقیق شروع کی تھی۔ لیوکیمیا (خون کا کینسر) ایک عجیب بیماری تھی۔ نہ ہی اس کے لئے دوا تھی۔ نہ ہی اس پر سرجری کی جا سکتی تھی۔ فاربر نے کہا کہ اس کے علاج کا سرا اسی وقت مل سکتا ہے جب خون کی سٹڈی کی جائے۔ اگر ہمیں معلوم ہو سکے کہ خون کے نارمل خلیے کس طرح بنتے ہیں تو پھر ہم ایب نارمل خلیات کے بننے کو بلاک کر سکیں گے۔ کینسر کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی ریورس میں کام کرے گی۔
کیوں نہ خون کے کینسر سے الٹ ایک بیماری کو دیکھا جائے؟ یہ بیماری انیمیا تھی جس میں خون کے سرخ خلیے کم بنتے ہیں۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں