جنوبی ایشیا: تباہی کیلئے صرف ایک حادثہ کا منتظر(1)۔۔افتخار گیلانی

جب پوری دنیا روس اور یوکرین کی جنگ اور اسکے مضمرات سے نپٹنے میں مصروف تھی، تو اسی وقت جنوبی ایشیامیں اس سے بھی زیادہ خطرناک جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ 9مارچ شام سات بجے جب پاکستانی فضائیہ کے دفاعی سسٹم نے بھارت سے آنے والے کروز میزائل براہموس کو ٹریس کیا، تو بتایا جاتا ہے کہ جوابی کارروائی کے بطور آپریشن کو منظوری مل چکی تھی۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت شاید پاکستان میں حال ہی میں تعینات چینی میزائل ڈیفنس سسٹم کی کارکردگی کو چیک کرنے کا خواہاں تھا، کیونکہ اس طرح کا تجربہ چین سے ملحق مشرقی سرحد پر کرنے کا وہ متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ میزائل ہریانہ کے شہر انبالہ کے فوجی مستقر سے چھوڑا گیا تھا، مگر پاکستان کی سرحد سے 150کلومیٹر دور سرسہ کی فضاوٗں میں یہ بے قابو ہوکر پاکستان کی طرف گامزن ہوگیا اور اسکی حدود میں 124کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے میاں چنو ںکے پاس ایک سویلین پراپرٹی پر گر گیا۔ یعنی یہ میزائل 6منٹ46سیکنڈ تک فضا میں رہا، جس میں 3منٹ اور 2 سیکنڈ بھارت کی فضائی حدود میں رہا۔ خیریت یہ رہی کہ یہ میزائل اسوقت وار ہیڈ کے بغیر تھا، ورنہ یہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوتا ہے۔بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے پاس اس طرح کے حملوں کا تدارک کرنے اور جوابی حملہ کرنے کا فیصلہ کرنے کیلئے بس تین سے سات منٹ کا وقفہ ہو تا ہے، جو نسبتاً دیگر جوہری ممالک سے نہایت ہی کم ہے ۔ یعنی یہ خط تباہی کیلئے بس ایک حادثہ کامنتظر ہے۔ بھارت کی وزارت دفاع نے پہلے تکنیکی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے پلاجھاڑنے کی کوشش کی، مگر بعد میں پارلیمنٹ میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بتایا کہ میزائلوں کی دیکھ ریکھ کے عمل کو سدھارا جائیگا اور اسکا ازسر نو جائزہ لیا جائیگا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ یہ میزائل کسی انسانی غلطی کی وجہ سے فائر ہوا ہے اورجلد ہی کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جا ئیگا۔ اس کے بعد خبریں بھی گشت کرنے لگیں کہ ائیر وائس مارشل کی قیادت میں جو تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس نے ایک گروپ کیپٹن کی نشاندہی کی، جس کی ـ’’غیر ذمہ داری‘‘ کی وجہ سے یہ جوہری میزائل پاکستان کی طرف پرواز کر گیا۔ ایسی صورت حال میں جب 2019سے دونوں ممالک نے کشیدگی کی وجہ سے اپنے انتہائی جدید ہتھیاروں کو آپریشن حالات میں تیار رکھا ہوا ہے، اس طرح کے حادثاتی فائر سے یہ خط کس قدر جنگ کے نزدیک پہنچ چکا تھا، اور اس کے نتیجے میں ہزاروں اور لاکھوں افراد کی ہلاکت کس کے کھاتے میں لکھی جاتی۔ وزارت دفاع اور بعد میں وزیر دفاع کے دیے گئے بیان میں واضح تضاد ہے۔ راج ناتھ سنگھ کا بیان تکنیکی خرابی کو چھپانے کی ایک سعی لگتی ہے، تاکہ میزائل کے فروخت کے منصوبوں پر پانی نہ پھر جائے۔ بھارت نے حال ہی میں فلپائن کے ساتھ ان میزائلوں کی فروخت کیلئے 375ملین ڈالر کاسودا طے کیا ہے اور کئی اور ممالک کے ساتھ گفت وشنید کر رہا ہے۔جس وقت یہ میزائل داغا گیا ، اس وقت اسی روٹ پر تین پروازیں سیالکوٹ سے دوبئی ، سرینگر سے ممبئی اور لاہور سے ریاض فضا میں تھیں۔ یعنی ان جہازوں کے مسافروں کی زندگیاں بال بال بچ گئیں۔ ان کے قریب ہی کویت۔سعودی عرب اور قطر کے جہاز بھی محو پرواز تھے۔ دونوں ممالک نے 2005میں بیلسٹک میزائلوں کی تجرباتی پرواز سے قبل ایک دوسرے کو مطلع کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ اس کے مطابق اسطرح کی آزمائشی پروازوں سے تین دن قبل سفارتی اور ملٹری چینلوں سے ایک دوسرے کو مطلع کیا جائیگا اسکے علاوہ یہ تجربات ایک دوسرے ممالک کی سرحدوں کا رخ کئے بغیر اور ان کے قریب نہیں کئے جائینگے۔ اسی لئے بھارت اس طرح کے دورمار میزائلوں کے ٹیسٹ خلیج بنگال میں ایک جزیرہ سے کرتا ہے۔ اس معاہدہ کے خد و خال 1999میں لاہور معاہدہ کے وقت وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور انکے ہم منصب نواز شریف کے درمیان طے پائے گئے تھے۔ بعد میں اسکو حتمی معاہدہ کی شکل دینے میں پانچ سال کا وقفہ لگا۔ جب نئی دہلی اور اسلام آباد میں اس پر گفت شنید ہو رہی تھی تو پاکستانی وفد اس معاہدہ میںکروزمیزائل بھی شامل کرنے پر اصرار کر رہا تھا۔ عراق کے خلاف 1990کی جنگ کے وقت امریکہ نے کروز میزائلوں کا کامیابی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے، جس طرح صدام حسین کی افواج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، تو ان میزائلوں کی اہمیت دوچند ہوگئی۔ بیلسٹک میزائل چھوٹنے کے بعد راکٹ کی طرح پہلے خلا میں چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد راکٹ کی طرز پر ہی گراونڈ کنٹرول سسٹم سے اسکو گائیڈکرکے ٹارگٹ کی طرف موڑا جاتا ہے۔ جبکہ کروز میزائل ایک طرح سے بغیر پائلٹ کے جہاز کی مانند ہوتا ہے۔ یہ خلا میں جانے کے بجائے فضا ء میں ہی جہاز کی طرح پروا ز کرتا ہے اور اسکو زمین سے گائیڈ کرنے کے بجائے اسکے سسٹم میں ہی ٹارگٹ سے متعلق معلومات اور ڈائرکشن محفوظ کی جاتی ہے۔ چونکہ یہ نچلی سطح پر پرواز کرتا ہے ، اسلئے عام راڈروں کو جھل دینے میں کامیاب رہتا ہے۔ 1998میں بھارت نے روس کے اشتراک سے براہموس (جو برہم پترا اور موسکوا دریاوٗں کا مخفف ہے)کروز میزائل کے پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا اور جون2011میں اسکا پہلی بار تجربہ کیا۔ اسی لئے بات چیت کے دوران پاکستان کے افسران اصرار کرتے تھے کہ پیشگی اطلاع معاہدہ میںکروز میزائل بھی شامل کئے جائیں۔ مگر بھارت کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان کے پاس کروز میزائل ہی نہیں ہیں، تو انکو شامل کرنے کا اصرار بے جا ہے۔ بھارتی وفد کا کہنا تھا کہ وہ آخر یکطرفہ طور پر کیوں کرکروز میزائلوں کی پروازوں سے پاکستان کو مطلع کریں گے؟ دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس معاہدہ پر جب دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں نے دستخط کئے اسکے ایک ماہ بعد ہی پاکستان نے حتف۔7 کا کامیاب تجربہ کرکے کروز میزائل کی دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کردیا۔ تب سے دونوں ممالک میں کرو ز میزائلوں کی تیاری اور ان کی مختلف اقسام کی ٹسٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply