مویشیانہ خارجہ پالیسی

دنیا کی تمام ریاستیں اس پالیسی کے زیر تابع ہوتی ہیں ، جو اس ملک کے حکمران یعنی سرکار کی طرف سے ترتیب دی جاتی ہے ، کہا جاتا ہے کہ امریکا میں جب بھی ڈیموکریٹس کی حکومت ہوتی ہے تو اس میں جنگوں سے بچنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے جب کہ ریپبلکن جنگجو ہوتے ہیں ، اور ان کے دور میں جنگیں لڑی جاتی ہیں ، تاہم ڈیموکریٹس دنیا میں آمروں کو سپورٹ کرتے ہیں ، اور جمہوریتوں کو کمزور کرتے ہیں ، بعض ممالک جیسے کہ ایران تیل کو بطور پالیسی استعمال کرتے ہیں ، کچھ ممالک اپنی جغرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھ کر اپنی فارن پالیسی تشکیل دیتے ہیں
تاہم ہماری حکومت نے دنیا کی سب پالیسیوں کو مات دے دی ہے ، نواز شریف سرکار نے وہ پالیسی اپنائی کہ دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی اور انٹرنیشنل ریلیشن میں ایک نئی طرز سفارتکاری کا اضافہ بھی ہو گیا ۔
پاکستان کی سابقہ حکومتوں کی طرف سے مینگو کو بطور ڈپلومیسی استعمال کیا جاتا تھا تام اب مینگو ڈپلومیسی بھی نئی نواز ڈپلومیسی کے سامنے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔
میاں صاحب اور ان کے دو نوجوان طبعیت خارجہ امور کے کرتا دھرتا سرتاج عزیز اور طارق فاطمی نے مل کر ایسی خارجہ پالیسی تیار کی ہے کہ دنیا بھر کے خارجہ امور کے ماہر ورطہ حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے دبائے بیٹھے ہیں۔
خارجہ پالیسی کا نام مویشیانہ پالیسی رکھا جا سکتا ہے اس میں دنیا کے مختلف ممالک میں ظاہری یا مخفی طور پر مویشی بھجوائے جا رہے ہیں
کبھی یہ اعزاز قطر کو ملتا ہے تو کبھی دبئی اور کبھی سعودی عرب والوں کو
بڑے بھائی اور ان کے رفقاء کی اس پالیسی میں اب نیا اضافہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے کیا ہے اور اطلاعات کے مطابق موصوف نے قطر کے امیر کو ساہیوال نسل کے 3 بیل مراکہ نسل کے 3 اونٹ اور 6 ہرنوں کا تحفہ بھیجا ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں برادران کی مویشیانہ خارجہ پالیسی کس حد تک کامیاب ہوتی ہے ، پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین خطے میں واقع ہے جس کی اہمیت سے کسی طور پر بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم جب بات سری پائے سے شروع ہو کر ہریسے پر رکے گی اور نہاری سے لے کر پالک پنیر تک رہے گی تو خارجہ پالیسی بھی مویشیانہ ہی بنے گی۔

Facebook Comments

سید عون شیرازی
سید عون شیرازی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مشہور صحافی اور مصنف ہیں ، 20 لفظوں کی کہانی لکھتے ہیں جو اب ایک مقبول صنف بن چکی ہے،اردو ادب میں مختصر ترین کہانی لکحنے کا اعزاز حاصل ہے جس کا ذکر متعدد اخبارات اور جرائد کر چکے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply