• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کی نئی حکومت،کشیمر اور ایک نئی رپورٹ(1)۔۔افتخار گیلانی

پاکستان کی نئی حکومت،کشیمر اور ایک نئی رپورٹ(1)۔۔افتخار گیلانی

پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف اور انکے بھارت ہم منصب نریندر مودی کے درمیان مبارکباد کے ٹویٹس کے بعد باضابط خطوط کا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں رہنمائوں نے پرامن اور باہمی اشتراک پر مبنی تعلقا ت پر زور دیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایسا ایک نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے اور پاکستان علاقائی امن و سلامتی کیلئے پر عزم ہے۔ اس سے قبل مودی نے اپنے خط میں نیک خواہشات کے علاوہ تعمیری تعلقات کی خواہش کا اظہار کرکے امید ظاہر کی کہ پاکستان کے نئے حکمران بھارت کے کور ایشو یعنی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد کریں گے۔ نئی دہلی میں خطوط کے ان تبادلوں کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ چندر شیکھر ، اندر کمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی سمیت بھارت کے وزراء اعظموں کے دلوں میں میاں نواز شریف کیلئے ہمیشہ ایک سافٹ کارنر رہا ہے، جس کا میں نے خو د مشاہدہ کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارت کا دورہ کرنے والا ایک پاکستانی وفدغالباً مشاہد حسین کی قیادت میں گجرال سے ملا، تو اس نے نواز شریف کو برطرف اور قید کرنے پر انکو خوب سنائی اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ واجپائی نے بھی ایک بار بتایا کہ 1998میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل سبکدوش وزیر اعظم گجرال نے ان کو بتایا تھا کہ پاکستان میں شریف حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ جوہری دھماکوں کے بعد گجرال کی اس یقین دہانی نے ان کولاہور بس سفر کرنے کی ترغیب دی۔سنڈے آبزرور کے چیف ایڈیٹر محمد سعید ملک گجرال اور نواز شریف کی نیویارک میں 1996 میں ہوئی ایک ملاقات کے وقت بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔وہ اس کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ــ’’ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر جہاز میں گجرال سے اس ملاقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایک مطالبہ جو ان کے پاکستانی ہم منصب نے نہایت ہی زوو شور سے رکھا، وہ یہ تھا کہ بھارتی حکومت دوبئی کے راستے ان کی شوگر مل کیلئے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروائے اور ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو۔اس کے بعد کسی نے بھی بھارتی وزیر اعظم سے کشمیر یا دیگر امور پر سوال پوچھنے کی زحمت نہیںکہ، جبکہ اس سے قبل کئی صحافی ان امور سے متعلق سوالات پوچھنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔‘‘ خود مودی نے بھی کئی بار نوا ز شریف کی تعریفیں کرتے ہوئے بتایا کہ 2014میں نئی دہلی میں انکی حلف برداری کی تقریب میںشرکت کرکے شریف نے اعتماد سازی میں پہل کی، بلکہ بعد میں 2015 میں روسی شہر اوفا میں ملاقات کے بعد جس مشترکہ بیان کو جاری کیا گیا، تو اسمیں پہلی باربھارت اور پاکستان کی کسی دستاویز سے ’’کشمیر‘‘ غائب تھا۔ معلو م ہوا کہ نواز شریف نے اپنے وفد کو بتایا تھا کہ مودی کو روم دینا ضروری ہے، تاکہ پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد انکو پاکستان کے ایشوز پر عملی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دی جائے ۔ اوفا کے علاوہ اسی سال دونوں راہنماوٗں نے پیرس میں اور پھر بعد میں لاہور میں بھی ملاقاتیں کیں۔ اسکے برعکس بھارتی ادارے پیپلز پارٹی سے خائف رہتے ہیں، گو کہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ نے کانگریس حکومت کے دور میں سونیا گاندھی اور انکی فیملی کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی بہت کوششیں کی تھیں۔ بھٹو ۔زرداری خاندان اپنے آپ کو ایک طرح سے بھارت کے نہرو۔گاندھی فیملی کے ہم پلہ سمجھتا رہا ہے۔ مگر بھارت میں کوئی بھی سیاسی راہنما ،اداروں کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی تعلق قائم کرنے سے گریزاں رہتا ہے، وہ بھی جب معاملہ پاکستان سے متعلق ہو۔ دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے وزارت اعظمیٰ کی دوسری مدت کے دوران بے نظیرکی بھارت کے تئیں رویہ کی وجہ سے اسکو معاف نہیں کیا ہے۔ وزیر خارجہ سردار آصف علی کا پاکستان کے دورہ پر آئے بھارتی خارجہ سیکرٹری جے این ڈکشت کو ملاقات کا وقت نہ دینا ور پھر 1995میں نئی دہلی کے سارک چوٹی مذاکرات میں پاکستانی وزیراعظم کی عدم شمولیت ایسے گھائو ہیں، جن کیلئے بھارتی ادارے پیپلز پارٹی کو معاف نہیں کرپا رہے ہیں۔ بے نظیر نے اس سمٹ میں شرکت کیلئے صدر فاروق لغار ی کو نئی دہلی بھیجا اور انہوں نے پاکستانی سفارت خانے میں حریت لیڈروں کو مدعو کرکے ان سے ملاقات کرکے بھارت۔پاکستان مذاکرات سے قبل کشمیر لیڈروں سے صلاح و مشورہ کرنے کی داغ بیل ڈال دی۔ 2007میں انڈیا ٹوڈے سمٹ کے موقع پر جب بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی، تو ذرائع کے مطابق شکوہ کیا کہ اسکی پارٹی کی آمریت کے خلاف جدوجہد اور بحالی جمہوریت کی کوششوں کو بھارت میں سراہا نہیں جاتا ہے، جبکہ بھارت خود دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے۔ بعد میں اسوقت کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن سے میں نے استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تو خوب پینگیں بڑھاتی ہے، مگر اقتدارمیں آکر بھارت مخالف ایجنڈہ کو ہی ہوا دیتی ہے اور پھر چونکہ اس کا فوج کے ساتھ چھتیس کا آنکڑہ رہتا ہے، اسی لئے ڈیلیور بھی نہیں کرپاتی ہے۔ خیر پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں ہے۔ مسلم لیگ کا بھارت میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کا کشمیری عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کیلئے استعمال کریں، تو سودا برا نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، فضائیہ کے نائب سربراہ کپل کاک، سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ ، سماجی کارکن شاشوبھا بھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن پر مشتمل فکر مند شہریوں Concerned Citizens Groupنے کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ میں بتایا کہ خطے میں خوف و ہراس کی ایسا فضا قائم ہے کہ لوگ کانا پھوسی کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر اسوقت جارج آرویل کی ناول 1984اورآرتھر کوسٹلر کی ناول Darkness At Noonکی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔ دونوں کتابیں حکمرانوں کی طرف سے شہریوں پر عائد حد سے زائد نگرانی اور ظلم و ستم کا احاطہ کرتی ہیں۔ ایک دانشور نے سرینگر میںاس گروپ کو بتایا کہ کشمیر کی نئی جنریشن کو بھارتی جمہوریت کے گن بتانا تو اب ناممکن ہوگیا ہے۔ ایک بزنس لیڈر نے وفد کو بتایا کہ حالات دن بدن مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار سے باہر بھی ہوجاتی ہے، مگر جو نفرت اب سماج میں پھیلی ہے، اس کا تدارک کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ گو کہ سیکورٹی فورسز تقریباً ہر روز عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر ان کی تعداد حکومت کے اپنے بیان کے مطابق ہی 200سے کم ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب بس یہی لگایا جاسکتا ہے کہ عسکریت کو مقامی طور پر نئے رنگروٹ مل رہے ہیں۔ ایک اور لیڈر نے اس وفد کو بتایا کہ وزیر داخلہ نے سیاسی لیڈروں ، بشمول حریت کانفرنس کو، خاموش تو کرادیا ہے، مگر وہ بندوق کو خاموش کرانے میں فی الحال ناکام رہے ہیں۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply