عیدِ نوروز کے ساتھ اسلام کا برتاؤ۔۔نذر حافی

عیدِ نوروز ایک بین الاقوامی تہوار ہے۔ 2010ء میں اقوامِ متحدہ نے بھی اسے ایک انٹرنیشنل ایونٹ قرار دے دیا ہے۔ قدیم فارس سے اس کا رواج چلا آرہا ہے۔ شروع سے ہی لوگ اسے مذہبی دن کے بجائے ایک موسمی تہوار کے طور پر مناتے تھے۔ آج بھی ایران، پاکستان، کشمیر، ہندوستان، افغانستان، آذربائیجان، تاجیکستان اور ازبکستان میں یہ عید بطورِ تہوار منائی جاتی ہے۔ اربابِ دانش جانتے ہیں کہ دنیا میں مروّجہ شمسی جنتریوں میں سے ایک قدیم ترین جنتری ایرانی تقویم یا کیلنڈر ہے۔ ہزاروں سال پہلے ایرانی منجم حضرات نے چاند کے بجائے سورج کی حرکت پر اپنے کیلنڈر کو  استوار کیا تھا۔ اس کیلنڈر کے مطابق سال کے بارہ مہینوں کے مندرجہ ذیل نام ہیں:
۱۔فروردین، ۲۔اردیبهشت، ۳۔خرداد، ۴۔تیر، 5۔مرداد، ۶۔ شهریور، ۷۔مهر، ۸۔آبان، ۹۔ آذر،۱۰۔دی،۱۱۔بهمن، ۱۲۔اسفند۔ سال کے ابتدائی چھ ماہ اکتیس دنوں کے جبکہ اگلے پانچ ماہ تیس دنوں کے اور بارہواں ماہ اگر لیپ کا نہ ہو تو 29 دنوں کا، ورنہ تیس دنوں کا ہوتا ہے۔ اس کیلنڈر کے مطابق یکم فروردین سال کا بھی اور موسمِ بہار کا بھی پہلا دن ہوتا ہے۔ اسی کو نوروز بھی کہتے ہیں اور عیسوی کیلنڈر کے مطابق اس دن اکیس مارچ کی تاریخ ہوتی ہے۔

اسلام قبول کرنے کے بعد اہلیانِ ایران نے اس شمسی تقویم کو شمسی ہجری تقویم میں تبدیل کیا۔ آج بھی ایران اور افغانستان میں یہی شمسی ہجری تقویم رائج ہے۔ نوروز کے ساتھ دینِ اسلام کے برتاو کو سمجھنے کیلئے یہ مقدمہ سمجھنا ضروری ہے کہ دینِ اسلام نے اپنے سے ماقبل رائج طور طریقوں، رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ  پانچ طرح کا برتاو کیا ہے۔
برتاو کی پہلی قسم: اسلام نے زمانہ قدیم کے کچھ  طور طریقوں اور رسوم و رواج کو منسوخ کر دیا۔ منسوخ شدہ میں سے بت پرستی، فالِ بد، شراب خوری، قماربازی، سُود اور دُخترکُشی سرِفہرست ہیں۔
برتاو کی دوسری قسم: جن عادات و اطوار میں اسلام نے اصلاح کی، اُن میں سے بیٹی کی ولادت پر رنجیدہ ہونا اور برہنہ حالت میں طواف کرنا قابلِ ذکر ہے۔

برتاو کی تیسری قسم: اسی طرح کچھ رسومات ایسی تھیں، جنہیں دینِ اسلام نے مضبوط اور محکم کیا، جیسے ازدواج کیلئے نکاح، عقد اور ولیمے کا اہتمام، دفاع کیلئے کسی کے ساتھ عہد و پیمان کرنا، مہمان نوازی اور ختنہ کرنا۔
برتاو کی چوتھی قسم: کچھ ایسی بھی قدیمی روایات تھیں، جنہیں اسلام نے گذشتہ حالت پر ہی چھوڑ دیا، جیسے حرام مہینوں کی حُرمت وغیرہ۔
پرتاو کی پانچویں قسم: اسلام نے کچھ  قدیمی ثقافتی رویّوں کا متبادل پیش کیا۔ مثلاً کفریہ اور شرک آلود اسماء کو بدلنے کا حکم دیا۔ جیسے کسی کا نام عبدالمنات تھا تو عبداللہ کر دیا۔ معیارِ فضیلت قبائلی تعصب، علاقہ یا زبان تھا تو اس کی جگہ تقویٰ کو معیارِ فضیلت قرار دے دیا۔

عیدِ نوروز کا شمار اُن تہذیبی اقدار میں ہوتا ہے، جنہیں دینِ اسلام نے منسوخ نہیں کیا۔ اسے منسوخ نہ کرنے سے یہ کوئی مذہبی تہوار نہیں بن گیا بلکہ اس تہوار سے منسوب اعلیٰ انسانی اقدار جیسے مہمان نوازی، صلہ رحمی، صدقہ دینے، سخاوت، نئے سال اور بہار کے آغاز پر خوشی منانے، خوشبو لگانے، اچھے اور لذیذ کھانے  پکانے، خدا کا شکر ادا کرنے اور اللہ کے بندوں سے کشادہ روئی سے ملنے کو سراہا گیا ہے۔ اس ضمن میں بعض ایسی روایات بھی موجود ہیں، جن میں اس دن کیلئے دعا بھی منقول ہے۔ کچھ ایسی روایات بھی ہیں، جن میں اس دن کو منانے کی نہی بھی وارد ہوئی ہے۔ نہی وارد ہونے کے بارے میں محققین کی رائے یہ ہے کہ اگر اس تہوار کو کسی قدیمی دین کے تہوار کے طور پر مسلمان منائیں تو ایسا کرنا یقیناً حرام ہے۔ تاہم اگر اس دِن کو مسلمان نئے شمسی سال اور موسمِ بہار کی آمد پر ایک جشن کے طور پر منائیں اور اس دن اللہ کا شکر ادا کریں اور ضیافت و اطعام کا بندوبست کریں تو  ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم اس تہوار کے ساتھ جن تاریخی واقعات اور دینی مناسبات کو جوڑا جاتا ہے، وہ  تحقیقی معیارات کے مطابق ابھی تک ثابت نہیں ہوسکیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ ایک قدیمی تہوار ہے اور اسلام آنے کے بعد بھی یہ تہوار اسلامی حدود و قیود کے اندر رہ کر بھرپور طریقے سے منایا جا سکتا ہے، تاہم اس بارے میں کوئی مصدقہ دلیل نہیں ہے کہ یہ کوئی اسلامی تہوار یا اسلامی عید ہے۔ اس دن خوشی اور مسرّت کے قالب میں نیکیوں اور تعلیماتِ نبویﷺ کا احیاء کرنا مستحسن جبکہ گناہوں و لہو لعب کا ارتکاب ہمیشہ کی طرح مذموم ہے۔ پس عیدِ نوروز کو اسلامی شرعی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے منانا درست ہے، تاہم اسے اسلامی عید قرار دینا خالی از اشکال نہیں۔ اسلام اس طرح کی تفریحات، مسرتوں اور تہواروں کا ہرگز مخالف نہیں ہے، تاہم تفریح، مسرت، جشن اور تہوار کے نام پر غیر شرعی، غیر اخلاقی اور غیر دینی افعال کا شدید مخالف ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply