تھپڑ۔۔محمد عامر خاکوانی

چند ماہ پہلے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں ایک واقعہ ہوا، جب ایک طالبہ نے سب کے سامنے ایک لڑکے کو پروپوز کرتے ہوئے اسے خالص فلمی انداز میں ایک گھٹنازمین پر ٹیک کر گلاب کے پھول پیش کئے ۔ لڑکے نے پھول لئے اور پھر لڑکی کو گویا قبولیت بخشتے ہوئے ساتھ لپٹا لیا۔موقعہ پر موجود طلبہ نے ویڈیوز بنائیں جو وائرل ہوگئیں۔سوشل میڈیا میں اس وائرل وڈیو پر بحث چھڑی تو بہت سے لوگوں نے اس غیر ذمہ دارانہ، غیر اخلاقی حرکت پر سخت تنقید کی ۔ یونیورسٹی اور اس کے ازحد کھلے ڈلے ماحول پر تنقید ہوئی تو یونیورسٹی انتظامیہ نے ترنت دونوں لڑکے، لڑکی کو نکال دیا۔ اس رومانوی جوڑے کی بعد میں ایک دو اور ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں۔ ایک میں دونوں وائرل ویڈیوز اور اس پر کمنٹس دیکھ رہے تھے ، ان کے ساتھی ہنس ہنس کر داد دے رہے تھے کہ تم دونوں مشہور ہوگئے ہو۔تب یہ خبربھی آئی لڑکے اور لڑکی نے وڈیو وائرل ہونے کے بعد شادی کر لی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر جہاں اس لڑکی اور لڑکے کے رویے پر تنقید ہوئی ، ان کی خاندانی تربیت پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ،لڑکی کے مغربی لباس پر بھی نکتہ چینی ہوئی۔ ہمارا لبرل طبقہ زور شور سے ان کی حمایت میں آ گیا۔ ہماری این جی او زوالی چند مخصوص سفید بالوں والی خواتین سے لے کر پورے لبرل ، سیکولر کیمپ نے اس لڑکی کی بھرپور حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تنقید بلاجواز ہے اور ان نوجوانوں کو اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ یہ لبرلز پروپوزکرنے کی حرکت کے دفاع میں اتنا آگے گئے کہ تنقید کرنے والوں کو وحشی، بنیاد پرست جنونی، غیر رومانی وغیرہ قرار دے ڈالا۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ جو لوگ اپنے’’ جذبات‘‘ کا اظہا ر کرنے والی’’ معصوم بچی‘‘پر تنقید کر رہے ہیں، ان کا منہ نوچ ڈالیں۔ بعض بین الاقوامی نیوز ویب سائٹس جو اس قسم کی خرافات کو اچھالنے اور اخلاقیات کا تہس نہس کرنے والی ہر حرکت کو گلوریفائی کرنے کی ماہر ہیں، انہوں نے زور شور سے اس کی حمایت کی۔ اس حوالے سے خاموشی چھا گئی، چند دن پہلے اس لڑکے کی ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں اس نے صاف کہا کہ میری اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں ہوئی اور ایسا ہوگا بھی نہیں۔ کمال سادگی اور حیران کن معصومیت سے اس نے کہا ،’’ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا، اچانک اس نے پروپوز کیا ، پھول دئیے ،میں نے لے لئے۔ بعد میں یونیورسٹی نے ہمیں نکال دیا تو والدین کو پتہ چلا، وہ سخت ناراض ہوئے کہ اب تم ڈگری کیسے کرو گے، یونیورسٹی نے خیر اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کی اور مجھے ڈگری کرنے کا موقعہ دیاجس پر میں شکر گزار ہوں۔ ‘‘انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ کیا آپ اسی لڑکی سے شادی کریں گے۔ نوجوان نے فلسفیانہ انداز میں کیمرے کو دیکھا، فضا میں گھورا اور پھر بولا، دیکھیںدنیا فانی ہے، میں نے تو ابھی ڈگری کرنی ہے، دوسال لگیں گے، اس دوران نجانے میں کہاں ہوں ، وہ کہاں ہو، جب ڈگری مکمل کر کے اپنا کیرئر بنائوں گا پھر شادی کے لئے سوچوں گا۔ ‘‘ساتھ یہ اشارہ بھی دیا کہ والدہ کی مرضی سے شادی ہوگی۔ اس وڈیو کے بعد شائد ردعمل میں اس لڑکی کی وڈیو بھی منظر عام پر آئی۔ لڑکی نے تصدیق کی کہ شادی نہیں ہوئی اور چونکہ ہم دونوں کے والدین نے کچھ طے ہی نہیں کیا تو شادی نہیں ہوسکتی۔ اس نے تسلیم کیا کہ میں صرف چھ ماہ سے اسے جانتی تھی۔مجھے اس کے خاندانی بیک گرائونڈ کا نہیں پتا تھا اور نہ یہ کہ اس کا تعلق کسی دیہاتی علاقے سے ہے(لڑکا کوٹ مومن، فیصل آباد کے قریب کسی پنڈ کا رہائشی ہے) ، ان تمام چیزوں کا مجھے علم نہیں تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ ایسا کرنا غلطی تھا ، مجھے کم از کم اپنے والد کو انوالو کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ رشتے سے پہلے یہ سب چیزیں، لڑکے کا بیک گرائونڈ وغیرہ دیکھ لیتے۔ ایک سوال پر بتایا کہ لڑکے کی بچپن میں کوئی منگنی وغیرہ ہوچکی ہے اور اس کے والدین نے میرے والد کو کہا کہ ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔ دبا دباشکوہ بھی کیا کہ لڑکے کوسٹینڈ لینا چاہیے تھا۔ لڑکی نے اپنی وڈیو میں دو اہم باتیں بھی بتائیں۔یہ کہا کہ ان کی یونیورسٹی میں اس طرح کی دو تین ویڈیوز پہلے بھی آ چکی تھیں۔ یعنی اس طرح کے اعلانیہ پروپوز کرنے والے واقعات پہلے ہوتے رہے تھے، مگر یونیورسٹی نے کوئی انتظامی ایکشن نہیں لیا۔ ایسا کرنے والوں کو نہیں نکالا۔لڑکی نے صاف کہا کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو ہم جرات نہ کرتے۔ اس کا ماننا تھا،’’ سولہ سے بائیس سال کی عمر میں، نوجوان بہت سی فینٹیسیز میں رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں شائد دنیا بہت رنگین ہے، اِس طرح ہے، اُس طرح ہے، مگر زندگی انکے خیالوں، خوابوں جیسی نہیں ہوتی۔ زندگی کے حقائق ایسے نہیں ہوتے۔آپ اگر ڈراموں ، فلموںمیں ہمیں یہ سب دکھائیں گے کہ اسی طرح یونیورسٹی لائف ہوتی ہے، اس طرح کرنا چاہیے، لیکن اگر ہم عملی زندگی میں ایسا کریں تو مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے۔ رومانی ناولوںمیں بھی یہی سب کچھ ہے۔ ہم تو اسے فینٹسی بنا لیتے ہیں کہ یوں پروپوز کیا جائے، پھر شادی ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں زندگی کی حقیقتیں (Realities)پتہ چلتی ہیں اوریہ بھی کہ ٹی وی ڈرامے حقیقت نہیں ہوتے۔‘‘ میں نے اس وڈیو کو ایک سے زیادہ بار سنا کہ بچی کا موقف پوری طرح سمجھ آ جائے۔ دو تین باتوں کا اندازہ ہوا ، ایک تو یہ کہ وہ ابھی تک اپنے اس فعل کو شرعی اعتبار سے غلطی نہیں سمجھتی ۔ اس بچی کوالبتہ یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ یوں اعلانیہ پروپوز نہیں کرنا چاہیے تھا، اپنے والدین کو شامل کئے بغیر آگے نہیں بڑھنا چاہیے،لڑکے کے بیک گرائونڈ وغیرہ کا اچھی طرح اندازہ لگا لیا جائے اور یہ کہ درست انتخاب کیا جائے جو بعد میں سٹینڈ لے سکے، پیچھے نہ ہٹ جائے۔ بین السطور اس نے کہا کہ پھول چلو دے دیا، اگر وڈیو وائرل نہ ہوتی تو یہ مسئلہ نہ ہوتا۔ چلیں وڈیو وائرل ہوگئی تب بھی وہ لڑکا اگر سٹینڈ لیتااور اپنے گھر والوں کو شادی کے لئے منا لیتا تو پھر میرے گھر والوں کو مسئلہ نہیں تھا۔ اس نے فخریہ دو چار بار کہا کہ میرے والد کے لئے سوسائٹی کا دبائو یا خاندان والوں کی تنقید کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔مسئلہ لڑکے کے پیچھے ہٹ جانے سے ہوا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس بچی کو قطعی یہ اندازہ نہیں کہ ایک نا محرم لڑکے کو یوں اس انداز میں پھول دینا اور پھر اس سے بغل گیر ہوجانا کس قدر غلط اور نامناسب ہونے کے ساتھ غیر شرعی ہے۔اس کی باتوں سے کہیں نہیں لگا کہ یوں چاہے اپنی مرضی سے ،مگر نامناسب ٹچ اور چاہے لمحاتی قربت سہی،یہ سب غلط اور گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔وہ بار بار ایک لفظ دہراتی رہی کہ ہم ریلیشن میں تو پہلے سے تھے ، ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ یہ بذات خود ظاہر کرتا ہے کہ نامحرم مرد وعورت کے درمیان جو فاصلہ شریعت نے لازم قرار دیا ہے، جو بیرئر بنایا ہے اسے کتنی آسانی کے ساتھ ’’ریلیشن ‘‘کے نام پر توڑا جا چکا ہے۔ شکر ہے کہ اس معاملے میں لیو ان ریلیشن( بغیر شادی کے ساتھ رہنے)کی بات نہیں ہوئی۔بعض حالیہ سانحات میں تو یہ افسوسناک رجحان بھی دیکھا گیا ۔ اس واقعے کا یہ منطقی انجام تھا۔ ہم سب کو اس کا پہلے سے اندازہ تھا ، اس لئے کہ ایسی ناپختہ، کچی ،عاجلانہ، فلمی سٹائل کی محبتوںکا یہی حشر ہوتا ہے۔ جو لڑکی اپنی عزت اور وقار کو دائو پر لگا دے، اسے کبھی مرد سے عزت اور توقیر نہیں ملتی۔ جو حرکت اس نے کی، مرد اسے پسند تو کرتے ہیں کہ انہیں ہیرو بننے کا مفت میں موقعہ مل جاتا ہے، کچھ بدبخت مزید آگے بڑھ کر لڑکی کو ایکسپلائیٹ کر تے ، اس کا اثاثہ عصمت بھی چھین لیتے ہیں۔ ایسی حرکت کے بعد عورت کااپنے پسندیدہ مرد کا دل جیتنے اوررشتہ ازدواج میں آنے کاسپنا پورا نہیں ہوپاتا۔ اگر کبھی مرد رضامند ہو بھی جائے تو اس کے گھروالوں کے لئے ایسی بہو ہمیشہ ناپسندیدہ رہتی ہے، اسے کبھی خاندان میں عزت نہیں مل پاتی۔ افسوس تو یہ کہ ہمارے لبرلز کو بھی یہ سب باتیںمعلوم ہیں۔ وہ مریخ میں نہیں رہتے۔ اسی سماج میں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے ہیں۔ چند ایک لبرلز کا تعلق اشرافیہ سے ہوگا،ان کی اخلاقیات الگ ہے، ممکن ہے انہیں ایسی حساسیت اور نزاکت کا علم نہ ہو۔ مڈل کلاس ، لوئر کلاس گھرانوں کے جو لوگ لبرل ازم کو اپنا چکے ہیں، انہیں تو یہ سب علم ہے۔ اپنی بہنوں، بچیوں کے لئے ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے، البتہ وہ خوشی خوشی دوسروں کی بچیوں کو برباد ہوتے دیکھتے ہیں۔ نجی یونیورسٹی میں ہونے والے واقعے کا یہ انجام اور دونوںفریقوںکی ویڈیوز دراصل ہمارے لبرل، سیکولر حلقوں کے لئے زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں۔ ایسا تھپڑجو انہیں اپنے خام، مصنوعی، غلط تصورات سے باہر لا سکتا ہے۔ ہمارے اہل دانش اورریاست کو یہ سوچنا ہوگا کہ تعلیمی اداروں کا ماحول کس طرح بہتر بنایا جائے؟ ٹی وی ڈراموں ، فلموں سے پیدا ہونے والے مضر اثرات کو کیسے کنٹرول کیا جائے ؟سب سے بڑھ کر سماج میں موجود شرم، حیا اور اخلاق کے بیرئرز(رکاوٹیں)جس طرح توڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، انہیں کس طرح بچایا جائے؟

Advertisements
julia rana solicitors

روزنامہ دنیا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply