تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یمن کی عوامی رضاکار فوج ماٰرب شہر سے تقریباً دو کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچ چکی ہے۔ مرکز شہر سے یہ فاصلہ پانچ کلو میٹر رہ گیا ہے۔ عالمی سطح پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ سید عبدالمالک حوثی کی قیادت میں جارحین کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے تاریخ میں ایک نیا باب مکمل کرنے کو ہیں۔ امریکی سرپرستی میں 6 سال سے زیادہ عرصہ سے مسلط کردہ جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے کو ہے۔ آج (27 اپریل2021ء) صبح سے خبر رساں ادارے یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ یمنی افواج ماٰرب شہر کی طرف بڑھتے ہوئے اس وقت تومۃ العلیا کو آزاد کروا چکی ہیں۔ اس وقت اگرچہ جارحین اپنے ہاتھ سے گئے ہوئے مختلف علاقوں کو واپس لینے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اور انھیں سعودی بمبار طیاروں کی مسلسل حمایت حاصل ہے، لیکن انصار اللہ کے سپاہی جن کے بدن پر لباس بھی مکمل نہیں ہے، پورے عزم کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔
اس دوران میں یمن کے مفرور صدر عبدالرب منصور ہادی جسے سعودی اتحاد کی حمایت حاصل ہے، کی افواج انتہائی اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ان کے کئی اہم فوجی کمانڈر مارے جا چکے ہیں، جن میں ہادی کا معاون محسن الاحمر بھی شامل ہے، جو اپنی افواج کو حوصلہ دینے کے لیے اگلے محاذ پر پہنچا تھا، لیکن ان کے قتل نے افواج کے حوصلے مزید پست کر دیے ہیں۔ منصور ہادی کی افواج چونکہ مختلف ممالک اور علاقے کے کرائے کے فوجیوں پر مشتمل ہے، اس لیے ان میں تشویش زیادہ پائی جاتی ہے۔ کرائے کے فوجیوں میں سے چار بڑے فوجی افسر اس محاذ پر کام آچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق علاقے میں موجود القاعدہ اور داعش سے بھی ماٰرب کے محاذ پر مدد حاصل کی گئی ہے لیکن ابھی تک انھیں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
دوسری طرف تل ابیب کے لیے یہ ایک خوفناک خبر ہے کہ اس کے حلیف یمنیوں سے شکست کھا رہے ہیں جبکہ خود اسرائیلی قیادت اپنی ایٹمی تنصیبات دیمونا کے قریب شامی میزائل کے حملے کے وجہ سے تشویش میں مبتلا ہے۔ غزہ سے آنے والے راکٹوں نے بھی ان کی نیندوں کو اڑا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی چیف آف آرمی سٹاف نے اپنا امریکہ کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ ایسے میں ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانے والے یمنیوں کے میزائل اور ڈرونز نے بھی ان کے اضطراب میں اضافہ کر رکھا ہے۔ خاص طور پر جب انصار اللہ کے فوجیوں کی وڈیوز اسرائیل میں پہنچتی ہیں تو ان کے مقبول نعرے ان کے عزائم کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ فوجی مردہ باد امریکہ، مردہ باد اسرائیل اور مردہ باد منافقین کے نعرے بلند کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں امارات میں نئی اسرائیلی تنصیبات کے مستقبل کے بارے میں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اطمینان سے باقی رکھی جا سکیں گی یا نہیں۔
ماٰرب کو اس معرکے میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخی اعتبار سے بھی ماٰرب ایک اہم شہر ہے، یہی وہ شہر ہے جو اس ملکہ سبا کا پایہ تخت تھا، جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور پہنچ کر ایمان لائی۔ سد ماٰرب بھی تاریخ میں شہرت رکھتی ہے، جسے اس علاقے میں پانی ذخیرہ کرنے اور آب پاشی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس شہر کے تاریخی آثار ابھی تک باقی ہیں۔ اس دوران میں سعودی عرب نے جنگ بندی کی سر توڑ کوششیں کی ہیں۔ یو این او کا نمائندہ مارٹین گریفیٹ بھی علاقے میں مذاکرات کرتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ عراقی صدر کی کوششوں سے عراق میں ایران اور سعودیہ کے مابین بھی مذاکرات ہوئے ہیں۔ سعودی عرب نے صنعا کی حکومت کو بعض پیشکشیں بھی کی ہیں، تاکہ وہ ماٰرب پر قبضہ نہ کرے بلکہ جہاں ہیں، وہیں پر جنگ بندی قبول کرلے، لیکن ابھی تک اسے اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
یو این او کے بارے میں انصار اللہ کی قیادت واضح کرچکی ہے کہ وہ ہمیشہ جارح اتحادیوں کی حمایت میں کوشش کرتی ہے۔ انھیں یمنی عوام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ماضی میں یو این او کے توسط سے جو جنگ بندی کے معاہدے ہوئے، سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے ان کی کوئی پابندی نہیں کی۔ اس لیے انصار اللہ کی طرف سے جنگ بندی کی شرائط پیش کی گئی ہیں، جن میں صنعا کے ہوائی اڈے پر حملے بند کرنا نیز یمن میں غذا، ادویات اور تیل کی رسائی کے راستہ میں رکاوٹوں کا خاتمہ شامل ہے۔ ایسی شرائط اتحادی پہلے بھی تسلیم کرچکے ہیں لیکن انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ انصار اللہ کا مطالبہ ہے کہ پہلے ان شرائط پر عمل کیا جائے، پھر جنگ بندی کے لیے مذاکرات کیے جاسکتے ہیں۔ البتہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ مذاکرات ماٰرب سے اتحادی فوجوں کے مکمل انخلاء کے بعد ہی ممکن ہوسکیں گے۔
تاہم ماٰرب کی شکست سعودی اتحادیوں کی مکمل شکست پر ہی منتج ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ یہ شکست اس کے کھاتے میں نہ پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ یمن کے محاذ پر سعودی عرب کی مزید حمایت جاری نہیں رکھے گی۔ اگرچہ یہ زبانی جمع تفریق ہے اور ابھی حال ہی میں یمن میں نبردآزما القاعدہ کے ساتھ امریکی روابط کے نئے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اس موقع پر سعودی الائنس میں شامل دیگر ممالک کو بھی اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب سعودی عرب شکست کھا جائے گا تو کرائے کے فوجیوں کا انجام کیا ہوگا۔
اسی طرح جب یمن کی حکومت اور لوگ غیر ملکی فوجیوں کے مظالم اور کرتوتوں کے بارے میں شواہد شائع کریں گے تو کس کس ملک کے حصے میں رسوائی آئے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی حکومت نے سعودی عرب کی قیادت میں قائم نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد سے اپنے آپ کو الگ کرکے اپنے ملک کو رسوائی ہی سے نہیں، ایک مظلوم قوم کے خون میں ہاتھ رنگنے سے بچا لیا ہے۔ دوسروں کو بھی اس کی پیروی کی ضرورت تھی لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں