• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیریوں کی سیاسی یتیمی پر ایک اور مہر (2)۔۔افتخار گیلانی

کشمیریوں کی سیاسی یتیمی پر ایک اور مہر (2)۔۔افتخار گیلانی

اسطرح 96یا 97رکنی ایوان میں جموں یا ہندو حلقوں کی نشستیں 49یا 51تک ہونگی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہاجرین کی یہ نشتیں پاکستانی زیر انتظام یا آزاد کشمیر کی اسمبلی کی طرح ہونگی، جہاں 12نشستیں مہاجروں کیلئے مخصوص ہیں، جو اس علاقہ سے باہر پاکستان میں آبادہیں۔اور ان کے ذریعے پاکستانی حکمران مظفر آباد کی اسمبلی میں گیری مینڈرنگ کا کام کرتے ہیں۔ ایک حیرت انگیز فیصلہ کرتے ہوئے جنوبی کشمیر، یعنی اننت ناگ یا اسلام آباد کی سیٹ کو جموں کی پونچھ ۔راجوری علاقہ سے جوڑا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی گوجر ۔پہاڑی طبقات کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ جموں ۔توی سیٹ سے منسلک ہوتا تھا اور بی جے پی کا امیدوار اس علاقہ سے ووٹوں میں شکست کھاتا تھا۔ اس فیصلہ سے حکومت نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ دراصل پرانے زمانے سے ہی وادی کشمیر بھی تین خطوں پر مشتمل ایک علاقہ ہے۔ ایک طرح سے یہ تین صوبے ہوتے تھے۔ ان میں مراز یعنی جنوبی کشمیر (اننت ناگ، پلوامہ ، شوپیان) ، یمراز یعنی وسطی کشمیر، جس میں سرینگر، بڈگام وغیرہ کا علاقہ شامل ہے اور کمراز یعنی شمالی کشمیر (بارہمولہ، سوپور، کپواڑہ) کے علاقے شامل ہیں۔ یہ اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں اس لیے سیاسی لحاظ سے بھی اکثر مختلف طریقوں سے وقتا فوقتا اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں مراز یعنی جنوبی کشمیر واحد خطہ ہے جو صد فی صد کشمیر نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی لئے چاہے 1979میںپاکستانی لیڈر ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ردعمل ہویا 1987کا مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کا الیکشن ہو یا 2002سے 2014کے انتخابات ہوں یا برھان وانی کی ہلاکت کا معاملہ ہو، یہ خطہ بس ایک آواز میں متحداور متحرک ہوکر ایک طرف ہوجاتا ہے۔ دیگر د و خطے یمراز یا کمراز مختلف النسل کے افراد گوجر، بکروال، پہاڑی اور کشمیری نسل کے مشترکہ علاقے ہیں۔لگتا ہے جنوبی کشمیر کو پونچھ ْ۔ راجوری سے ملانے کا واحد مقصد اسکی کشمیری شناخت کو کمزور کرنا ہے۔اسکے علاوہ کمیشن نے 13نشستوں کے نام تبدیل کئے ہیں اور 21کی سرحدیں از سر نو تشکیل دی ہیں۔ ان میںمرحوم سید علی گیلانی کے آبائی علاقہ زینہ گیر کو سوپور سے الگ کرکے رفیع آباد میں ضم کردیا گیاہے اور سنگرامہ حلقہ کے تارزو علاقے کو سوپور میں ملادیا ہے۔ یہ اب تقریباً طے ہوگیا ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی ایما پر ہی حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کراکے اسکو 2024 کے عام انتخابات میں بھنایا جائے۔ ۔ وزیر اعلیٰ اور اسمبلی کی صورت میں یہ واحد ادارے بچے تھے، جہاں کسی صورت میں تعداد کے بل بوتے پر کشمیری مسلمانوں کو رسائی حاصل تھی۔ اگر مقامی بیوروکریسی کاجائزہ لیا جائے، تو فی الوقت 24سیکرٹریوں میں پانچ ہی مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ 58 اعلیٰ سول سروس افسران میں 12، دوسرے درجہ کے افسران میں کل 523میں 220 اور 66اعلیٰ پولیس افسران میں سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے 248پولیس افسران میں 108ہی مسلمان ہیں۔ اس خطے کے 20اضلاع میں بس 8 میں یعنی بڈگام، بارہمولہ ، بانڈی پورہ، کلگام، کپواڑہ، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں ہی ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ مسلمان ہیں۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے 15جج صاحبان میں بس دو مسلمان ہیں۔ کشمیر کی مین اسٹریم یا بھارت نواز پارٹیوںنے پہلے تو حد بندی کمیشن کا بائیکاٹ کیا تھا، مگر پچھلے سال جون میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد نیشنل کانفرنس اس قواعد میں شامل ہوگئی۔ چونکہ صرف بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے ہی لیڈران لوک سبھا کے اراکین ہیں، اسلئے وہ اس کمیشن کے ایسوسی ایٹ اراکین بھی تھے۔ ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کمیشن کی ساکھ ہی مشکوک تھی۔ سرینگر اور جموں میں کمیشن کی طرف سے بلائے گئے اجلاسو ں میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یعنی پی ڈی پی کے بغیر دیگر جماعتوں نے بھی میمورنڈم پیش کئے۔ نیشنل کانفرنس کی پہلے یہ دلیل تھی، کہ یہ کمیشن ہی غیر قانونی ہے، اور جس ایکٹ کے تحت اسکی تشکیل ہوئی ہے، اسکے وجود کو ہی نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ میں چلینج کیا ہوا ہے، لہذا وہ کمیشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ مگر پچھلے سال جون میں دہلی میں اسکے لیڈروں کو کیا گیدڑ سنگھی سنگھائی گئی ، کہ انہوں نے نہ صرف اس کمیشن کو تسلیم کیا بلکہ اس کے اجلاسوں میں بطور ایسوسیٹ ممبر بھی حصہ لیا۔کشمیر شاید واحد خطہ ہے، جہاں اکثریتی آباد ی کو دیوار کے ساتھ لگا کر امن و اما ن کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دہائی قبل دہلی کے کا نسٹیٹیوشن کلب میں ایک مذاکرہ کے دوران بے جے پی کے معتدل کہلانے والے لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے کہا تھاکہ کشمیر کا واحد مسئلہ اسکا مسلم اکثریتی کردار ہے اور کشمیر کی ترقی میں بھی یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے، دفعہ 370اور دفعہ 35 اے کی صورت میں سیاسی گرداب سے بچنے کے نام پر بس ایک نیکر بچی تھی، اسکو بھی اتارکر، کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے اور بیگانہ کرنے کا ایک گھنائونا کھیل جاری ہے۔۔ دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس نسل کشی میں دو لاکھ37ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ 1941 میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی32 لاکھ اور ہندووں کی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں 93 فیصد جب کہ جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی۔جموں کشمیر کی جدید صحافت اور مؤقر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین 1947کے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔قتل عام کو روکنے وہ، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ والی کشمیر مہاراجہ ہری سنگھ کے محل پہنچے۔ وہ بتاتے تھے کہ’’ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بالکل اس طرح۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئی، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے۔ـ‘‘ بقول وید جی، مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا۔2022میں ارون جیٹلی اور ہری چند مہاجن کا خواب حد بندی کمیشن کی رپورٹ نے تقریباً پورا کرکے کشمیری مسلمانوں کو 1947سے پہلے والی پوزیشن میں دھکیل کر انکو سیاسی یتیم اور بے وزن کردیاہے۔ جب سیاسی اور سفارتی مدد دینے کا دعویٰ کرنے والا وکیل بھی اپنے ہی گرداب میں پھنسا ہو، تو اس صورت حال پر نوحہ کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے۔۔

اے باد صبا اگر بہ جنیوا گذر کنی حرف زما بہ مجلس اقوام باز گوئی

دہقان و جوئے و کوہ خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔

Advertisements
julia rana solicitors london

92نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply