پُر اثر شخصیت عمر ابن خطاب۔۔محمود چوہدری

مائیکل ہارٹ کی کتاب “دنیا کی سو پُر اثر شخصیات کا تذکرہ تو آ پ کو بہت سے علما  کی تقاریر میں ملے گا ۔ آپ کو یہ بات بھی بڑی محبت و عقیدت سے بتائی جائے گی کہ دنیا کے ایسے افراد جنہوں نے انسانی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے ان عظیم ہستیوں کی  فہرست میں ایک یہودی مصنف مائیکل ہارٹ نے ہمارے نبی مکرم ﷺ کو درجہ بندی میں پہلے نمبر پر رکھا ہے ۔لیکن بہت کم لوگ اس کتاب میں موجود ایک اور حقیقت سے پردہ ہٹاتے ہیں کہ اس کتاب میں دنیائے اسلام کی ایک اوربھی شخصیت شامل کی گئی ہے ۔جس کانام عمر ابن خطاب ؓ ہے ۔ تاریخ عالم کی پُر اثر شخصیات کی لسٹ میں  اس  نے حضرت عمر ؓ کودرجہ بندی میں باون نمبر پر رکھا ہے ۔ مائیکل ہارٹ دی ہنڈرڈ میں لکھتا ہے۔۔حضرت محمدﷺ کے بعد فروغ اسلام میں حضرت عمرؓ کا نام نہایت اہم ہے۔حضرت عمرؓ کی تیز رفتار فتوحات کے بغیر شاید آج اسلام کا پھیلاؤ اس وسیع پیمانے پر ممکن نہ تھا۔۔مزید رقمطراز ہے کہ ۔۔ایسی عظیم وسعت حضرت عمر کی شاندار قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔۔ وہ تمام فتوحات جو عمر کے دورِ خلافت میں واقع ہوئیں اپنے حجم اور پائیدار ی میں ان فتوحات کی نسبت کہیں اہم تھیں جو سیزر یا چارلی میگنی کے زیرِ قیادت ہوئیں ۔

اگر آپ روم کی سیر کریں تودوہزار سال پرانی پُرشکوہ عمارات، سڑکوں کانظام اور اس شہر کا نقشہ ہی دیکھ کر آپ ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں اور آپ کو ذرا برابر بھی شک نہیں گزرتا کہ یہ قوم کبھی دنیا کی سپر پاور رہی ہو گی ۔اسی طرح اگر آپ اہرام مصر دیکھنے جائیں یا یونان کے آثار قدیمہ کا معائنہ کریں تو بھی آپ کولمحہ بھر میں بھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ اس ملک کے لوگوں کےلئے سپر پاور بننا کوئی مشکل کام رہا ہوگاکہ جو قومیں آج سے کئی ہزار سال پہلے ترقی کی اس معراج پر تھیں ان کے لئے دیگر دنیا کو روندنا کوئی مشکل کام نہیں رہا ہوگا ،لیکن اگر آپ سعودی عرب کی سیر کو جائیں اور ذہن سے روحانیت کی چادر اتار کر ایک سیاح کی نظر سے ریگستان اور جھاڑیوں کو دیکھیں تو ایک ہی سوال بار بار آپ کے ذہن پر دستک دیتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے اس خطے میں بکریاںاور اونٹ چرانے والا ایک شخص بغیر کسی منظم فوج، مال و متاع اورجنگی ہتھیاروں کے بائیس لاکھ مربع میل کے  علاقے کو سر نگوں کر گیا اور اس نے فارس اور روم جیسی سلطنتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔

اس عظیم شخصیت نے نہ صرف ان علاقوں کو اپنا مفتوح بنایا بلکہ اتنی  بڑی ریاست کا انتظام و انصرام بھی چلا کر دکھایا اور دنیا کونئے نظام    متعارف کرائے ۔ آ ج کی جدید ترین فلاحی ریاست میں بچوں کی بہبود کا قانون ہو یا معذوروں ، بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظائف مقرر کرنے کا اصول ، بزرگوں کی پنشن کا انتظام ہو یا مجرموں کے لئے جیل کا تصور ہو ، قانون نافذ کرنے کے لئے پولیس کا محکمہ ہو ، لوگوں کو انصاف پہنچانے کے لئے عدالتی نظام کی بنیاد ہو ، یا فوجیوں کے لئے چھاؤنیاں اور ان کی چھٹیوں کا قانون ہو، مساجد میں موذنوں کی تنخواہیں مقر ر کرنے کی بات ہو یاتجارتی قافلوں کی چوکیداری کا نظام ہو ان سب اصولوں کی بنیاد رکھنے والے حکمران کوتاریخ عمر فاروق ؓکے نام سے جانتی ہے۔

اسی طرح طرز حکمرانی میں سادگی اپنانے کا اصو ل ہو تو عمر نے ہی دنیا کو اصول دیا کہ حکمران کی قمیص میں دس پیوند بھی ہوسکتے ہیں وہ فرش خاک پر بھی سو سکتا ہے ۔ پروٹوکول کے خاتمے کی مثالیں دینے والے شاید بھول جاتے ہیں کہ تاریخ میں ایسا حکمران نہیں دیکھا ہوگا جومفتوح شہر میں داخل ہوا تو منظر یہ تھا کہ حکمران خود اونٹ کی نکیل پکڑے ہوا تھا اور اس کا غلام اونٹ پر بیٹھا ہوا تھا کیونکہ اس وقت اونٹ پر بیٹھنے کی باری غلام کی تھی اگر دنیا اس وقت انصاف کو معاشروں کی کامیابی اور ٹیلنٹ کو ہی ترقی کا راز گردانتی ہے تو دیکھنا پڑے گا کہ عدل فاروقی کی اصطلاح کس کے نا م سے منسوب ہوئی اور کس نے یہ اصول مقرر کیا کہ کسی بھی علاقے کا گورنر نامز د کرنے کے لئے اس شخص کی عبادات کی بجائے لوگوں سے معاملات کی جانچ کی جائے ۔ حکمرانوں عہدیداروں کے لئے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا اصول ہو یا ان کے مواخذے کا قانون ہو، ہمیں عمرؓ کی بصیرت کو ہی سلامی دینا ہوگی۔

دنیا اگر آج ابراہیم لنکن کو غلامی کے خاتمے کا کریڈیٹ دینا چاہتی ہے تو ضرور دے لیکن عمر فاروق کا یہ جملہ تاریخ سے نہیں مٹا سکتی ”مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں تم نے انھیں کب سے غلام بنا لیا ؟ ‘ دنیا اگر ریاست کو ہر شہری کی جان مال عزت و آبرو کا ذمہ دار مانتی ہے تو اسے اپنے چارٹر میں عمر کا یہ جملہ شامل کرنا پڑے گا ۔ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی سزاحکمران کو بھگتنا ہو گی۔۔کسی قانون دان کیلئے حضرت عمر ؓ کا یہ سنہری اصول ایک نشان منزل سے کم نہیں کہ بھوک سے مجبور ہو کر چوری کرنیو الے کو سزا نہیں دی جائے گی بلکہ سزا اسے دی جائے گی جس نے اسے اس حالت تک پہنچایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اٹلی میں مجھے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا ۔کانفرنس کا موضوع تھا “فلاحی ریاست “،مارکو کہنے لگا مذہب نے انسان کو دیا کیا ہے سوائے آخرت کی فکر کے ؟یہ ہماری جدید سیکو لر ریاستیں ہی ہیں جوشہریوں کے حقوق دیتی ہیں ۔ میں نے اسے فوراً روکا اس سے پوچھا تمہارے ملک میں دودھ پلاتی ماؤں کو جو میٹرنٹی الاؤنس دیا جاتا ہے ۔وہ کس سال میں شروع ہوا وہ بولا 1998ءمیں ۔ میں نے کہا تمہیں پتہ ہے یہ فلاحی قانون ایک مسلمان حکمران نے آج سے چودہ سو سال پہلے بنا دیا تھا وہ بولا واہ بہت خوب کون ہے وہ عظیم حکمران ؟میں نے کہا دنیا اسے عمر ان خطاب ؓکے نام سے جانتی ہے ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply