بیجنگ نہیں جاؤں گی۔۔۔یاسر پیرزادہ

چین میں جو لوگ انگریزی بول سکتے ہیں اُنہوں نے اپنے دو نام رکھے ہیں، ایک اصل چینی نام اور دوسرا انگریزی نام، ہمارے ٹور گائیڈ کا انگریزی نام رچرڈ تھا، رچرڈ نے پہلی ہی ملاقات میں ہمیں بتا دیا کہ اُس کی باتوں کی وڈیو نہ بنائی جائے کیونکہ اسے اپنی زبان پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، یہ ایک کمیونسٹ ملک ہے، سو اگر کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نکل گئی تو بہت مسئلہ ہو جائے گا اور ساتھ ہی اُس نے حفظِ ما تقدم کے تحت ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’میں مذاق کر رہا تھا، چئیرمین ماؤ زندہ باد!‘‘۔ رچرڈ نے ہمیں دیوارِ چین کی سیر کروانا تھی، دیوارِ چین کتنے سال میں مکمل ہوئی، اُس کی تعمیر میں کتنے لوگوں کی جان گئی، یہ کتنے رقبے پر پھیلی ہے، یہ کہاں ختم ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں آپ گوگل کر کے جان سکتے ہیں۔ یہ بات البتہ آپ کو گوگل نہیں بتائے گا کہ دیوارِ چین کی سیڑھاں پھلانگنے کے بعد پنڈلیوں کا کیا حال ہوتا ہے، ایک ایک سیڑھی ڈیڑھ فٹ کی ہے، ہر قدم پر یوں لگتا ہے جیسے بندہ کوہ ہمالیہ سر کررہا ہو۔ تقریباً پانچ سو سیڑھیاں پھلانگنے کے بعد میں نے اور میرے ایک ہم نام دوست یاسر علی نے قرارداد منظور کی کہ دیوارِ چین کو جہاں سے بھی دیکھیں ایک سی لگتی ہے، لہٰذا مزید اوپر جانے کا کوئی فائدہ نہیں، سو یوٹرن لیا اور واپس ہو لیے، بلاشبہ یہ زندگی کے چند بہترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ تھا۔ کون کہتا ہے کہ یوٹرن کا فائدہ نہیں ہوتا! کھانے کے لیے رچرڈ ہمیں ایک مسلمان ریستوران میں لے گیا، یہاں سب کچھ حلال تھا مگر شاید مچھلی کو ’’حلال‘‘ کرنا بھول گئے تھے، سالم لا کر رکھ دی، ایک لمحے کو یوں لگا جیسے ابھی تڑپنا شروع کر دے گی۔

کھانے کے بعد معاشیات کے ایک پروفیسر سے ملاقات تھی، اِس پروفیسر نے چین کی ترقی کا راز بڑے دلچسپ انداز میں بتایا، کہنے لگا کہ آزادی کے بعد 1949سے 1978تک چین کے حالات بہت خراب رہے، حکومت کے پاس کوئی سرمایہ تھا نہ کوئی اقتصادی منصوبہ، برآمدات نہ ہونے کے برابر تھیں اور غیرملکی سرمایہ کاری پر پابندی تھی، بیرونی دنیا سے تجارت کو گناہ سمجھا جاتا تھا، سوویت یونین سے تعلقات اچھے تھے سو صنعتیں لگانے کے لیے وہیں سے مشینری وغیرہ درآمد کی گئی۔ نجی کمپنیوں کا کوئی تصور نہیں تھا، سب کچھ ریاست کی ملکیت میں تھا، کارخانے، صنعتیں، زمین، کمپنیاں، بینک، ریلوے، ڈاک، ہر چیز حکومت کے تصرف میں تھی، سرکاری عہدے دار کارخانے اور صنعتیں چلاتے تھے مگر ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا، ہر اختیار مرکز کے پاس تھا، اُن عہدے داروں کو پیداوار کا ایک ہدف دیا جاتا تھا جسے حاصل کرنا ان کی ذمہ داری تھی، ریاستی ملکیتی ادارے اگر اس مقررہ ہدف سے زیادہ بھی حاصل کر لیتے تو کسی مزدور، کسان یا کاریگر کو کوئی انعام یا بونس نہیں دیا جاتا تھا۔ چین کی ہر پبلک کمپنی اپنا تمام منافع سیدھا مرکزی حکومت کو جمع کرواتی تھی، مرکزی حکومت اِس منافع کو استعمال کرتی تھی، لوگ راشن کارڈ کے ذریعے چیزیں خریدتے تھے، چینی حکومت نے بہت کوشش کی کہ روز مرہ کی اشیا کی قیمتیں کم رکھی جائیں، پیداوار بڑھائی جائے مگر کامیابی نہ ہوئی، اس طرزِ حکومت کے نتیجے میں ملک میں قحط پڑ گیا جس میں تقریباً ایک کروڑ لوگ بھوک سے مر گئے۔

کرنا خدا کا یوں ہوا کہ چیئرمین ماؤ صاحب وفات پا گئے اور پھر اس دوران ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ چین کے ایک غریب صوبے آن ہوئی (Anhui)کے گاؤں کے دس پندرہ لوگ مقامی عہدے دار کے پاس گئے اور اسے ایک تجویز پیش کی۔ ہر عہدے دار کی طرح اِس شخص کو بھی مرکزی حکومت کی طرف سے پیداوار کا ہدف دیا جاتا تھا، اِن لوگوں نے اسے کہا کہ وہ اُس کی پیداوار کا ہدف پورا کر دیں گے مگر اُس سے اوپر جو پیداوار ہو گی وہ گاؤں کے لوگوں کی ہو گی جسے وہ جیسے چاہیں استعمال کریں۔ بظاہر یہ ایک غیر قانونی بات تھی مگر تھوڑی سی بحث کے بعد بالآخر وہ عہدے دار سخت راز داری کی شرط پر اِس معاہدے پر راضی ہو گیا، نتیجہ اِس ڈیل کا یہ نکلا کہ پیداوار ہدف سے کہیں بڑھ کے ہوئی اور مقامی لوگوں کو اس کا براہ راست فائدہ ہوا۔ آہستہ آہستہ یہ بات ملحقہ علاقوں سے پھیلتی ہوئی دوسرے صوبوں تک پہنچ گئی، لوگوں نے اسی طرح کے معاہدے کرنا شروع کر دیے، کچھ نجی کمپنیاں بھی وجود میں آگئیں جن کی قانوناً اجازت نہیں تھی مگر کمیونسٹ حکومت نے جان بوجھ پر آنکھیں بند کر لیں، انہیں اندازہ ہو گیا کہ اس معاشی سرگرمی سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، آن ہوئی جیسے صوبوں میں جہاں کسانوں کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے اب خوشحالی آ رہی تھی۔ یہ چین کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ ڈنگ ژاؤ پین نے ترقی کے اِس راز کو پا لیا اور دھیرے دھیرے چین کو معاشی طور پر آزاد کر دیا، نجی کمپنیوں کی اجازت دے دی، بیرونی تجارت کھول دی، معاشی نظام میں اصلاحات کیں اور پھر چین نے ایسی قلانچیں بھریں کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

اس خشک گفتگو کے بعد موڈ ہوا کہ بیجنگ کی سرد ہوا میں گرما گرم کافی پی جائے، اچھے سے کیفے کی تلاش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ دور کہیں ایک مشہور کافی چین ہے، آس پاس کوئی نہیں، یورپ کے برعکس یہاں کافی شاپس خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں اور اگر کہیں سے کافی مل جائے تو وہ گرم نہیں ہوتی، اورنج جوس البتہ یہ قوم ابال کر پیتی ہے اور چائے مانگو تو گرم دودھ پیش کر دیا جاتا ہے۔ بڑی مشکل سے ایک پُرسکون کیفے ڈھونڈا، اوور کوٹ چڑھا کر کافی کا آرڈر دیا، سگریٹ کا کش لگایا اور کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے لاہور فون ملا کر بیگم صاحبہ سے بات کی، کافی کی روداد سنائی اور کہا کہ ایسے میں آپ بھی ہوتی یہاں تو بیجنگ میں بہار آ جاتی مگر بیگم صاحبہ چونکہ کافی کی شوقین ہیں سو کافی کی بےحرمتی کا احوال سُن کر اُس جیون جوگی نے ایک ہی جملہ کہا ’’بیجنگ نہیں جاؤں گی‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply