آج کا جابر سلطان۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

توہینِ رسالت کے الزام پر ماواراے عدالت قتل کے غلط اور غیر شرعی ہونے کے حوالے سے میرے موقف پر بعض عزیزوں اور دوستوں نے مجھ سے اپنی محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یار! محتاط رہیں، یہ بہت حساس موضوع ہے، اور آپ اپنا موقف بہت واضح اور کھلے الفاظ میں   بیان کر رہے ہیں!کوئی مسئلہ نہ بن جائے! ان سب دوستوں کی مجھ سے محبت اور ہمدردی پر میں ان کاتہہِ دل سے شکر گزار ہوں ، لیکن ان سے بھی عرض کیا ہے اور سب سے عرض کیے دیتا ہوں کہ یہی تو دین سے ہمارے تعلق کا اصل امتحان ہے۔باقی کسی مسئلے کو اگنور کیا جا سکتا ہے، لیکن ایسی خطرناک جنونی ذہنیت جو ایسے الزامات کے معاملے میں ہمارے یہاں عام پائی جاتی ہے، کے خلاف آواز نہ اٹھانے کا مطلب ہے کہ ہم موت کے ڈر سے اللہ اور اس کے رسول کے دین کی صحیح تصویر پیش کرنے سے پیچھے ہٹ جائیں۔

آپ نے وہ حدیث تو پڑھ رکھی ہے، جس میں آں حضور ﷺ نے فرما رکھا ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا بہترین جہاد ہے۔ اور خوب سمجھ لیں کہ آج دنیا کا کوئی جابر سلطان ایسا نہیں، جس کے سامنے آپ کلمۂ حق نہ کَہہ سکتے ہوں، آپ سب لوگ سیاست دانوں ، ججوں ، آرمی چیف، دنیا کے حکمرانوں، امریکہ، یو این او وغیرہ ہر ایک کے خلاف کھل کر لکھتے اور بولتے ہیں، کسی سے آپ کو وہ خطرہ نہیں جو پرانے دور میں جابر سلطان سے ہوا کرتا تھا کہ کسی نے اس کے مفاد کے خلاف جونہی زبان کھولی اس نےاس کی گردن مار دی ۔

آج کا جابر سلطان ان حکمرانوں اور بادشاہوں سے کہیں بڑھ کر یہ جنونی ذہنیت ہے ، جو اللہ اور رسول ﷺکے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس کو،جب، جہاں اور جیسے چاہے مار سکتی ہے؛ خود ہی الزام لگاتی ہے، خود ہی مدعی بنتی اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ سنا دیتی ہے۔اور سب سے بڑا ستم یہ کہ یہ سب کچھ اللہ کے پسندیدہ دین اور نبی آخر الزمان ﷺ کے مبارک نام پر کرتی ہے۔اگر آپ سوچ رہے ہوں کہ ایسا تو اور بھی چور ، ڈاکو بدمعاش اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ کر گزرتے ہیں،وہاں آپ کو اتنی تکلیف کیوں نہیں ہوتی ! تو جان لیجیے کہ اور کسی بھی حوالے سے اگر کوئی ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے ،تو وہ کم ازکم اپنے آپ کو غازیِ اسلام اور عاشقِ رسول نہیں سمجھتا، مجرم ہی سمجھتا ہے، اور سوسائٹی بھی اس کو مجرم ہی سمجھتی ہے، اس لیے اس کا شر متعدی اور زیادہ خطرنا ک نہیں، اس کے شر سے نمٹنے کے لیے سوسائٹی اور نظام کے ہاتھ کھلے ہوتے ہیں ۔ مگر یہ ذہنیت تو ایسی خطرناک ہے کہ اس سے بھی بڑے جرم کو نہ صرف یہ کہ جرم نہیں سمجھتی ،بلکہ الٹا اسے تقدس اور نیکی و پارسائی کا لبادہ پہنا دیتی ہے، اور ساری سوسائٹی اور سارے نظام کو کہتی ہے کہ اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرو، ورنہ سب کا وہی حشر کر دے گی،اور سوسائٹی اور نظام بھی اس کے سامنے سہما سہما رہتا ہے۔مجھے بتائیے اس ذہنیت سے بڑا جابر سلطان بھی اس دور میں کوئی ہے؟ ایسے جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کو میں اپنا دینی، اخلاقی اور روحانی فریضہ سمجھتا ہوں۔اس معاملے میں میرے جذبات کو حبیب جالب نے اپنی منفرد انقلابی نظم کی صورت میں پہلے ہی زبان دے رکھی ہے کہ:
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کَہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
چارہ گر میں تمہیں  کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا!

میرا ایمان ہے کہ اگر ہم نے اس جابر سلطان کے سامنے دینِ حق کا پیغام پیش نہ کیا اور دین کے عطائیوں کو اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے ایسے رستے زخموں کے ساتھ کھل کھیلنے کا موقع دیا تو ہم مجرم ہیں۔ ہم سے اللہ کی عدالت میں سوال کیا جائے گا کہ جب اللہ کے دین اور اس کی تعلیمات کو جنونیوں نے ہائی جیک کر لیا تھا، تو تم نے کیا کردار ادا کیا؟ جس دین نے تمھیں بتایا تھا کہ ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اور اسی دین کے نام پر لوگوں نے ناحق قتل کو نہ صرف جائز کر رکھا تھا، بلکہ ایسے قاتلوں کو ہیرو بنا رہے تھے، اسلام کی مقدس چھتری تلے چھپا رہے تھے، تو تم کہاں تھے؟ تم نے اپنے حصے کا کردار کیوں ادا نہ کیا؟اللہ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میں اس معاملے میں خاموش رہوں تو اپنے آپ کو اللہ کے حضور مجرم خیال کرتا ہوں!خدا گواہ ہے ، میں پوری دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ یہ ذہنیت تریاق کے نام پر زہراب پیش کر رہی ہے اور میں دین کی شرابِ ناب کے دھوکے میں جنونیت اور جہالت کا یہ زہراب کسی بھی قیمت پر نوشِ جاں نہیں کرسکتا۔ واللہ ! اس معاملے میں اللہ کے دین اور اس کے نبیِ رحمت کی حقیقی تعلیمات پبلک کرنے کے “جرم” میں کوئی میری  جان کا دشمن  ہوتا ہے تو پڑا ہوتا رہے۔میرا ایمان ہے کہ ایسا جینا تھوڑا بھی ہو تو اصل جینا یہی ہے:

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ دورِ خرد ہے دورِ جنوں اس دور میں جینا مشکل ہے
انگور کی مے کے دھوکے میں زہراب کا پینا مشکل ہے
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے ماحول کے خونی منظر سے
اس حال میں جینا لازم ہے، جس حال میں جینا مشکل ہے!

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply