خدا کا گھر۔۔وقاص رشید

وہ ایک یخ بستہ شام تھی اپنے گلی میں کھڑے ہاتھ ہلاتے بچوں کو خدا حافظ کہہ کر میں “واللہ خیر الرازقین ” کے عملی ترجمے و تفہیم کے لیے گھر سے فیکٹری جانے کے لیے نکلا تھا۔ ملکوال سے بھیرہ جانے والی آخری بس میں سوار ہونا اس لیے ضروری تھا کہ گاؤں میں رہنے والے مسافروں کی آخری بس تک ہی انکا بس چلتا ہے اور پھراسکے بعد سڑک کے کنارے چمچماتی کاروں کو پاس سے گزرتے دیکھنے اور شرمندگی کے مارے لفٹ کے لیے ادھورا سا ہاتھ آگے بڑھانے کی بے بسی آخری بس چھوٹنے کی سزا ہوتی ہے. بھیرہ پہنچ کر میں نے رکشہ لیا اور اس موٹرے انٹر چینج پر پہنچا۔جاڑے میں آخری بس کیونکہ سرِ شام نکلتی تھی اور فیکٹری کی گاڑی آنے میں کافی وقت ہوتا تھا تو وہ وقت مجھے کسی ڈھابے پر چائے، سگریٹ ،قلم ،کاغذ اور بیتی یادوں کے ساتھ بتانا ہوتا تھا۔ محرومیوں میں اگر زندگی کو خود ترحمی کی بیساکھیوں کے سہارے لڑھکنے کی بجائے جستجو کے ساتھ گامزن ہونے کی تربیت ورثے میں ملے تو یادیں بیش قیمت اثاثہ ہوتی ہیں. بذاتِ خود ایک مکتب،ایک درسگاہ۔
دھند کے بادل اور دور سے آتی گاڑیوں کی روشنیاں ماضی کے جھروکوں سے جھانکتی یادوں کی کرنیں معلوم ہوتی تھیں۔مگر آج فطرت نے اس سردی میں زندگی کی تپتی حقیقت کا کوئی منظر ذہن پر نقش کرنا تھا جس نے اس تحریر کا موضوع و عنوان ہونا تھا۔جس پر ایک نظم میں پہلے کہہ چکا مگر یار لوگ اب مجھے منظوم نہیں منثور دیکھنا چاہتے ہیں۔ سچ ہے یکسانیت سے انسان اکتا جاتا ہے۔
دھند نے ہلکی پھوار بن کر موسم کی ٹھنڈک کو منزل والوں کے لئے رومانوی اور سفر و ہجر والوں کے لیے مشکل بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ایسے میں مسافر عارضی منزل اور پناہ گاہ کی طرف رخ کرتے ہیں میں ڈھابے کا مستقل گاہک ہونے کی وجہ سے پہلے ہی چولہے کے قریب وی آئی پی پروٹوکول حاصل کیے ہوئے تھا کہ بارش سے بچنے کے لیے ادھر دوڑتے ہوؤں میں وہ بچہ بھی تھا۔ عمر لگ بھگ دس بارہ سال، مگر ان چند سالوں میں پندرہ صدیوں کی مزہبی و معاشرتی نا انصافیوں کا تجربہ اپنے پتلے سے لباس آدھے بازو کی سویٹر سر کی نمازی ٹوپی اور پیروں میں ٹوٹی ہوئی چپل میں سموئے ہوئے تھا ۔ اس لمحے سردی مجھے اپنے گرم تر لباس میں سے سرایت کرتی اندر روح تک پیوست ہوتی محسوس ہوئی۔ اسکے کانپتےجسم سے یوں لگا جیسے پوری دھرتی کانپ رہی ہے۔ اگلے ہی لمحے اس نے جب چولہے کے قریب ہو کر زندگی کی سرد مہری کو کچھ شرمندہ کرنا چاہا تو مجھے اپنی طرف متوجہ پایا۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب اس مزہب کے مظلوم و معصوم روبوٹ کے بے حس پروگرامر نے اس میں ایک مخصوص جملہ فیڈ کر رکھا تھا “جزاک اللہ ماشاللہ “۔ یہ کہہ کر جب اس نے ایک ٹین کا چھوٹا سا مقفل گلہ اپنے کانپتے ہاتھ سے میری طرف بڑھایا تو مجھے لگا جیسے یہ گلہ خدا کا عرش ہو جو تھر تھرا رہا ہو ، وہی خدا جسکے نام نہاد گھر ایک مسجد کی تعمیر کے لیے اس یتیم بچے کو اس وقت بے گھر کیا گیا۔
میں نے سوچا کہ اپنی قدرت کی حرارتوں میں عرش پر مسند نشین وہ خدا کیا زمین پر اس بچے کی بھوک سے نچڑی یتیم ہڈیوں کو برفا کر اپنا گھر بنوائے گا ؟ کیا واقعی… اسے میں نے پاس بٹھایا،چائے کے ساتھ ابلا ہوا انڈہ منگوایا۔ اس نے انڈہ یوں کھایا اور گرما گرم چائے حلق میں یوں انڈیلی جیسے اسے یہ ڈر ہو کہ کہیں اسکے بچپن کے خوابوں کی طرح یہ بھی اس سے کوئی لے نہ لے بنامِ دین…..پھر میں نے اس سے تفصیلی انٹرویو کیا جو اسکا آؤٹر ویو پہلے ہی مجھ پر آشکار کر چکا تھا…..
پانچویں جماعت میں والد فوت ہو گیا، گھروں میں کام کرتی ماں نے محلے کے مدرسے میں ڈال دیا، قاری صاحب نے بھکاری بنا دیا۔ خدا کے زیرِ تعمیر گھر کا بھکاری….
صبح سے رات تک انٹر چینج پر اپنے یتیم و بے گھرخلیفہِ خدا ہونے کے خراج میں خدا کے گھر کے لیے چندہ جمع کرتا تھا وہ خدا جو خود یتیم پیدا ہونے والے یتیموں کے والی محمد الرسول اللہ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد سے اس روئے زمین پر بے گھر ہے۔ خدا کے گھر کے گلے کی چابی قاری صاحب کے پاس ہوتی ہے رات کو جو ایک مشاق حصص کے کاروباری کی طرح اسے کل جمع شدہ چندے کا 20 فیصد عطا کرتے تھے۔ 500روپے پر 100روپے اور 1000 روپے پر 200روپے..آخری بات جو اس نے مجھے بتائی اس نے مجھے ایک نئی دنیا سے روشناس کروایا کہ اس نے روزانہ تندور سے اپنی “جزاک اللہ ماشاللہ ” کی کمائی سے اپنے اور ماں کے لیے روٹی بھی لے کر جانی ہوتی ہے۔ غربت اور مجبوری میں شاید ممتا کے معانی بھی بدل جاتے ہیں۔ خدا کے گھر کے لیے تگ و دو کے نتیجے حاصل ہوتی کمائی میں برکت بھی شاید زیادہ ہوتی ہے۔ اسکے بعد وہ گھر واپسی کے لیے ایک رکشے کی طرف بھاگا..
سالوں کے بعد آج جب اس مسجد کے سامنے سے میرا گزر ہوا تو میں وہاں رک گیا۔ اندر جانے کی تو ہمت نہ ہوئی لیکن اسکی طرف اپنی نمناک آنکھ اٹھائی تو منقش مینار میرے سامنے اس بچے کی طرح لرزنے لگے ۔ اس پر لگی قیمتی ٹائلیں مجھے اسکی اس پھٹی ہوئی سویٹر جیسی لگنے لگیں۔ اڑھائی اینٹ میں ایک خاص فرقے کی آبیاری کرتی رنگین تحریریں مجھے ایک یتیم کے بختوں کی سیاہی معلوم ہونے لگیں.دروازے کے تھوڑا قریب جا کر دیکھا تو ایک لحیم شحیم ملاں ایک ہیٹر جلائے اسکے قریب بیٹھے تھے..تو وہ سردی سے چٹختی وہ ہڈیاں یاد آئیں جو اس رات ڈھابے کے چولہے سے اپنی یتیمی کی بھوک کے لیے حرارت مستعار لے رہی تھیں.
خدا اگر یہاں ہوتا تو میں اس سے پوچھتا کہ اے عرش پر اپنی قدرتوں کی حدت میں مسند نشین رحیم و رحمان بادشاہ یہاں یتیموں کی جاڑے میں کڑکٹی اور چٹختی ہڈیوں کے خراج اور بچپن کے خوابوں کے خون سے بننے والے ملاں کے گھر کیسے آنا ہوا…….
لیکن عالی ترین ظرف رکھنے والے عظیم خدا نے میرے گمان و رتیِ ایمان کی لاج رکھ لی…….
شکر ہے وہ مجھے یہاں نظر ہی نہیں آیا……

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply