نرگسیت زدہ شخص کی رخصتی۔۔محمد اسد شاہ

نرگسیت زدہ شخص کی رخصتی۔۔محمد اسد شاہ/وزیراعظم کے منصب پر ایک سابق کرکٹر عمران خان کی موجودگی ، اور پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام پر بہت سے سوالیہ نشان پہلے دن سے موجود ہیں ۔ آج نہیں تو کل ، تاریخ ان کے جوابات دے گی ۔ یہ قرب قیامت کا دور ہے ، دجل و فریب عام ہے ۔ دھوکے کے اس عالمی بازار میں موجودہ نسل جس گوشت کو مرغی سمجھ کے کھاتی ہے ، وہ سٹیرائڈز سے بڑھنے والے مشینی چوزے ہوتے ہیں ، جو زندہ ہوں تو اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکتے ، اور اپنے پر پھڑپھڑا کر دیوار پہ چڑھ نہیں سکتے ۔ اس نسل کے سامنے ایک ڈرامہ سٹیج کیا گیا اور یہ نسل اس ڈرامے کے المیہ مناظر کو حقیقت سمجھ کے روتی ہے ، اور اس کے طربیہ مناظر کو حقیقی سمجھ کے خوش ہوتی ہے ۔ اس ڈرامے بازی میں ان کی جیبوں سے کیا کچھ نکال لیا گیا ہے ، انھیں احساس تک نہیں ہو رہا ۔ اقبال نے کہا تھا؛
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ۔

اس دور میں ایک ایسا شخص جسے “خاتم النبیین” کے الفاظ کہنا تک تو آتا نہیں ، اور جو من گھڑت خواہشات کو قرآن کریم کے ساتھ منسوب کر دیتا ہے ، ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کس کو مولانا کہا جائے ۔ تحریک عدم اعتماد ایک پارلیمانی ، جمہوری اور آئینی اقدام ہے ۔ اس کا تعلق خالصتاً ایوان کے اندر ارکان کی گنتی سے ہے ۔ لیکن بال ٹیمپرنگ کے عادی شخص کی خواہش ہے کہ ٹیموں کے کھلاڑیوں کو دس لاکھ تماشائیوں سے خوف زدہ کر کے مرضی کا فیصلہ حاصل کرے ۔ پھر خود “سپورٹس مین” ہونے کا دعویٰ بھی؟ ایوان کے باہر جلسے کرنا ، 172 کی گنتی کو لاکھوں غیر متعلقین تک پھیلانا ، عوام کو مشتعل کرنا ، سفید کو سیاہ بنا کے پیش کرنا ، مجمع لگا کے رومال میں سے کبوتر نکالنا ، ریچھ کا ناچ دکھانا یا منہ سے آگ اگلنا تماشہ گری ، جادوگری ، عیاری ، مکاری ، فن کاری ، رنگ بازی اور مجمع بازی تو ہو سکتی ہے ، لیکن ان چیزوں کا ایوان کے اندر پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

ہمارا ایمان ہے کہ حتمی اور مکمل علم صرف اللّہ وحدہُ لا شریک لہ کے پاس ہے ۔ انبیاء کرام علیھم السلام کو اللہ  کریم نے خصوصی علوم عطا فرمائے ۔ پھر آخری نبی سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو اس قدر علم سے نوازا کہ ہم جس کا تصور تک نہیں کر سکتے ۔ لیکن عالم الغیب و الشہادہ ، تمام علوم کے لامحدود خزانوں کا مالک تو اللّہ تعالیٰ خود ہی ہے ۔ عقیدۂ ختم نبوۃ کے صدقے اب یہ ہر امتی پر لازم ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے ۔ چنانچہ فقہاء ، علما  ، مصلحین اور مبلغین نسل در نسل اپنے اپنے معاشروں میں نبی آخر الزماں سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے تبلیغ دین کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ سائنس دان سائنسی علوم پر تحقیق کرتے رہتے ہیں ۔ مفکرین معاشی ، اخلاقی ، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں تفکر کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے کسی نے کبھی خود کو ہر معاملے میں حرفِ آخر قرار نہیں دیا ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چچا زاد و داماد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کو مدینۃ العلم کا باب قرار دیا ۔ اس کے باوجود سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ تعالیٰ عنہ نے کبھی علمیت کا رعب جھاڑنے کی کوشش نہیں فرمائی ، بل کہ عجز و انکسار کا دامن تھامے رکھا ۔ کیوں کہ اہل علم اپنے علم پر غرور نہیں کرتے ۔

البتہ ہمارے ہاں ملک خداداد میں موجود نرگسیت کے ایک دائمی مریض کو ہر چیز کے سب سے زیادہ علم کا مضحکہ خیز دعویٰ ہے ۔ “مغرب کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا” ۔ یعنی کیا خود اہل مغرب بھی؟ “سیاست کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا؟” ۔ “قانون کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے؟” ۔ “کرکٹ کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے”؟ یعنی مارک وا ، مہندرا سنگھ دھونی اور محمد یوسف جیسے کامیاب ترین کپتان اور کھلاڑی بھی نہیں؟جمہوریت کو مجھ سے بڑھ کر کون سمجھتا ہے؟” ۔ کیا کمال خود فریبی ہے ۔

اچھا اگر مغرب کو آپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تو بتائیے بھلا کبھی تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر وہاں کسی صدر یا وزیراعظم نے اپنے کارکنوں کے جلسے اور مجمعے لگانے کا ناٹک رچایا؟ کیا کبھی کسی نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کے لیے جانے اور آنے والوں کو مشتعل کر کے اکٹھے کیے گئے ورکرز اور ٹائیگرز کے بیچ میں سے گزرنا پڑے گا؟ ہمارے سامنے بل کلنٹن کے خلاف مواخذہ کی تحریک آئی ۔ امریکہ میں کلنٹن کے حامیوں کی تعداد لاکھوں نہیں ، کروڑوں میں تھی ۔ لیکن کیا کلنٹن نے انھیں کہیں اکٹھا کیا؟ برطانیہ میں کئی وزرائے اعظم کے خلاف تحاریک عدم اعتماد پیش ہوئیں ۔ کیا کسی نے مجمعے لگائے؟ آپ چل پڑے ہیں شہر شہر ، گلی گلی دہائیاں دینے ۔ الزامات کی پٹاری کھول کر ، جو منہ میں آئے ، آپ بے ثبوت کہے جاتے ہیں ۔ اور افسوس یہ کہ اندھے مقلدین بھی یوں اس صریح جھوٹ کو پھیلائے جاتے ہیں جیسے نوٹوں کی بوریاں انھوں نے خود ٹرکوں سے اتار کر سندھ ہاؤس میں رکھی ہوں ۔

2018 میں جن لوگوں کو مختلف ہتھ کنڈوں سے مجبور کیا گیا کہ اپنی اصل جماعتیں چھوڑ کر آپ کی پارٹی میں شامل ہوں ، وہ “ضمیر کی آوازیں” تھیں؟ اور اب وہی لوگ آپ کے تکبر اور نخوت سے مایوس ہو کر واپس اپنی اصل جماعتوں کی طرف چلنے لگے تو آپ کہتے ہیں کہ ضمیر فروش بیس بیس کروڑ میں بکے ہیں ، سندھ سے چوری کے نوٹ بوریوں میں بھر بھر انھیں دیئے جا رہے ہیں؟ کیا شرم و حیا کا کہیں کوئی تذکرہ ہے؟ کیا آپ نے خود وہ بوریاں دیکھیں؟ کیا آپ نے سندھ کے خزانہ سے نوٹ چوری ہوتے دیکھے؟ کیا آپ نے نوٹوں کا تبادلہ ہوتا دیکھا؟ اور اگر یہ سب کچھ آپ نے دیکھا تو روکا کیوں نہیں؟ یہ تو ایسا ہی فریب ہے جیسا رانا ثناء اللہ خان جیسے آئینی بالادستی کے علم بردار پر منشیات کا پرچہ کٹوایا گیا ۔ ایک شخص ہر ٹاک شو میں کہتا تھا؛ “مجھے اللّہ کو جان دینا ہے ، کار کی ڈکی سے 21 کلو گرام ہیروئن کی بوری برآمد ہوئی ، وڈیو میرے پاس ہے؛” رانا ثناء اللہ صاحب کئی ماہ جیل میں ، اور ان کے اہلِ خانہ جیل سے باہر اذیتوں میں مبتلا رہے ۔ عدالتیں وڈیو اور دیگر ثبوت مانگتی رہیں ۔ لیکن جان دینے کی باتیں کرنے والوں نے کبھی کوئی وڈیو نہ دی ۔

خود آپ بھی گزشتہ حکومت کے خلاف 35 پنکچر ، دھاندلی ، پانامہ ہنگامہ میں 300 ارب کی کرپشن ، اور ایک ارب روپے رشوت کی پیش کش کے دعوے کرتے رہے ۔ لیکن جب تحقیقات میں ثبوت مانگے گئے تو آپ “سیاسی بیان” کہہ کر پتلی گلی سے نکل لیے ۔ یعنی کیا “سیاسی بیان” کی شکل میں آپ کو ہر جھوٹ بولنے کا حق حاصل ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کو ان ارکان کے سندھ ہاؤس میں قیام پر اعتراض کیوں ہے؟ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ لاجز میں ٹھہریں جہاں آپ کے ماتحت افسران چھاپے مار کر جب چاہیں گرفتار کر لیں یا پھر وہ آپ کے مشتعل ٹائیگرز کے رحم و کرم پر ہوں؟ سندھ ہاؤس حکومت سندھ کی ملکیت ہے ، جہاں آپ سے مایوس ارکان کو تحفظ کا احساس ہوا تو وہ وہاں ٹھہر گئے۔ کس کتاب میں لکھا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کا سندھ ہاؤس میں ٹھہرنا جرم ہے؟ آپ یہ بتائیے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہوئے دو ہفتوں سے اوپر ہو گئے ، آپ کے سپیکر نے معینہ مدت میں اجلاس کیوں نہیں منعقد کیا؟ 172 ارکان اگر آپ پر اعتماد کرتے ہوتے تو ان 21 دنوں میں آپ اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہی بلا کر دکھا دیتے ۔ آپ کچھ بھی کہیں ، آپ کو عزت کے ساتھ رخصت ہونا چاہیے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply