یوم مئی اور مزدور تحریک کے خدوخال

آج یکم مئی ہے مزدوروں کا عالمی تہوار ،ان محنت کش شہدا کی یاد کا دن جو 131برس قبل مارکیٹ شکاگو ( امریکا )میں سرمایہ دارانہ نظام کے عفریت کو للکارتے ہوئے سولیوں پر جھول گئے ۔سرمائے کے جبر کے خلاف جنگ نے کئی ایک رخ اختیار کیے ،مزدوروں نے تاریخی فتوحات اپنے نام کیں ،بدترین شکستوں سے دوچار ہوئے ،کبھی تحریک آتش فشاں بن گئی تو کبھی راکھ میں سلگتی چنگاریاں رہ گئیں لیکن یہ شعلہ جاوداں ہے کہ کبھی بجھا نہیں ۔آج بین الاقوامی مزدور تحریک ایسے عہد سے گزر رہی ہے جہاں ایک طرف شکست وریخت ہے تو دوسری جانب نئے زمانے کے ظہور کے لیے جدوجہد کی صف بندیاں بھی ہو رہی ہیں لیکن فی الوقت سرمائے کی حیوانیت کا راج ہے ۔
اس تناظر میں اگر ہم اپنے سماج پر نظر ڈالیں تو ہم حیوانیت کے ایک بھیانک سیاسی اظہار یعنی آمریت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیتے ہیں لیکن اس جمہوری فتح کے ثمرات عوام خصوصاً محنت کشوں کی دسترس میں آنے کی بجائے حکمرانوں کی امارت میں اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔اب اس کھیل تماشے کو جو جمہوریت کے نام پر جاری ہے آٹھ برس سے زائد ہو گئے ۔میدان میں موجود تمام بڑی جماعتیں کسی نہ کسی طرح اقتدار میں شامل بھی ہیں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری بھی سب کے سامنے ہے ۔ وقت کا آئینہ سب کچھ عیاں کر رہا ہے ۔ عوام کی تذلیل اور دھوکہ دہی اپنی معراج پر ہے ۔منافقت سے بڑھ کر اب سینہ تان کر طاقت کے زور پر جرم کا چلن عام ہے ۔حکمرانوں نے آمریت سے چھٹکارے کے لیے جمہوریت کو زینے کے طور پر استعمال کیا تاکہ وہ آمروں کے کم تر حصہ دار بننے کی بجائے بلاشرکت غیرے لوٹ مار کا بازار گرم کر سکیں ۔وہ کامیاب جا رہے ہیں، عوام کے لیے اس ذلت آمیز سلوک کے باوجود جمہوریت سے آمریت کی جانب پلٹنا ناقابل تلافی نقصان اور مزید گھاٹے کا سودا ہے ۔جب کہ سماجی انصاف اور قانون پر مبنی محنت کش دوست جمہوریت کی جانب مراجعت کے لیے کوئی بڑی تحریک اور جستجو کرتی عوامی قوت موجود نہیں ۔ سیاسی طور پر متحرک کارکن جن کی بڑی اکثریت اقتدار پرست پارٹیوں سے امید لگائے بیٹھی ہے جو پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی ۔سماجی تبدیلی اور بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی خواہاں قوتیں نہ صرف کمزور ہیں بلکہ راہ ہی سے بھٹکی ہوئی ہیں ۔وہ اس قوت کی جانب دیکھ ہی نہیں رہیں اور نہ ہی متوجہ کر پا رہی ہیں جن کووہ تبدیلی کا انجن قرار دیتی ہیں ۔ فوجی جرنیلوں ، مذہبی پنڈتوں ،نسل پرست گروہوں ،پلوں اور سڑکوں کو ترقی کی معراج قرار دینے والوں اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے تو تبدیلی کے اس سماجی انجن کی جانب کبھی دھیان ہی نہیں دینا ، لیکن اس سماجی انجن کی قوت ،رفتار اور موجودہ کیفیت پر بات کیے بغیر تبدیلی اور وہ بھی بنیادی سماجی تبدیلی کا سوچنا اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے ۔ سماجی تبدیلی کا انجن محنت کش یعنی مزدور ،ہاری ،کسان یہ ملک کی کل آبادی کا 32%سے زائد ہے اور بالغ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ 70%سے زائد یعنی ساڑ ھے چھ کروڑ کے قریب بنتا ہے ،عمومی طور پر خاموش تماشائی بنا بیٹھانظر آتا ہے ۔یہ اگراپنی ذاتی زندگی میں تبدیلی کے لیے کوششوں سے نالا ں ہے تو پھر اجتماعی مفادات کی جستجو سے کوسوں دور کیوں نہ ہو ۔سیاسی عمل میں اپنا طاقتور اظہار وہ عرصہ ہوا بھول چکا ۔آج ہم اس کی گم گشتہ عظمت کے ترانے گانے کی بجائے نئے حالات میں اس کے گرد وپیش کا جائزہ لیں گے اور اگر کہیں دبی چنگاری سلگ رہی تو اسے بھی کریدنے کی موہوم سی کوشش کریں گے ۔
پاکستان کی لیبر فورس کا 80%سے زائد غیر منظم شعبے سے تعلق رکھتا ہے ، جب کہ منظم ٹریڈ یونین میں اس کی شرح 2%سے زائد نہیں ۔اگر گورنمنٹ یعنی پبلک سیکٹر جس میں ریلوے ، واپڈا ،بلدیات ،آئل گیس اور اسٹیل ملز جیسے اداروں کے مزدوروں کا شمار نہ کیا جائے تو پرائیوٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونین میں منظم مزدور ایک فی صد سے بھی کم رہ جاتے ہیں جو کہ جنوبی ایشیاءمیں سب سے کم تر سطح ہے ۔مزدور تحریک کو منظم کرنے کے قانونی ذرائع تیزی کے ساتھ اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں ۔لیبر قوانین کی ارتقائی تاریخ بتاتی ہے کہ نوآبادیاتی نظام سے ورثے میں ملنے والے قوانین کئی لحاظ سے آج کے قوانین اور عمل درآمد کے طریقہ کار کے اعتبارسے بہتر تھے ۔تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے مزدور یونین سازی کے حق سے بہرہ مند تھے،یہاں تک کہ فوجی اداروں میں تمام سویلین اور پولیس تک کو یونین سازی کا حق حاصل تھا لیکن بتدریج مزدوروں سے نہ صرف کئی ایک شعبوں میں یونین سازی کا حق چھین لیا گیا بلکہ اداروں میں یونین سازی کا طریقہ اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا کہ یونین سازی تقریباًٍ ناممکن ہو کر رہ گئی ۔
لیبر قوانین کی تشکیل نہایت جمہوری انداز میں طے کرنے کا سہہ فریقی طریقہ کار رائج ہے ،یعنی مالکان ،مزدوروں اور حکومتی نمائندے باہمی مشاورت سے صنعتی تعلقات سے متعلق قوانین کو حتمی شکل دیتے ہیں ۔اس عمل میں مزودر ہمیشہ کم تر کمزور پوزیشن میں رہے ہیں ،یوں مالکان جو کچھ خود تسلیم کرتے ہیں اس پر بھی عملدرآمد کرانے میں ہمیشہ نہ صرف ناکام رہے ہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ۔حکومتی ادارے اور حکومتیں بلا استثناء صنعتکاروں کے خدمت گار بننے کو طرہ امتیاز سمجھتی ہیں ۔اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرمائے نے براہ راست سیاست کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لی ہے ۔نواز شریف ہو یا آصف علی زرداری یا پھر جہانگیر ترین ، یہ سیاست دان اور قانون سازی کرنے والے اداروں کے روح رواں ہی ہیں بلکہ ملک کے بڑے صنعتکارہیں ۔ان کے درمیان تمام تر سیاسی اختلافات اوررسہ کشی کے باوجود ایک قدر مشترکہ ہے کہ یہ سب اپنی فیکٹریوں میں مزدوروں کو یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری کے بنیادی آئینی اور جمہوری حق دینے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں لیکن ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے عظیم ترین علم بردار بھی یہی بنے ہوئے ہیں۔ان کی صنعتوں میں مزدور حقوق کے لیے آواز اٹھانا، صنعتی تنازعات کے حل کے لیے لیبر کورٹس اور لیبر ڈپارٹمنٹ سے آس لگانا پتھر کا ہوجانے کے مترادف ہے ۔یوں سیاست کی آڑ میں سرمائے کے تسلط کا بھیانک کھیل جاری ہے ۔
سرمائے کی پروردہ حکومتیں مقامی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا ہر لحظہ اعادہ توکرتی ہیں لیکن حقیقت میں ان سب قوانین پر عمل درآمد کو خود پر حملہ تصور کرتی ہیں اس ملک میں حکومتوں نے کئی ایک بین الاقوامی لیبر کنونشنز کی توثیق کی ہے اور یہ اس پر عمل درآمد کا خوش کن نقشہ بھی پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت اس سے بھی کئی گنا بھیانک ہے جس کا عمومی طور پر مزدوروں کے حالات کار سے متعلق تصور کیا جاتا ہے ۔غیر منظم شعبوں یعنی زراعت ،بھٹوں ،گھر مزدوروں ،تعمیراتی،کانکنی ودیگر سے متعلق کروڑوں مزدوروں کا کوئی پرسان نہیں ہے ۔آوارہ جانور بھی کیازندگی گزارتا ہو گا جو یہ مزدور دن بھر کی مشقت کے باوجود گزارنے پر مجبور کیے جاتے ہیں ۔خود منظم صنعتی شعبے کا مزدور جدید دور کا غلام ہے ۔قانون اور آئین کہتا ہے کہ وہ یونین بنا سکتا ہے لیکن حقیقت میں اسے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی سے زائد کام غیر قانونی ہے لیکن حقیقت میں یہی قانون ہے ،ہیلتھ اور سیفٹی، پنشن اور قانون سازی حق ہے مگر محنت کش نہ صرف اس سے محروم ہے بلکہ اس پربات کرنا بھی ان کے لیے بے روزگاری کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اجتماعی سوداکاری باہمی معاہدے ،یونین سازی ،گریجویٹی ،گروپ انشورنس ،پانچ فی صد سالانہ بونس جیسے حقوق لیبر قوانین کی کتابوں میں افسانوں کی طرح موجود ہیں لیکن کوئی اس حق کو زبان پر لائے تو دیوانہ قرار پائے ۔ صنعتوں کے مالکان کے نزدیک حقوق کی بات معاشی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے جب کہ حکومتیں ان کی اس بے وزن دلیل کو عملاً تسلیم کرچکی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود غیر قانونی ٹھیکہ داری نظام مختلف شکلوں میں رائج ہے اور اعلیٰ عدلیہ کا منہ چڑا رہا ہے اور عدلیہ ہے کہ کروڑوں انسانوں کے بنیادی حق کی پامالی پر بے بس نظر آ رہی ہے۔ کام کی جگہوں پر ماحول خطرناک حد تک غیر محفوظ ہے ۔بلدیہ فیکٹری سانحہ، شپ بریکنگ گڈانی کے سانحے اس لیے نظروں میں آ گئے کہ انہیں چھپانا ناممکن ہو گیا تھا لیکن عام فیکٹریوں ،کارخانوں سے لیکر شاہراہوں ،پلوں کی تعمیر ،کانکنی کے دوران ہو نے والے مسلسل حادثات سانحہ کی فہرست میں نہیں آتے اس لیے نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ،فیکٹریاں،کارخانے اور کارگاہیں حقیقی معنوں میں موت کے پروانے جاری کرنے کے مراکز ہیں۔
نئے قوانین کی نوید سنائی جاتی ہے لیکن مزدوروں کی زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔آئین میں ہونے والی 18ویں آئینی ترمیم نے بھی صنعتی صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے مزید بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔پی پی کی سابقہ وفاقی حکومت جہاں اس تاریخی فیصلے کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے وہیں خود اس نے آئینی ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقی سطح پر لیبر منسٹری کو نئے نام سے متعارف کرایا ، آئی آر اے 2012کے ذریعے ایک بار پھر مرکز کو صوبوں پر مسلط کر دیا اور آجEOBIجیسے کئی ایک اداروں کو وفاق اور صوبوں کے درمیان فٹ بال بنا دیا گیا ہے ۔اس آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو لیبر سے متعلق قوانین بنانے کا کلی اختیار مل گیا لیکن تیاری نہ ہونے کی بنا پر صوبے بھی عمومی طور پر ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے ۔نتیجے کے طور پر مزدور مزید مشکلات میں گھر گئے ۔IRA2012کے تحت نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن ملنے والے اختیارات کے تحت NIRCمزدوروں کے لیے تو مذبحہ خانہ بن گیا ہے جہاں مزدوروں کے لیے یونین سازی کے دروازے بند ہیں لیکن پاکٹ یونین رجسٹرڈکرنے میں یہ ادارہ اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔NIRCمیں چیئرمین کی نامزدگی حکومتی استحقاق ہے اور یہ ریٹائرڈ جج ہوتا ہے جو تین سال کے لیے عہدے پر ہوتا ہے ۔یوں یہ ادارہ مزدوروں کو ریلیف پہنچانے کی بجائے مالکان کے تحفظ کا مضبوط مرکز بن گیا ہے ۔اگر کچھ مزدور کسی فیکٹری یا کارخانے میں صوبائی سطح پر تمام تر مشکلات کے باوجود یونین رجسٹرڈ کروا بھی لیتے ہیں توفیکٹری انتظامیہ IRA2012کی آڑ میں بدنیتی سے دیگر کسی بھی صوبے میں اپنا آفس یاگودام ظاہر کر کے خود کو بین الصوبائی ادارہ ہونے کا دعویٰ کرکے اپنے قانونی مشیروں کے توسط سے ایک صوبے میں موجود فیکٹری کے کچھ ورکرز اور دوسرے صوبے میں موجود گودام یا آفس کے ایک دو گھوسٹ ملازمین کی ممبر سازی کر کے بین الصوبائی یونین کی رجسٹریشن کے لیے NIRCسے رجوع کرتی ہے ،رشوت دیتی ہے اور بیک وقت دو یونینز کی رجسٹریشن حاصل کرلیتی ہے ۔ یوں نہ صرف صوبائی سطح پر رجسٹرڈ یونین غیر فعال ہو جاتی ہے بلکہ بین الصوبائی حقیقی مزدور یونین کی رجسٹریشن کا راستہ بھی مکمل طور پر روک دیا جاتا ہے ۔مزدوروں کے لیے اسلام آباد جاکر NIRCمیں رجسٹریشن کے لیے کاغذات جمع کرانا اور مسلسل چکر لگانا معاشی طور پرتقریباً ناممکن ہوجاتا ہے ۔اس لیے ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ تمام بڑے پرائیویٹ صنعتی اداروں خصوصاً ٹیکسٹائل ،گارمنٹس میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں کو علم ہی نہیں کہ ان کے اداروں میں یونینز موجود ہیں اور NIRCسے مالکان نے رجسٹریشن حاصل کی ہے تاکہ بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز کو کاغذی طور پر مطمئن کیا جاسکے اوران کے لیے بھی کافی ہے کہ صارفین کو بتایا جا سکے کہ قانون کی پاسداری ہو رہی ہے ۔
یہ عالم آشکار بات ہے کہNIRC کا ادارہ مزدوروں اور مزدور تحریک کے لیے زہر قاتل اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ایسا خطرناک ہتھیار ہے جس سے وہ رہی سہی مزدور مزاحمت کو کچل رہاہے۔یہ ساری مزدور دشمنی ، آئین اور قانون کی توہین و تضحیک عین سپریم کورٹ کی ناک کے نیچے اور ملک کے سب سے مقدس ادارے ”پارلیمنٹ “ کی بغل میں واقع ” نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن“ NIRCاسلام آباد میں پچھلے پانچ برس سے روزانہ کی بنیادوں پر جاری ہے ۔NIRCمویشی منڈی کا منظر پیش کرتا ہے جہاں انصاف بکتا ہے ،مزدوروں کا جانوروں کی مانند خرید وفروخت کا بازار لگتا ہے،ان کے خون اور پسینے کا سودا دن دیہاڑے ہوتا ہے اور کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے ۔ صوبائی ادارے اپنے آئینی حق سے دستبردار ہو چکے ہیں اور مزدورحقوق کووفاق کے نام پر NIRCکی قربان گاہ میں صنعتی ترقی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ۔بھیانک صورتحال یہ ہے کہ سندھ جہاں ملکی صنعت کا 65% موجود ہے وہ بغیر کسی لیبر منسٹر کے کام کر رہا ہے جب کہ وفاقی سطح پر ایک ایسا شخص مزدور امور کا منسٹر ہے جو ایک بہت بڑا جاگیردارہے ۔ایسی دگرگوں صورتحال میں بین الاقوامی کنونشنز کی پاسداری اور ILOکا طریقہ کار بھی صورتحال کو تبدیل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے ۔GSP+جو کہ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کی مصنوعات کے لیے منڈیوں کو کھولنے کے خصوصی مراعات کا معاہدہ تھا جس کے ذریعے پاکستانی ریاست اور صنعت کاروں خصوصاً ٹیکسٹائل گارمنٹس کے شعبے کے سرمایہ داروں نے مراعات سے تو خوب استفادہ کیا اور اپنے منافع اور فیکٹریوں میں اضافہ کیا لیکن اس میں مزدور حقوق پر عمل درآمد کے وعدوں سے مسلسل انحراف کو روا رکھا گیا ۔GSP+سے حکومت نے نیک نامی کمائی ، مالکان اور برانڈز نے خوب منافع کمایا لیکن مزدوروں کے حصے میں شب وروز محنت اور بدحال زندگی ہی آئی ۔اس پر ستم یہ ہے کہ مزدوروں کے اوقات کار اور حالات کار میں بہتری اورتبدیلی کے نام پر بے دریغ منافع کامزدوروں کو علم اور آگاہی ہی نہیں ۔یہی کچھ کئی بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈزکے بین الاقوامی مزدور تنظیموں کے ساتھ ہونے والے گلوبل فریم ورک ایگریمنٹں(GFA)کے سلسلے میں بھی روا رکھا جا رہا ہے ۔بڑے بڑے برانڈز صارفین کو بتا رہے ہیں کہ جن فیکٹریوں سے وہ مال حاصل کرتے ہیں وہاں ان معاہدوں کی روشنی میں مزدوروں کو تمام بنیادی حقوق مل رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے عین برعکس ہے ۔یہ صرف کاغذوں میں ہی نظر آتا ہے لیکن فیکٹریاں،کارخانے آج بھی عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں ۔ GFAکوہمارے جیسے ممالک میں مزدور حقوق سے متعلق برانڈز کی مجرمانہ غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیے نہ صرف استعمال کیاہے بلکہ اپنے صارفین کو مسلسل دھوکہ دیا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان اس کی بد ترین مثال ہے ۔بدقسمتی سے بین الاقوامی مزدور تنظیمیں اور ان میں شامل شمالی حصے کی ٹریڈ یونینز اپنی طاقت کی بنیاد پر بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز سے جب GFAکرتی ہیں تو جنوب کے ان کروڑوں مزدوروں اور ان کی تنظیموں سے بامعنی مشاورت کو درخور اعتنا نہیں سمجھتیں جہاں ان معاہدوں پر عمل درآمد ہونا ہوتا ہے ،جہاں سے یہ کمپنیاں اور برانڈز اپنی مصنوعات مزدوروں کا بدترین استحصال کر کے تیار کراتی ہیں ۔اسی لیے یہ معاہدات دیگر بین الاقوامی مزدور کنونشنزاور GSP+کی طرح تیزی سے بے اثر ہوتے جا رہے ہیں ۔اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان جس کا شمار کپاس پیدا کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں ہونے کے باوجود ملبوسات کی 800ارب ڈالرز کی بین الاقوامی منڈی میں حصہ 14ارب ڈالر یعنی 1.9%بنتا ہے جب کہ ویت نام جیسے ملک کا حصہ 6.1%یعنی کوئی 50ارب ڈالرز کے قریب ہے ۔
اس ساری صورتحال میں مزدور تحریک کو پیچیدہ اور گھمبیر چیلنجزسے مقابلے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت عرصہ دراز سے درپیش ہے ۔ آج سرمائے کی تاریخی جبلت کی بنا پر ILOکاپیش کردہ تصور کہ مزدور سماج میں سوشل پارٹنر ہیں،یہ طبقاتی منافرت کی بجائے طبقاتی مفاہمت کا سوشل ڈیموکریٹک نظریہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے جب کہ منظم مزدور تحریک کمزوری کی وجہ سے مزدور طبقہ سوشل کاوؤنٹر پارٹ ( سماجی متبادل) بننے میں بھی اب تک ناکام رہا ۔مزدور طبقہ تمام تر پیداواری عمل میں اپنی اہمیت کے باوجود اپنے سماجی ،معاشی اور سیاسی اظہار میں بڑی حد تک ناکام رہا ہے ۔محنت کش اپنی حقیقی شناخت سے فراریت کی راہ پر گامزن رہا اس لیے سیاسی اظہارکے لیے اپنے دشمن طبقات سے آس لگاتا آیا ہے ،نسلی اور قومی تفاخر کی شمع کے گرد پروانے کی طرح جل مرنے پر تیار رہتا ہے اور یہ من حیث الطبقہ خود شکستی کے حصار سے باہر نکلنے پر عمومی طور پرآمادہ نظر نہیں آتا ۔ اگر ایسا سب کچھ ہے تو یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے ۔اس لیے کہ خود فریبی کے سارے جال آخر کار خود مزدور طبقے ہی کو مقید کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔محنت کش طبقے نے آمریت کے تجربات دیکھ لیے، مذہب کے نام پر ہونے والی وحشت اور بربریت دیکھ لی، نسل پرست دہشت گردی اور قوم پرستی کے نام پر بھتہ خور اور قبضہ گیر مافیا کو دیکھ لیا ۔جمہوریت کے نو رتنوں کی کارستانیوں کے قصے چاروں صوبوں اور پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان وکشمیر میں اس سے چھپے نہیں ہیں ۔سچ یہی ہے کہ محنت کش طبقے کے لیے کوئی چارہ گر نہیں بن سکا لیکن جب بھی محنت کشوں نے خود سے اپنی قیادت سنبھالی چھوٹی ہی سہی لیکن ہمت دلاتی کامیابی حاصل کی ،سانحہ بلدیہ کی جدوجہد ہو یا گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت سے وابستہ مزدور ہوں یا دیگر اداروں میں جدوجہد ہو وہ اپنی جنگ خود لڑ کر فتح یاب ہوئے ہیں ۔یہی مزاحمت نئے حوصلوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے ۔گھر مزدور عورتوں کی تحریک ہو کہ سندھ کے ہاریوں کا منظم ہونا یہ نئے افق کی نوید ہے ۔حالات اور سرمائے کی پروردہ سیاست جہاں تیزی سے محنت کشوں کو بیزار کر رہی ہے وہیں یہ خود پر انحصار کرنے کی ترغیب کا بھی آغاز بن سکتی ہے ۔بہت ہی چھوٹے پیمانے پر سہی لیکن نئی صف بندی آہستگی اور غیر محسوس انداز میں جنم لے رہی ہے ۔فیکٹریوں میں تنظیم سازی شجر ممنوعہ ہے تو بستیوں میں جتھہ بندی روکنا ممکن نہیں۔ملک کی لیبر فورس میں نوجوانوں کا حصہ 60% جب کہ صنعتی مزدوروں میں نوجوانوں کی شرح 72%سے زائد ہے ۔وہ اپنے مستقبل کے لیے پرجوش بھی ہیں اور حق کے لیے انفرادی کی بجائے اجتماعی طور پر لڑنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں ۔ اس لیے مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن یہی نوجوان محنت کش ہیں جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہے اور وہ منظم ہونے کے لیے شعوری طور پر آمادہ ہو رہے ہیں ۔یہی وہ وقت ہے کہ طاقت کے توازن کو سرمائے کے مقابلے میں محنت کشوں کے حق میں بدلنے کی طرح ڈالی جائے ۔یکم مئی کا دن اس ” طرح “ ڈالنے کے عزم کا دن ہے ۔ آج یکم مئی کے عظیم موقع پر اس عہد کو دہراناہو گا کہ مزدور کو اپنی سب سے طاقتور شناخت یعنی ” مزدور “ کی حیثیت سے منظم ہونا ہے اور خود کو مذہب ،فرقہ نسل پرستی ،لسانیت کی بنیادپر تقسیم وتفریق نہیں کرنا کیونکہ سرمائے کے ہاتھ میں مزدوروں کے خلاف یہ سب سے خطرناک اور مہلک ہتھیار ہے ۔

Facebook Comments

ناصر منصور
محنت کی نجات کے کوشاں ناصر منصور طالبعلمی کے زمانے سے بائیں بازو کی تحریک میں متحرک ایک آدرش وادی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply