حب الوطنی کاامتحان مَت لیجیے۔۔ابھے کمار

نریندر مودی حکومت کی رابطہ عامہ یعنی پی آر ٹیم اکثرچھوٹی سی چھوٹی بات کو ایک بڑا واقعہ بنا کر پیش کر دیتی ہے۔ زمین پر اگر کچھ بڑا نہ بھی ہو رہا ہو، تب بھی یہ میڈیا کی مدد سے اُسےبڑا بنا کر دِکھلا دیتی ہے۔ شاید وہ یہ سمجھتی ہے کہ جو چیز دِکھتی ہے وہی بِکتی بھی ہے۔اب یوم آزادی کا اَمرت مہوتسو کی تقریب کو ہی لے لیجیے۔ آزادی کے ۷۵ سال پورے ہو نے کے موقع پر، پی اڑ ٹیم ایسا ماحول بنا رہی ہے گویا موجودہ حکومت جیسی کوئی بھی سابقہ حکومت “دیش بھکت” نہیں تھی۔ اس بار “ہر گھر ترنگا”مہم چلائی جا رہی ہے اور ارباب اقتدار عوام کو یہ نصیحت د ے رہا ہیں کہ وہ ۱۳ سے ۱۵ اگست کے درمیان اپنے گھروں سے قومی پرچم تِرنگا کو لہرائیں۔دعویٰ کیا جا رہےکہ ایسا کرنے سے عوام کے دلوں میں حب الوطنی کا جزبہ پیدا ہوگا۔یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کے موقع پر پرچم کشائی سالوں سے ہوتی آ رہی ہے، مگر اس بار اسے کچھ الگ دھلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مین سٹریم کے صحافی، بر سر اقتدار سیاسی جماعت کے کارکنان اور سرکاری اداروں کے افسران عوام کو دیش بھکتی کا درس دینے میں پیش پیش ہیں۔ ایوان اقتدار میں چکر لگانےوالےعناصر خود کو سب سے بڑا ” دیش پریمی”دکھلانے کی ہوڑ میں ہیں۔کیمرے کے سامنے خود کو ملک دوست بتلانے کا فیشن چل پڑا ہے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر بھگوا جماعت اپنے حریفوں سے حب الوطنی کا امتحان بھی لے رہی ہے۔مگر ارباب اقتدار کو کون سمجھایے کہ وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے۔ جو جہاں پیدا ہوتا ہے، وہاں کی مٹی کی خوشبو اسے پوری زندگی محسوس کرتا ہے۔جن پیڑ اور پودے کے نیچےانسان بڑا ہوتا ہے، ان کی سر سبز و شادابی کو یاد کر کے اس پر شادمانی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔جن کھیت ، تلاب اور ندی کے درمان وہ اپنا بچپن گزراتا ہے، ان کو یاد کر وہ ہمیشہ سکون و مسرت پاتا ہے۔لہٰذا انسان کو حب الوطنی کا درس دینا ویسا ہی فصول کا کام ہے، جیسا مچھلی کو پانی میں تیرنے کے لیے تربیت دینا۔

مگر جدید دور میں قومی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد حب الوطنی کے معنیٰ بدلنے لگے۔انسان کی ایک پہچان نہیں ہوتی، بلکہ وہ بیک وقت کسی نہ کسی مذہب، علاقہ، جنس، زبان، ثقافت وغیرہ سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ مگر قومی ریاست میں ملیت کو سب سے اہم سمجھا جانے لگا۔ حالانکہ بھارت میں قومیت کا نظریہ کثرت میں وحدت کا رہا ہے۔مطلب یہ ہے کہ جیسے ہماری الگ الگ مذہبی، علاقائی اور لسانی پہچانی ہے ویسے ہی ہماری ایک قومی پہچان بھی ہے۔ مثال کے طور پر گاندھی جی کا تشخص ایک سناتانی ہندو کی تھی، مگر وہ ساتھ ساتھ ایک سچے ہندوستانی بھی تھے۔ اسی طرح مولانا آزاد ایک عقیدتمند مسلمان اور ہندوستانی تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ کی جگہ سیکولر کانگریس کو اپنی پارٹی مانا۔وہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والا ملک پاکستان کی جگہ بھارت کو اپنا پیارا وطن مانا۔ مگر شدت پسند، نسل پرست اور ایک قوم، مذہب اور زبان کی بات کرنے والے تاریخ کو فراموش کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ وحدت پر توخوب زور دیتے ہیں، مگر کثرت کی بات کو جان بوچھ کر نہیں کرتے۔ اگر ان کی نیت میں کھوٹ نہیں ہوتی، تو وہ ایسا سوال نہیں کرتے”تم پہلےمسلم ہو یا اِنڈین؟”

تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کا دائرہ تنگ سمٹتے جا رہا ہے۔ اب تو مجاہد آزادی کی پہچان دیکھ کر اپنایا یا فراموش کیا جا رہا ہے۔ تاریخی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ لمبے وقت تک کانگریس کے ساتھ ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ کے کارکنان مل کر کام کرتے تھے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزادی کی لڑائی کے دوران کانگریس کے لیڈروں کے مابین اتفاق کم اور اختلاف زیادہ دکھتا تھا؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مدن موہن مالویہ کانگریس اور ہندو مہاسبھا دونوں کے صدر تھے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب ۱۹۴۲ کے دوران کانگریس کے لیڈران بھارت چھوڑو تحریک کے نعرہ بلندر کر رہے تھے،تب بابا صاحب امبیڈکر برطانوی حکومت میں شامل تھے؟ کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ ہندو مہاسبھا کے لیڈر اور جن سنگھ کے صدر شیاما پرساد مکھرجی نہرو وزارت میں وزیر تھے۔پھر کیسے مکھرجی دیش بھکت کہے جا رہے ہیں اور ان کے ٹیم لیڈر نہرو پر سوالوں کی جڑھی لگا دی جا رہی ہے؟ کیا اس بات میں شک ہے کہ انگریزوں کےخلاف سب سے پہلے لڑنے اور مرنے والے ملک کے آدی واسی ہیں۔۱۸ویں صدی میں آدی واسی علاقوں میں انگریزوں نے قبضہ کر نا شروع کر دیا تھا۔ ان کے اس استحصال اور زیادتی میں مقامی زمیندار اور دلال بھی شامل تھے۔ ٹیکس کی صورت میں آدی واسیوں سے مورٹی رقم لوٹی جانے لگی۔وسائل کی لوٹ اور آداواسی طرز زندگی پر ہو رہے نوآبادیاتی حملےکے خلاف ۱۸ویں صدی میں بڑی بغاوت ہوئی ۔جب کانگریس ، گاندھی ، نہرو اور ساورکر اور آر ایس ایس کہیں بھی سیاسی میدان میں دکھ نہیں رہے تھے، تب برسا منڈا انگریزوں اور ان کے دیسی ایجنٹوں کےخلاف لڑائی لڑ رہے تھے۔ مگر آج ان باتوں کو نئی نسلوں کو نہیں بتلایا جا رہا ہے۔اگر غلطی سے ایک یا دو آدی واسی ہیرو کو یاد بھی کیا جاتا ہے، تو ان کی فکر کو جان بوچھ دبا دیا جاتا ہے۔ جنگ آزادی کی داستان گاندھی، ساورکر سے شروع ہو کر آر ایس ایس پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔آج کسی کےپاس یہ ہمت نہیں ہےکہ بھگوا طاقتوں سے یہ سوال کرے کہ ان کا نظریہ ماضی میں قومی پرچم اور آئین کو لے کے کیا رہا ہے؟ اس بات پر بھی میڈیا چرچہ نہیں کرتا کہ ملک کے محکوم طبقات(دلت، آدی واسی، پسماندہ طبقات، اقلیت، خواتین) کیوں تاریخ کی کتابوں میں جگہ نہیں پا پاتی ہیں؟ کیا ان کی قربانیوں کو فراموش کرنا ملک سے غداری نہیں ہے؟

تضاد دیکھیے کہ سرکار لوگوں سے اپیل کر رہی ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے ترنگا لہرا کر اپنی دیش بھکتی کا ثبوت دیں، مگر وہی سرکار بے گھروں کو گھر مہیہ کرانے کے اپنے فرائض کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کیا سرکار اس بات کا جواب دے گی کہ جس کے پاس گھر نہیں ہے، وہ ترنگا لہرانے کہاں جائے؟کیا یہ بات غلط ہے کہ بھارت میں کروڑوں لوگوں کے پاس آج بھی اپنا گھر نہیں ہے، کیا ایسے لوگ دیش دروہی قرار دیے جائیں گے کیوںکہ وہ اپنے گھروں سے قومی پرچم لہرانے میں قاصر ہیں؟ جن کے پاس مکان، کھیت اور جینے کےلیے معقول وسائل نہیں ہیں، ان کو جب الوطنی کا درس دینا کتنا جائز ہے؟ کیا یہ ملک کی بدقسمتی نہیں ہے کہ یہاں دنیا کے بڑے سے بڑے امیر لوگ بستے ہی، وہیں غریب لوگوں کی سب سے بڑی آبادی بھی یہی رہتی ہے؟ آزادی کے ۷۵ سال بعد بھی کروڑوں لوگوں کو صاف پانی ستیاب نہیں ہے۔ کیا اس کوتاہی کے لیے ارباب اقتدار کی حب الوطنی پر سوال اٹھنے چاہیے؟

یوم آزادی کے موقع پر ترنگا لہرانے کی کوئی مخالفت کوئی بھی سچا ہندوستانی نہیں کر سکتا ہے۔ مگر جس طرح سرکار نےہر گھر ترنگا مہم کے بہانے خود کو سب سے بڑا دیش بھکت دکھلانے کی کوشش کی ہے وہ اس کی غیر سنجیدہ سیاست کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اگر ملک کو مضبوط بنانا ہے تو سب کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا اور سب کی آنکھوں سے آنسو پوچھنے ہوں گے۔ ساتھ ساتھ نظام میں سب کو برابری دینی ہوگی۔ لوگوں کو ذات، مذہب ، جنس، زبان، علاقہ سے اوپر اٹھ کر یکساں حقوق دینے ہوں گے۔در اصل جزبہ حب الوطنی کہنے سے پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ قومی پرچم کو دیکھ کر ابھر آتا ہے۔ کسی بھی قومی ریاست میں جب شہری کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اس ملک کا کرایہ دار نہیں بلکہ برابر کا حقدار ہے تو وہ ملک پر مر مٹنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔بابا صاحب امبیڈکر نے بجا فرمایا ہے کہ سب سے بڑا ملک دوست وہ ہے جو سماج کی برائیوں کو دور کرنے کے لیے لڑتا ہے۔یعنی محکوم طبقات کے حقوق کے لیے لڑائی لڑتا ہے اور سماج میں آزادی، مساوات اور اخوت کو فروغ دیتا ہے۔اس لیےالوطنی کا درس پڑھانا وقت کی بربادی ہے۔سرکار کوچاہیے کہ وہ اپنی توانائی صرف علامتی چیزوں پر ذائع نہ کرے، بلکہ وہ لوگوں کی ترقی کے لیے سنجیدگی سے کوشش کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply