• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وزیراعظم عمران خان اور توقعات کا ہمالیہ۔۔۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

وزیراعظم عمران خان اور توقعات کا ہمالیہ۔۔۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

یہ 1999ء کی بات ہے، میں نویں کلاس کا طالب علم تھا اور ساہیوال شہر کے ریلوے روڑ پر مقیم تھا۔ گرمی کا موسم تھا، شام کے وقت میں کہیں سے کمرے کی طرف واپس آ رہا تھا کہ چند نعرے سن کر رک گیا، یہ عمران خان زندہ باد، آئے گا عمران اور اسی طرح کے نعروں پر مشتمل آوازیں تھیں۔ نوجوان اور شائد چند ہی بزرگ ہوں گے اور کچھ مجھ جیسے راہگیر تھے، جن کی عمران خان میں فقط دلچسپی یہ تھی کہ اس نے ملک کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جتوا دیا تھا، موجود تھے۔ عمران خان کارکنوں اور راہگیروں کی طرف دیکھ رہے تھے اور ایک عجیب سے مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی، انہوں نے پی ٹی آئی آفس کا افتتاح کیا اور چلے گئے۔ دوسرے دن اخبارات میں عمران خان کے دورے کی سرخی کچھ یوں تھی کہ عمران خان ساہیوال میں کارکنوں کی کم تعداد دیکھ حیران رہ گئے۔

ایک بات ماننا پڑے گی کہ عمران خان نے ایک مسلسل اور لمبی جدوجہد کی ہے، جس میں انہوں نے مختلف نشیب و فراز دیکھے مگر کسی بھی لمحے ہار نہیں مانی، ہر ناکامی کے بعد ایک نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھے۔ مجھے اور آپ کو ان کی رائے سے اختلاف ہوسکتا ہے، جو ایک فطری سی بات ہے، مگر ان کی مسلسل جدوجہد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ عوام میں عمران خان کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں، ان میں سے اہم وجہ یہ ہے کہ عمران خان جو بات کرتا ہے، اس پر ڈٹ جاتا ہے اور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ جب تک کوئی بھی سیاستدان اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا ہوتا ہے تو اس کے لئے ایسا کرنا بہت ہی آسان ہوتا ہے، جب وہ حکومت میں ہوتا ہے تو اسے بے شمار معاملات میں مصلحت سے کام لینا ہوتا ہے، ہر سچ بولنا ملکی اور قومی مفادات کو قتل کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس لئے اب بطور وزیراعظم عمران خان کیسے ڈٹ جائیں گے؟ یہ ان کا امتحان ہوگا۔

عوام نے عمران خان اور نئی آنے والی حکومت سے بے شمار توقعات وابستہ کر لی ہیں، جن کو پورا کرنا بظاہر ناممکن نہ سہی بہت مشکل ضرور لگ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایم این اے مراد سعید صاحب کی ایک ویڈیو سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر بھی بہت وائرل ہوئی، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ملک کا کل قرضہ سو ارب ڈالر ہے اور پاکستان کا باہر موجود لوٹا ہوا مال دو سو ارب ڈالر ہے، جس دن عمران خان کی حکومت آئے گی، دوسرے دن ہی یہ سرمایہ واپس آجائے گا اور ایک سو ارب ڈالر قرضہ دینے والوں کے منہ پر ماریں گے اور باقی ایک سو ارب ڈالر میں پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے۔ جوش خطابت میں سیاستدان ایسی باتیں کر جاتیں ہیں، جن کا پورا کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا مگر کہہ جاتے ہیں اور ان کی کہی باتیں میڈیا بار بار چلا کر نفسیاتی حملے کرتا ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب نے بھی جوش خطابت میں کہا تھا کہ ہم زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے، مگر پہلے تو وہ یہ کر نہ سکے اور جب انہیں اس جملے کے عواقب کا اندازہ ہوا تو باقاعدہ اسے واپس لیکر معافی تلافی کر لی۔

سادہ لوح عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ واقعاً ایسا ہوگا، جس دن عمران خان حلف اٹھائیں گے، اس سے اگلے دن ہی دو سو ارب ڈالر جھولی میں ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ یہ سرمایہ لوٹ کر قوم کو کنگلا کرنے والے کرپٹ لوگ پسِ زندان ہوں گے۔ جب دو سو ارب ڈالر کا سرمایہ آجائے گا تو ٹیکسوں کا وہ بوجھ جسے ہمارے ملک کے ہونے والے وزیر خزانہ غیر ضروری خیال کرتے رہے ہیں، وہ ہٹا دیئے جائیں گے اور عوام کو پٹرول اور ڈیزل پچاس ساٹھ روپے لیٹر پر دستیاب ہوگا۔ یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں، مگر عملی طور پر ایک دن میں تو کیا پوری حکومت میں بھی ایسا ہونا بہت مشکل لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پیسے کو سرکاری پیسہ ثابت کرنا اور ان ممالک سے معاہدات کرنا کہ یہ واپس کریں، ایک مسلسل سفارتی کوشش کا متقاضی ہے۔ بہت سے ایسے لوگ جو اس لوٹ مار میں شریک رہے ہیں، وہ بڑی ایمانداری سے پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں، ان کے خلاف تحقیق کرنا اور ان پر ہاتھ ڈالنا خود حکومت کو ہی نگل جائے گا۔

تعلیم اور صحت کے حوالے سے عوام یہ سمجھ رہے ہیں، اب انہیں یکساں نظام تعلیم اور بہتر صحت کی سہولتیں ملیں گے۔ حکومت اگرچہ کوشش کرے گی، مگر ہمارے وسائل محدود ہیں اور مسائل لامحدود ہیں، اس لئے سب طبقات کو ایک نظامِ تعلیم پر متفق کرنا یہی اونٹ کو رکشے میں بٹھانے جتنا آسان ہے۔ ہمارا طبی عملہ اور ہسپتالوں میں موجود مشیری بہت بڑی انویسٹمنٹ کی متقاضی ہے، اس کے بعد ہی صحت کے نظام میں بہتری لائی جا سکے گی، جس کی اجازت ملکی خزانہ نہیں دیتا۔ ایک اہم بات جس پر عمران خان نے بہت زور دیا اور عوامی مطالبہ بھی ہے کہ ہم اب نیا قرض نہیں لیں گے بلکہ پہلے والا قرض بھی اتاریں گے۔ عملی طور پر صورتحال بہت پیچیدہ ہے، کیونکہ 2016ء میں آئی ایم ایف کو خیر آباد کرنے کے باوجود اب ہم مجبور ہیں، بقول اسد عمر صاحب کے کہ آئی ایم ایف سے قرض لیں اور اس کے بغیر ملک کا چلنا مشکل لگ رہا ہے، یہ وہ عملی مجبوریاں ہیں، جس کی وجہ سے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، عوام چاہتے ہیں کہ قرض نہ لیا جائے، مگر عملی طور پر قرض ناگزیر ہوچکا ہے۔

عوام اب سستے گھر، ایک کروڑ نوکریاں اور سستی بجلی کی امید لگائے ہوئے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان سے جو ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ اب پورا ہوگا اور پچاس لاکھ سستے گھر بھی بنا کر دیئے جائیں گے۔ بے گھر خاندان نے اس امید سے ووٹ دیا ہے کہ اسے گھر ملے گا، بے روزگار کا مقصد یہ ہے کہ اسے مناسب با عزت روزگار ملے، جس سے وہ اپنی اور اپنے بال بچوں کی روزی کما سکے اور لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بلوں سے ستائے عوام منتظر ہیں کہ کب ان کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بلوں سے جان چھوٹے گی۔ ان کا پورا کرنا واقعاً ایک بہت بڑی پلاننگ اور ٹیم کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے، جو یہ کام نوکری سمجھ کر نہیں بلکہ عشق سمجھ کر انجام دیں، کیونکہ عوام بہت جلد ناامید اور مایوس ہو جاتی ہے۔ عوام بالخصوص نوجوان نسل نے جس طرح عمران خان پر اعتماد اور امید کا اظہار کیا ہے، ان کے اعتماد اور امید پر پورا نہ اترنا معاشرے میں بہت سے مسائل کو جنم دے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ پہلے سو دنوں میں ایسی کارکردگی دکھائی جائے کہ نوجوان نسل اور بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو امید کی جو کرن نظر آئی ہے، وہ کرن روشنی کا مینار بنتی نظر آئے۔

عمران خان سے لوگوں نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیں ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی آزاد اور برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنے پر مبنی ہوگی۔ عمران خان نے بھی مڈل ایسٹ میں جاری کشمکش جسے بعض قوتیں فرقہ وارانہ جنگ کے نام پر پاکستان لانے کی کوشش کر رہی ہیں، میں مصالحانہ کردار ادا کرنے ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ ہم اس سے دور ہی رہیں گے۔ یہ عملی طور پر کیسے ممکن ہوگا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب نیٹو قائم ہونے جا رہی ہے اور سعودی عرب کی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد کے کمانڈر انچیف ہماری افواج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف صاحب ہیں اور عملی طور پر بھی سعودی عرب میں ہماری افواج یمنی بارڈرز پر کافی عرصے سے موجود ہیں۔ محمد بن سلمان جس جارحانہ خارجہ پالیسی کا آغاز کرچکا ہے اس میں مصالحانہ کردار ادا کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ اب سعودی عرب کے اندرونی حالات کافی تبدیل ہوچکے ہیں، سعودی عرب میں سلفی علما کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

بعض ذرائع کے مطابق اس وقت سینکڑوں سلفی علماء سعودی جیلوں میں قید ہیں اور اخوانی علماء کی بڑی تعداد پہلے ہی سختیوں میں ہے۔ آل شیخ اور آل سعود میں طاقت کی تقسیم کا جو فارمولہ طے پایا تھا، وہ بھی مسائل کا شکار ہوچکا ہے، ان حالات میں پاکستان کا غیر جانبدار رہنا بہت بڑی سفارتکاری اور اور مسلسل جاگتے رہنے کا متقاضی ہے۔ افغانستان اور انڈیا کے ساتھ تعلقات میں توازن بالخصوص جہادی تنظیموں کے حوالے سے ان دونوں ممالک کی سفارتی کوششیں ہمیں بڑی تیزی سے ہمارے لئے ایسی صورتحال پیدا کر رہی ہیں، جس میں ہمیں بین الاقوامی برادری کو بہت سے سنجیدہ سوالات کے جواب دینے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایران کے ساتھ تعلقات بھی اتار چڑھاو کا شکار رہے ہیں، امریکی اور سعودی دباو میں ہم نے اپنے مفاد کے بہت سے منصوبوں کو بننے ہی نہیں دیا اور جو بنے انہیں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔ عوام نے اس سوچ اور فکر کے خلاف عمران خان صاحب آپ کو ووٹ دیا ہے، وہ یہ امید رکھتے ہیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کو جلد مکمل کیا جائے گا اور ان تمام قوتوں کی بیچ کنی کی جائے گی، جو دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ آپ کا نعرہ سرسبز پاکستان کا ہے، اس کے لئے جہاں نئے درخت لگانے ضروری ہیں، وہیں درختوں کی ایندھن کے لئے کٹائی کا روکنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کا بہترین حل شہروں، قصبوں اور بڑے دیہات میں فوری طور پر گیس کی فراہمی ہے اور اس کا جلد ترین قابل عمل منصوبہ پاک ایران گیس پائپ لائن ہے، جو ہمارے بارڈر تک پہنچ چکی ہے، ہمت کریں اور کسی دباو کے بغیر اسے تعمیر کر ڈالیں، یہ آپ کا اس قوم پر احسان ہوگا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply