اب نہیں تو کبھی نہیں ۔۔سید عارف مصطفیٰ

جلدی کیجیے کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔
بیشک اب وہ وقت آگیا ہے کہ کراچی کا فیصلہ فی الفورکردیا جائے ۔۔۔
کیونکہ پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ۔۔۔ اور اب انتہائی بڑے اقدامات کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔۔۔ اگر اب بھی کراچی کو لوٹ مار تعصب اور بدعنوانی کی موجودہ دلدل یعنی یپلز پارٹی کی صؤبائی حکومت کے چنگل سے نہ نکالا گیا تو پھر معاملات اس حد تک بگڑسکتے ہیں کہ اپنے ملکی فیصلہ سازوں کے ہاتھوں ہی سے نہ نکل جائیں اور یوں اب مزید تاخیر سے سدھار اور بحالی کی باتیں خیال و خواب ہو کر رہ جائیں گی کیونکہ قوی خدشہ ہے کہ بغاوت کے دہانے تک پہنچادیا گیا یہ شہر تنگ آمد بجنگ آمد کے نظریئے کے تحت خاکم بدہن ایک بار پھر پرانے سیاسی نما دہشتگردوں کے چنگل میں آجائے گا اور اس بار انکے سرخیل الطاف حسین کا ایجنڈہ بہت واضح ہے کیونکہ ابکے اس نے اپنا نقاب خود ہی اتار کے رکھ دیا ہے اورصاف صاف اعلان کردیا ہے کہ وہ بھارت اور مغربی طاقتوں کی مدد سے کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے اور سندھو دیش بنانے کا ہدف پانا چاہتا ہے اور اس ضمن میں وہ یوٹیوب پہ لندن سے آئے روز زہریلی تقریریں کررہا ہے اور بالکل کھل کر اپنے مذموم مقاصد اورمنفی عزائم کا اظہار کررہا ہے- یہ سب یونہی نہیں‌ہے دراصل کشمیر کے معاملے میں بھارت کی تاحال ناکامی نے اب اسے بھارت کی حکمت عملی کا وہ مہرہ بنادیا ہے کہ بھارت کے نزدیک اب اس کے استعمال کا صصیح وقت آن پہنچا ہے اور اس سیاسی ٹٹو پہ ہوئی خطیر سرمایہ کاری سے فائدہ پہ مبنی نتائج سمیٹنے ضروری ہوگئے ہیں – یہاں یہ واضح کردوں کہ گزشتہ کئی برسوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے جس طرح یہ شہر بدترین پسماندگی کا شکار بناڈالا گیا ہے اسکے بعد الطاف حسین کے بھوت میں پھر سے جان پڑتی محسوس ہورہی ہے اور کراچی کے گی کوچوں میں اور چوک چوباروں اور تھڑوں پہ اس کا نظریاتی چورن بہت دھڑلے سے بکتا دکھائی دے رہا ہے

اب آتے ہیں کراچی کے معاملات کے حل طرف تو گو کہ یہ بات بالکل صاف ہے کہ کراچی اب آئندہ مزید صوبہ سندھ کے ساتھ چلنے کو تیار نظر نہیں آتا لیکن اس سلسلے میں کوئی بھی یکطرفہ قدم اٹھانا نہیں چاہیئے کیونکہ اس طرح کے کسی یکطرفہ اقدام سے منفی قؤتوں کو شرپسندانہ پروپیگینڈا کرنے کا موقع ہاتھ لگ جائے گا اور قوم پرستوں کو بھی ایک ایسا جھنجنا ہاتھ لگ جائے گا کہ جسے وہ تادیر بجاتے پھریں گے عین مناسب بلکہ لازمی ہے کہ آئین میں دیئے گئے خصوصی اختیار کے تحت یہاں ایک خصوصی ریفرنڈم کروایا جائے جس میں کراچی والوں کے سامنے 4 مختلف آپشن رکھے جائیں جن مں پہلا تو یہی ہو کہ کیا آیا کراچی کو جوں کا توں صوبہ سندھ کا حصہ ہی رہنے دیا جائے جبکہ دوسرا آپشن اس شہر کو وفاق کے تحت کرنے کا ہو اور اس سلسلے میں‌ تیسرا آپشن الگ صوبہ بنانے کا دیا جائے اور چوتھے آپشن میں یہ رکھا جائے کہ کیا سندھ کو شہری اور دیہی حصوں میں تقسیم کرکے دو صوبے بناکےکراچی کو اس شہری صوبے میں شامل کردیا جائے –

یہ جو چوتھا آپشن ہے تو یہ زیادہ مؤثر معلوم ہوتی ہے کیونکہ اؤل تو اس پانچویں آپشن کی وجہ سے دونوں حصوں میں سندھ کا نام عین اسی طرح شامل رہے گا کہ جیسے صوبہ پنجاب میں سے ایک اور صوبہ ‘ جنوبی پنجاب ‘ بنانے کی تجویز۔۔۔ اس طرح اس دوسرے صوبےکے نام میں بھی پنجاب کے نام کا حوالہ شامل رکھا جائے گا اور اگر یہی معاملہ سندھ میں کیا جائے تو کیا برا ہے جبکہ صوبہ سندھ میں تو کوٹا سسٹم کے نام پہ دیہی اور شہری کی تقسیم 1973 کے آئین ہی میں کردی گئی تھی جو کہ بقی تینوں صوبوں میں نہیں کی گئی تھی گویا یہاں تو صرف رسمی منظوری ہی کی ضرورت ہے وگرنہ تو بھٹو صاحب شہری صوبے کی بنیاد تو عملاً پہلے ہی رکھ چکے ہیں – اوردیکھا جائے تو سندھ میں شہری صوبے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ یہاں دیہی شہری کوٹےکے نام پہ شہری طبقے کے ساتھ نہایت بدترین تعصب کرتے ہوئے اسے دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور کئی دہائیوں سے صوبہ سندھ میں 90 فیصد سے زائد ملازمتیں سندھی بولنے والوں کے لیئے مخصوص کردی گئی ہیں اور کوئی تحقیقاتی کمیشن یا جے آئی ٹی بننی چاہیئے جو یہ خود دیکھ سکتی ہے کہ شہری سندھ کے کوٹے کی مختص کردہ چالیس فیصد نشستیں بھی زیادہ تر سندھی بولنے والوں‌ ہی کو بانٹی گئی ہیں اور بدترین نسلی تعصب کا یہ گھناؤنا کھیل اب بھی زور و شور سے جاری و ساری ہے اور یہاں بسنے والا اردو اسپیکنگ طبقہ اور دیگر قومیتیں جیسے پنجابی ، پختون ہزارہ وال اور کشمیری و بلوچ وغیرہ کو نہایت نفرت و حقارت سے اور سراسر نظرانداز کیا جارہا ہے –

Advertisements
julia rana solicitors

جہاں تک کراچی کو وفاق کے تحت کرنے کا آپشن ہے تو یہ محض عبوری حل کے طور پہ ہی چل سکے گا اور جلد یا بدیر اسے ترک کرنا پڑے گا کیونکہ اس کا انتظام بھان متی کے کنبے کے مثل ہوجائے گا جس کی وجہ یہ ہوگی کہ پھر اس مد میں لگنے والے الزامات کی نوعیت کثیراللسانی ہوجائے گی اور یہ معاملہ مزید الجھ جائے گا بلکہ بہت خراب ہورہے گا- یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر کسی بھی قدم کے اٹھانے میں جبھی کامیابی ہوگی کہجب سےپہلے تو حکومت اور اداروں‌کی سطح پہ یہ اعتراف کرلیا جانا چاہیئے کہ گزشتہ 2 ڈھائی دہائیوں میں ماضی کا یہ عروس البلاد جو اب بھی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اب کئی اعتبار سے ملک کے ہر بڑے شہر سے پیچھے رہ گیا ہے اوراس درجہ بری حالت کو پہنچ چکا ہے کہ اب مکمل طور پہ مسائلستان بن چکا ہے لہٰذا اسے اب بہرصورت اس ابتری سے نکالا جانا چاہیئے ورنہ اس خرابی کا خمیازہ سارے ملک اور اداروں کو بھگتنا یقینی ہے کیونکہ پوری ملکی معیشت کا بڑی حد تک مدار اس شہر پہ ہے اور ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری کا بھی یہ ایک بڑا مرکز ہے دوسرا اعتراف یہ بھی کرلینا ضروری ہے کہ اس ضمن میں بہتری کے کئی ممکنہ حل تو تلاش کئے بغیر بھی سامنے دھرے پڑے تھے مگر انہیں مجرمانہ طور پہ نظرانداز کئے رکھا گیا اور معاملات کو بگڑتے چلے جانے دیا گیا اور بڑے معاملات کے حل کرنے کے لئے جس جرآت اور عزم کی ضرور ہوتی ہے وہ یکسر ناپید تھا اس لیئے مؤثر حکمت عملی بناپانے کی ہمت ہی موجود نہ تھی- ضروری نہیں کہ یہ بنیادی اعترافات علی اعلان ڈھول بجاکے کیئے جائیں بلکہ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ اب اصلاح احوال کے لئے ایسے مؤثر اور واضح و ٹھوس اقدامات کئے جائیں کے کہ جنکے اندر سے ہی یہ اعتراف جھلک رہا ہو- اگر خلوص دل سے یہ سب اقدامات کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی ایک نئے اور بہتر چہرے کے ساتھ نمودار ہو اور وفاق اور سلامتی کے اداروں کا پشتیبان ثابت ہو – لیکن یہ سب کرنے کے لیئے اب وقت بہت کم رہ گیا ہے اور جو بھی کرنا ہے جلدی کرنا ہوگا ورنہ تو یہاں عالمی بدمعاش ویسا ہی اک نیا رمنا ریس کورس ایونٹ سجانے کی تیاری کررہے ہیں‌کہ جیسا انہوں نے 1971 میں خلیج بنگال کے کنارے سجایا تھا –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply