المیہ اور فہم

المیہ کیا ہےِ؟ بات کا آغاز اسی سے ہوگا۔ درحقیقت المیہ ایک ایسی تمثیل ہے جس کا انجام حسرت ناک اور الم ناک ہو۔ جیسے زہر عشق ، امتیاز علی تاج کی انارکلی ، شیکپئیر کا ہملٹ وغیرہ ۔ ادبی المیوں کا آغاز یونان قدیم سے ہوا۔ اس دور کے المیوں میں ایسکیلس سوفکلیز اور یوری پیدیز کے المیے خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ادبی المیوں کے بعد تاریخ اور سماج کے بڑے بڑے المیے جیسے عالمگیر جنگیں اور سماجی طور پر بہت بڑے نظریات کی معاشی موت۔
اس کے بعد فہم کی تعریف کی طرف آتےہیں۔ فہم کا لفظ اردو میں وسیع معنوں میں مستعمل دیکھا جاتا ہے۔ اگر اس لفظ کی طبی تعریف کی بات کی جاۓ تو علم طب میں فہم سے مراد اس صلاحیت کی ہوتی ہے کہ جس کی مدد سے تمام جاندار (بشمول انسان) حسی منبات کو حاصل کرنے کے بعد ان میں تفریق یعنی ان کی الگ الگ احساسات کی صورت میں شناخت کر سکیں۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ فہم اصل میں آگاہ ہونے کی صلاحیت کو کہا جاتا ہے یعنی محسوس کرنا یا واقعات ، اجرام و قرینات کو شعوری طور پر سمجھنا ہی فہم کہلاتا ہے۔
المیہ اور فہم کا ساتھ بہت قدیم ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ المیے نے ہمیشہ فہم کو تجسس اور تحقیق کے نت نئے راستوں اور منزلوں کی جانب گامزن کیا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ فہم کے بہت سے فتنے ہی تھے کہ جن کی بدولت تاریخ انسانی کے بڑے بڑے المیے منظر عام پر آئے۔
المیے اور فہم کے اس تعلق میں وطنیت اور قومیت کے جذبات کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
وطن کی محبت اور ہم وطنوں کی الفت میں گاۓ جانے والے گیت جب بیرونی جبر و استحصال کے خلاف مزاحمت کی آواز بن جاتے ہیں تو قومی حقوق کی جدوجہد میں متشکل ہوتے ہیں جس کو ہم قوم پرستی یاقومی حقوق کی جدوجہد کی سیاست کہتے ہیں۔ گزشتہ کئی صدیوں میں ابھرنے والی جدید قومی ریاستوں کے تصور کے ساتھ ہی سرحدی تنازعات نے جنم لیا جن کی وجہ سے جنگوں کی ایک لہر دَر آئی جس سے یورپ اور ایشیا سمیت دنیا بھر کے سب لوگ بہت زیادہ متاثر ہوۓ۔
چونکہ فہم دراصل ذہانت اور سمجھداری کے ساتھ بہت زیادہ جڑا ہوا ہے اس لیے یہاں ان کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے۔ ذہانت دراصل دماغ کے کام کرنے کی رفتار کا نام ہے یعنی جس کا دماغ جتنی تیزی سے کام کرتا ہے وہ اتنا زیادہ ذہین انسان ہے۔ جبکہ سمجھداری ، ذہانت سے ملتی جلتی مگر ایک الگ چیز ہے ۔ اس کے بارے میں یہ نتیجہ نکالا کہ کوئی انسان ایک درست نتیجے تک پہنچنے میں جتنا کم سے کم وقت صرف کرے وہ اتنا زیادہ سمجھدار ہے۔
چونکہ انسان جب غور و فکر کر کے حقائق کا تجزیہ کرتا ہے تب بعض اوقات مختلف ضروری حقائق کو بعض وجوہات کی بنا پر نظر انداز کر دیتا ہے یا بعض حقائق کو بھول جاتا ہے، اس طرح کچھ حقائق جنہیں تجزیے کا حصہ بننا چاہئے وہ رہ جاتے ہیں۔ اور انسان درست نتیجہ نہیں نکالتا یا کمزور نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ اس لئے زیادہ سمجھدار وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ ضروری حقائق کا کم سے کم وقت میں تجزیہ کر کے نتیجہ نکال سکے یا فیصلہ کر سکے وہ زیادہ سمجھدار ہے۔
ہر دور کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ہر صاحب فہم اپنے فہم کی گہری کھائی میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ اسے اپنے فہم کے سوا سب فہم فتنہ محسوس ہوتے ہیں اور باقی ذی فہم فتنہ گر ہیچ مخلوق نظر آتے ہیں۔ وہ صرف اپنے فہم کےبمطابق ہی حل کا طلبگار ہوتا ہے جبکہ دوسرے کا فہم اس سے یکسر مختلف اور متضاد ہوتا ہے اور اس طرح ان کے تصادم سے المیے وجود پاتے ہیں۔
مسئلہ کوئی واقعہ یا مدعا نہیں، مدعا کے پیش نظر المیے اور درکار فراست کی حامل مخلوق کا فہم ہے، جن کا فہم مدعا کے حل کی بجائے دشمنی کی نئی جہتوں سے متعارف کرواتا ہے اور مدعا تو وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ لیکن فہم کے اپنی ضرورت کے مطابق معانی نئے المیے کا سبب بنتے ہیں۔ وقت کی گرد سے اٹے، مسائل کے دفتر تہہ در تہہ چیخ چیخ کر فہم سے لبریز مخلوق کی فراست کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ تمام موجود فہیم انسانوں کی فی زمانہ یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی انا کے خول سے نکل کے ایک مثالی کردار کا نمونہ بنیں اور تمام تر توانائیاں مسائل کے آسان اور سادہ حل کیلئے صرف کریں۔
اکیسویں صدی کی سیاست پچھلی صدی میں آزماۓ گئے نظریات سے زیادہ موجودہ دور کے معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل کے عملی حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ آج دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے جہاں کے مکین نہ صرف ایک دوسرے کے حالات و واقعات سے باخبر رہتے ہیں بلکہ ان کی ایک دوسرے تک رسائی بھی پہلے کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ ہمارے قوم پرستوں کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ آج بھی تنہائی کو ہی قوم پرستی سمجھتے ہیں جبکہ یہ دور اشتراک اور شمولیت کا ہے۔ جب تک قوم پرستی اقوام عالم کے ساتھ مربوط نہیں ہوگی، نسل پرستی جاری رہے گی جس کو دنیا پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ فہم کو المیے کے تدارک کے طور پر عالمی سطح پر تمام وابستگیوں سے بالاتر ہو کر استعمال کیا جائے۔ بلاشبہ المیوں کی وجوہات کے سب تانے بانے فہم کی فتنہ گری کی طرف ہی جاتے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل فہم کو اس بات کے لیے خود کو یکسو کرنا ہوگا کہ
فہم سے ہی المیے کے ظہور کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply