فلسطین میں خون کی ہولی کا آدھا برس/فرزانہ افضل

سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے ضرورت سے زیادہ رد عمل دیا اور فلسطینیوں پر بربریت اور ظلم کے مسلسل خونی عمل کو اپنے دفاع کا نام دیا۔ جس میں اس کے اتحادیوں امریکہ اور برطانیہ سمیت ملکوں نے اسرائیل کا پورا ساتھ دیا اور بیانیہ اپنایا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے اور اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اسرائیل کو ہر طرح کی مدد جدید اسلحہ، میزائل اور ٹینک غیر مشروط طور پر مہیا کیے جا رہے ہیں۔ جب کہ بینجمن نیتن یاہو اور اس کی حکومت بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی مسلسل خلاف ورزی کی مرتکب ہے۔ گو کہ اسرائیل کو اس کے سپورٹرز کی طرف سے سپورٹ کے ساتھ ساتھ وارننگز بھی دی جاتی رہی کہ وہ حدود میں رہ کر کاروائی کرے مگر اسرائیل نہ صرف نظر انداز کرتا رہا بلکہ جارحانہ اور بدمعاشانہ طرز عمل دکھا رہا ہے
نیتن یاہو کے بیانات اس بات کی گواہی ہیں کہ اس کو نہ تو کسی وارننگ کی پرواہ ہے اور نہ ہی کسی کا خوف، وہ خون کی ہولی کھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جو نہ صرف جمہوریت کے پروٹوکول کو نظر انداز کر رہی ہے بلکہ قانونی دائرے کو بھی عبور کر چکی ہے۔ اس کا رویہ اس طرح کا ہے کہ اس پر کسی کا زور نہیں چل سکتا۔ اسرائیل کی خطرناک ذہنیت اور جنگ کے طریقہ کار سے اس نے خود کو بین الاقوامی سطح پر ایک ناقابل اعتبار ریاست بنا لیا ہے میڈیا کے مطابق اسرائیلی دفاعی فوجوں نے غزہ میں “کِل زون” بنا دیے ہیں جن کی کوئی مارکنگ نہیں ہے اور جو بھی ان پوشیدہ لائنوں کو عبور کرتا ہے اسے گولی مار دی جاتی ہے۔ اسرائیلی فوجیں ایک خوفناک
میکنزم استعمال کر رہی ہیں، اپنے اہداف کی شناخت کے لیے مصنوعی انٹیلیجنس کا استعمال کر رہی ہیں ذرائع کے مطابق پندرہ سے بیس شہریوں کو مشترکہ طور پر فضائی حملوں کے ذریعے ہلاک کیا گیا جو بقول اسرائیل کم درجہ کے عسکریت پسند تھے۔ اسرائیلی فوجوں نے غزہ میں اپنے ٹارگٹس کے لیے درجہ بندی کی ہوئی ہے یعنی کم درجہ کے فلسطینیوں کے لیے سستے اور عام قسم کے بم استعمال کیے جاتے ہیں ایک انٹیلیجنس افسر کا کہنا تھا کہ غیر اہم لوگوں کے لیے قیمتی بم استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ان کے پاس پہلے ہی مہنگے بموں کی کمی ہے۔ مگر ہر ظلم کا بالاخر انجام ہوتا ہے اور ظالم کو ظلم کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے اسرائیل نے بحیثیت ایک ریاست اپنے امیج کو سبوتاژ کیا ہے ۔
اسرائیل کا بڑا سپورٹر برطانیہ جس کی ایک چیریٹی تنظیم ورلڈ سینٹرل کچن کے سات امدادی کارکنان اسرائیل نے ہلاک کر دیے ، باری باری تین گاڑیوں پر میزائلوں سے حملہ کر کے انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ برطانیہ سے ریگولر جانے والے امدادی ورکروں میں کسی کو بھی پکڑ کر حراست میں رکھ لیتے ہیں اور کئی دن تک ہراساں کرتے ہیں ایسا حال ہی میں ہمارے ایک مقامی چیرٹی ورکر کے ساتھ ہوا ہے جس کو تین دن تک حبس بیجا میں رکھا گیا اور اس سے اپنی ہیبرو زبان میں لکھی کسی دستاویز پر زبردستی دستخط کروانے کی کوشش کی گئی مگر برطانوی شہریت کے ہونے کے باعث تین دن بعد رہا کر دیا گیا۔ اسرائیل اس حد تک خطرناک اور بے قابو ہو گیا ہے کہ اپنے اتحادی ملکوں کے شہریوں کو بھی ہلاک کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس افسوس ناک واقعہ نے شاید برطانوی حکومت اور پارلیمنٹیرین کی آنکھیں کھول دی ہیں، دائیں بازوں کے برطانوی کالم نگار نک فراری نے اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ مہیا کرنا بند کیا جائے۔ امدادی کارکنوں پر حملہ دفاع کے زمرے میں نہیں آتا۔ ان امدادی کارکنوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کی اپنی ساکھ خطرے میں آ گئی ہے کہ وہ اس خونخوار ریاست کی حمایت کر رہا ہے اور اسرائیل کا سیاسی دوست ہے۔ لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کی ہائی پروفائل شخصیات اور ہتھیاروں کی برآمدات میں ملوث سرکاری افسران بھی اسرائیل کے خلاف قانون کاروائی پر غور کر رہے ہیں اور اس بات پر پریشان ہیں کہ وہ خود ذاتی طور پر اسرائیل کی اس قانون شکنی کے قصور وار ٹھہرائے جا سکتے ہیں اور ان سات امدادی کارکنوں کا خون ان کے ہاتھوں پر دکھائی دے سکتا ہے۔
چھ ماہ کا یہ طویل عرصہ جس میں فلسطین میں ہر طرف خوف و ہراس گردش کر رہا ہے، معصوم بچوں کا قتل عام، ہسپتالوں اور پناہ گزینوں پر حملے ، محفوظ مقام کی تلاش میں جا تے نہتے شہریوں کا قتل، اور اب خوراک کی قلت بلکہ قحط کہ غزہ کے خاندان گھاس کا سوپ بنا کر بچوں کو پلا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر جنگ کے بارے میں خبروں پر پابندی کے باوجود واٹس ایپ پر پوری دنیا میں سب کچھ نشر ہو رہا ہے۔ عرب ممالک کے لیے بھی اس صورتحال میں اپنی بین الاقوامی پالیسی کو سنبھال کر چلنا مشکل ہو رہا ہے کہ امریکہ بھی ناراض نہ ہو، اسکے ساتھ تعلقات اچھے بنے رہیں اور غزہ کی جنگ بڑھنے کے ساتھ ساتھ انکا علاقائی استحکام بھی کمزور نہ پڑے، اور ان کی اپنی عوام کا جنگ پر غم وغصہ بھی کنٹرول میں رہے، یہ سب عوامل مل کر عرب ممالک کے اپنی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ میں فلسطین میں جنگ بندی کے مطالبے کے حق میں مسلسل پرزور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور برطانوی عوام میں فلسطینیوں کے لیۓ شدید رنج و غم پایا جاتا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا کے سیاسی حالات متاثر ہو رہے ہیں۔
بالاخر جو بائیڈن نے نیتن یاہو کو سخت کال دی ہے کہ اب اسرائیل کو مشروط حمایت ملے گی (جو اس سے پہلے غیر مشروط بنیاد پر تھی)، اس نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات، انسانی مصائب اور امدادی کارکنوں کی حفاظت کے لیے موثر اور قابل پیمائش اقدامات کا ایک سلسلہ نافذ کرے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ بالاخر امریکہ کے لہجے اور پالیسیوں میں تبدیلیاں عوامی رائے اور احتجاجی مظاہرین کے مطالبات کے مطابق ڈھل رہی ہیں۔ مظاہرین جن کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر ان کے مطالبات کو رد کر دیا گیا تھا شاید سات امدادی کارکنان کی ناگہانی ہلاکتوں کی افسوس ناک    کہانی  اسرائیل کے حمایتیوں کا دل اور ذہن بدل دیں اور جنگ بندی ہو جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply