ٹاپ ٹرینڈز کی سیاست۔۔آصف محمود

عوامی ایشوز اور کارکردگی اب قصہ پارینہ ہو ئے۔ اب ’ ٹاپ ٹرینڈز‘ کی سیاست کا دور ہے۔جھوٹ بولیے ، Trolls اور Bots کے ذریعے اس جھوٹ کو پھیلا دیجیے، میدان آپ کا ہوا ، آپ سرخرو ہوئے۔اس طریقہ واردات کو ، اس کی سنگینی کو اور سماج کی نفسیاتی تشکیل پر اس کے اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بعض اہل سیاست اگر مین سٹریم میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا کی جانب میلان رکھتے ہیں، تو اس کی وجہ محض ابلاغ نہیں ۔اس کی وجہ یہ حقیقت بھی ہے کہ میڈیا میں زیادہ سے زیادہ آپ کو Trolls تو مل سکتے ہیں، Bots نہیں۔ جب کہ سوشل میڈیا پر آپ کو دونوں دستیاب ہیں۔ اب جس کے پاس سوشل میڈیامیں جتنی مہارت ہے، جھوٹ پر اس کے جملہ حقوق اتنے ہی محفوظ ہو جاتے ہیں۔ یہTrolls اور Bots کیا ہوتے ہیں؟ سادہ سے لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ Troll وہ ورکر ، کارکن یا کارندہ ہوتا ہے جو سوشل میڈیا پر کسی خاص موقف کو پھیلا رہا ہوتا ہے اور Bots ایک غیر حقیقی کارندے کا کردار ادا کرتے ہیں اور یہ ایک مصنوعی اکائونٹ ہوتا ہے۔پیسے،سرپرستی اور فرصت ہو تو حسب استطاعت پچاس ہزار سے پچاس لاکھbots لیپ ٹاپ میں رکھ لیجیے ، پروپیگنڈا کرنے اور ٹاپ ٹرینڈ بنانے میں کام آئیں گے اور Trolls کے دست و بازو بنیں گے۔ایک کلک کیجیے اور لاکھوں Botsاودھم مچانے کو میدان میں ہوں گے۔ یہ Trolls اور Bots جب مل جاتے ہیں تو ایک پروپیگنڈا فورس تیار ہو جاتی ہے۔ راتوں رات ایک جھوٹ تراشا جاتا ہے اور صبح تک وہ جھوٹ حقیقت بن کر ٹویٹر سے وٹس ایپ تک ’ ککڑوں کوں‘ کر رہا ہوتا ہے۔جب تک معلوم ہوتا ہے یہ تو جھوٹ تھا ، مقصد حاصل کیا جا چکا ہوتا ہے۔اب کون کس کس کو بتاتا پھرے کہ بھیا یہ جو تم رجز پڑھ رہے ہو یہ تو سارا جھوٹ ہے؟ آج کل محترمہ جسٹس ناصرہ اقبال صاحبہ کا ایک مضمون وائرل ہوا ہے۔اس مضمون میں وہ بتا رہی ہیں کہ عمران خان صاحب کے خلاف امریکہ نے کیسے کیسے سازش کی اور کن وجوہات کی بنیاد پر کی۔ درجن بھر لوگ یہ مضمون مجھے بھیج چکے ہیں۔ اب کل سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ جسٹس صاحبہ نے اس کی تردید کر دی ہے اور ان کا کہنا ہے یہ انہوں نے نہیں لکھا۔مضمون مگر لاکھوں تک پہنچ چکا ہے ،اس کی تردید شاید ہزاروں تک بھی نہ پہنچے۔ انگریزی میں لکھا یہ مضمون اردو ترجمے کے ساتھ بھی دستیاب ہے۔یہ اہتمام بتا رہا ہے کہ پروپیگنڈے ایسے نہیں ہو جاتے ، اس کے لیے بڑی محنتیں کرنا پڑتی ہیں۔ الیکشن کے وقت عمران خان صاحب نے ایک ایسے آدمی کو پارٹی میں شامل کیاجس کے دامن پر اداکارہ شبنم کے اغواء سمیت سنگین جرائم کا دھبہ تھا۔اس پر شور مچ گیا۔ دبائو بڑھا اور یہ فیصلہ انہیںواپس لینا پڑا۔ اس ’’ ڈیمیج کنٹرول‘‘ کے لیے راتوں رات بنگلہ دیش سے اداکارہ شبنم کاٹویٹ سامنے آ گیا جس میں وہ عمران خان صاحب کے اس ایمان افروز اقدام کی تعریف کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔ دو دنوں میں معلوم ہو گیا کہ یہ ٹویٹ جعلی ہے۔لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لوگ اب تک حوالے دیتے ہیں کہ شبنم جی بھی خان صاحب کی ممنون ہیں۔ عمران خان صاحب کشمیر کے سفیر بنے اور ایک دن پورا آدھا گھنٹہ کھڑے رہے تو سید علی گیلانی صاحب مرحوم کا ٹویٹ سامنے آ گیا، جس میں عمران خان کے اقدامات کو قابل تعریف کہا گیا۔ میں نے سید علی گیلانی کے ترجمان سے رابطہ کیا تو جواب ملا: ’’ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ سید علی گیلانی کا کوئی ٹوئٹر اکائونٹ نہیں ہے،وہ سوشل میڈیا پر موجود ہی نہیں ہیں۔‘‘ پشاور میں جلسہ ہوا۔ ہمارے مذہبی رجحان رکھنے والے دوست علی محمد خان نے ناسا کی آٹھ سالہ پرانی تصویر اٹھا کر ٹویٹ کر دی کہ یہ لیجیے پورا شہر عمران کے لیے نکل آیا۔ اور تصویر بھی کہاں کی؟ جزیرہ نما آئیبیریا کی۔ اطراف میں سمندر کی تاریکی ہے اور بیچ میں سپین اور پرتگال جگمگا رہے ہیں۔غلط بیانی پکڑی گئی مگر ازراہ مروت بھی کوئی شرمندہ نہیں ہو رہا۔مطلوب و مقصود جب ماحول بنانا ہو تو پھر جھجھک کیسی۔ اسی جلسے کی ایک تصویر جناب اسد قیصر اور پرویز خٹک صاحب کے ٹوئٹر پر شیئر کی گئی۔پرویز خٹک صاحب نے لکھا یہ آزادی کی تحریک ہے اور اسد قیصر نے لکھا یہ انقلاب ہے انقلاب۔ د ل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں نے جو تصویر لگائی وہ جے یو آئی کے 2017 کے صد سالہ عالمی اجتماع کی تھی ۔ یہ تصویر جمعیت علمائے اسلام کے آفیشل فیس بک اکائونٹ پر 8 اپریل 2017 کو شیئر کی گئی ، وہاں موجود ہے اور دیکھی جا سکتی ہے۔ اب اگر قیادت کا طرز عمل یہ ہے تو تصور کیجیے بات جب نیچے Trolls اور Bots تک پہنچتی ہو گی تو کیا ہوتا ہو گا؟ اہتمام سے کچھ ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور پھر انہیں ٹرینڈ بنا دیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک غریب خاتون آلو ٹماٹر خریدتے ہوئے عمران خان کی غریب پروری کی تعریف کر رہی تھی۔ اس ویڈیو کو جناب شہباز گل نے شیئر کیا کہ ’’ یہ ہے اس قوم کی بیٹی ، کاش ہمارے بڑے بڑے دانشور اپنے بغض سے نکل کر یہ دیکھ سکیں‘‘۔ دیکھنے والے بھی مگر قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ لوگوں نے ڈھونڈ نکالا کہ چند ماہ پہلے اسی خاتون کی ویڈیو برطانیہ کی اوورسیز کے حوالے سے شیئر ہوئی تھی ، آج یہی خاتون مقامی غریب بن کر سبزی منڈی سے ویڈیو شوٹ کروا رہی ہے۔ایک صاحب نے لکھا کہ ’’ عورت نہیں بدلنی تھی تو اینکر ہی بدل لیتے‘‘۔سب سے اچھی گرہ جبران ناصر نے لگائی کہ ’’ فزہ ( اوورسیز) اور شزہ ( مقامی) دونوں تحریک انصاف کی مداح ہیں۔ ایسانہیں کہ دیگر جماعتیں حق کی علم بردار ہیں۔ ن لیگ کے پاس بھی مفتاح اسماعیل جیسے نابغے موجود ہیں جو مہینہ پہلے دہائی دیتے تھے کہ عمران نے پٹرول مہنگا کیوں کر دیا اور اب سر پیٹ رہے ہیں کہ عمران سستا پٹرول کیوں دیتا رہا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کا طریق واردات تھوڑا دیسی اور قدیم ہے جب کہ تحریک انصاف نے اسے ڈیجیٹلائز کر کے جدید تقاضوں سے ہم آ ہنگ کر دیاہے۔ اب زمین پر کسی کارکردگی کی ضرورت نہیں۔تھوڑا سا پوسٹ ٹروتھ ، جذباتی قسم کی چند ویڈیو، چارپائی پر لیٹا کوئی معذور جو معذوری کے باوجود جلسے میں آ یا ہو،ہولے ہولے سے میوزک کی آنچ ،ذرا سی جذباتیت ، دو چار نعرے ،سرخرو ہونے کو یہ لوازمات کافی ہیں۔ باقی کا کام Trolls اور Bots سنبھال لیں گے۔ محسوس یہ ہو ر ہا ہے کہ آ نے والے دنوں میں معرکہ یہیں ہو گا اور میدان اسی کے نام رہے گا۔ جو جھوٹ بولنے اور ٹاپ ٹرینڈ تک لے جانے میںمہارت رکھتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ جب سب اس میدان میں اتریں گے تو اس سماج کا کیا حشر ہو جائے گا؟ ابھی سے سوچ لیجیے کہ ہمارے لیے کہیں کوئی جائے امان ہو گی یا نہیں؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply