• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • باد کوبیدن نامی شہر میں(2،آخری حصّہ)۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

باد کوبیدن نامی شہر میں(2،آخری حصّہ)۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں ان کی آمد کے انتظار کے دوران باکو گائیڈ دیکھتا رہا تھا اور میں نے حسین سے پوچھ کر وہ لے بھی لی تھی چنانچہ فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کام تمام کرنے کے بعد کچھ مقامات دیکھ لیں گے۔ ولید نے کہا ابھی ہمارے پاس وقت ہے تو میں نے کہا چلو اس دوران قدیم شہر دیکھ لیتے ہیں۔ باہر انہیں مخصوص ٹیکسیوں کی ایک قطار تھی۔ پہلی ٹیکسی والے نے کرایہ پانچ منات بتایا یعنی تقریبا” تین سو روپے اور جا کر پرانے شہر کی فصیل کے ایک ٹکڑے میں بنے دروازے کے باہر جا اتارا۔
ساتوشی تو فورا” دروازے کے اندر جا کر موبائل سے تصویریں بنانے لگا، میں نے باہر دروازے پر ولید کی تصویر لی اور ولید نے دوسری تصویریں۔ اندر داخل ہو کر میں نے تجویز کیا کہ ایک گلی میں داخل ہو کر دوسری گلی سے نکل آئیں گے۔ سیاہ پتھر کے فرش کے چوک اور وہاں سے ویسے ہی فرش والی گلی میں داخل ہو گئے۔ بھئی کیا شہر تھا۔ لکڑی یا سفید سیمنٹ ایسے مادے کی بڑی بڑی بالکونیاں۔ چڑھتی اترتی شفاف کریم رنگ کی گلیاں۔ اس شہر میں لوگ رہتے ہیں۔ ہوٹل اور ریستوران بھی ہیں۔ ایک دو بلیاں بھی بیٹھی دکھائی دیں۔ دو چار جوان جوڑے اور ایک آدھ مرد بھی دیکھنے کو ملے مگر یوں لگا جیسے یہ شہر نہیں میوزیم ہے جسے دیکھنے والوں کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہو۔ قدیم شہر تھا۔ نالیاں نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ یقینا” زیر زمین ہونگی۔ کسی گھر سے کوئی پائپ نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ کئی جگہ پر چڑھنے کے لیے چھوٹے یا بڑے زینے یا ڈھلوان۔ ہر جگہ ایسی صاف جسے کہتے ہیں کہ ابلے ہوئے چاول گرا کے کھائے جا سکتے ہوں۔ میں اور ساتوشی دھڑا دھڑ تصویریں بناتے رہے۔ ایک جگہ ایک راہی سے پوچھنا پڑا اور دوسری جگہ سکول یا کالج کی ایک لڑکی سے جو اپنے گھر میں داخل ہوا چاہتی تھی۔ دونوں نے اپنائیت، تعلق اور مہمان پروری کے انداز میں رہنمائی کی۔ پرانے شہر نے آنکھوں کی پتلیوں سے داخل ہو کر دل میں جگہ بنا لی۔ طے کر لیا کہ دوسری بار اسی کے اندر کے کسی ہوٹل میں قیام کروں گا۔ مجھے قدیم شہر بہت اچھے لگتے ہیں۔ اگر رہنے کے بارے میں پوچھا جائے تو میرے انتخاب میں صرف دو شہر تھے اور دونوں اطالیہ کے یعنی فلورنس اور وینس اب باکو بھی ایسا ایک شہر انتخاب بن چکا ہے میرے لیے۔ قدیم شہر سے نکلنے سے پہلے ہم نے چند سیڑھیاں اتر کے واقع ایک اطالیائی نام والے ریستوران میں ظہرانہ تناول کرنے کا طے کیا۔ نیچے اتر کے پہلے ویٹر سے پوچھا کہ تمہارے ہاں پکوان اطالوی ہوتے ہیں۔ اسے روسی نہیں آتی تھی، فورا”، ایک اور لپکا۔ اس نے بتایا کہ مقامی بھی اور اطالوی بھی۔ سیاحوں کا سیزن نہیں تھا چنانچہ ہم تینوں ایک طرف کے آئینوں سے مزین ہال میں بیٹھ گئے۔ میرے ساتھی جلدی میں تھے۔ انہوں نے پیزا کھانے کی خواہش کی، میں نے اور ساتوشی نے مارگریتا اور ولید نے چکن پیزا کی فرمائش کی۔ بیس منٹ بعد بڑی بڑی قابوں میں آٹھ آٹھ ٹکڑوں میں تقسیم شدہ پیزا پہنچ گئے۔ انتہائی لذیذ گرم گرم پیزا اتنا زیادہ تھا کہ پانچویں ٹکڑے کے بعد چھٹا زبردستی کھایا۔ دو دو ٹکڑے بچ رہے جو میں نے پیک کروا لیے۔ اگرچہ بعد میں وہ ٹکڑے میرے لیے عذاب بن گئے تھے کیونکہ ہم رات تک باہر رہے۔ چائے سمیت تین پیزا کی قیمت صرف 23 منات تھی۔ میں نے 25 منات دیے یعنی تقریبا” پندرہ سو پاکستانی روپے۔ زبردست۔
ولید اپنا لیپ ٹاپ ریسیپشن پر رکھ آیا تھا۔ باہر سے ویسی ہی ایک ٹیکسی لی، کہا پہلے ہوٹل میریوت اور پھر بیناگدی ہائی وے جانا ہے۔ ڈرائیور کو لگتا تھا بیناگدی ہائی وے کا معلوم نہیں تھا چنانچہ ولید نے کسی خاتون کو فون کرکے انگریزی میں کہا کہ ڈرائیور کو سمجھا دے۔ اب ڈرائیور کو سمجھ آ گئی کیونکہ خاتون نے کہا تھا کہ ” باکو الیکٹرونکس ” پر لے آؤ۔ یہ جگہ خاصی دور تھی، میں نے ڈرائیور کو بیس منات دیے اور وہ خوش ہو گیا۔ باکو الیکٹرونکس ایک بہت بڑی دکان تھی۔ جس کے اوپر دفاتر واقع تھے۔ کئی منٹ انتظار کرنے کے بعد سیکیورٹی والے نے فون وغیرہ کرکے اوپر جانے دیا۔ وہاں میٹنگ ہوئی، اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو گروپ بحث کر رہا تھا، سبھی لوگ بہت اچھے تھے۔ ولید کا پریزنٹیشن کا انداز مجھے بہت اچھا لگا۔ بعد میں اس کمپنی کے ایک ڈائریکٹر عزیز اور دوسرے کمرشل ڈائریکٹر رینات نے ہمیں دکان گھمائی اور اپنی ایک کار میں رخصت کیا۔ انہوں نے ساتوشی کے استفسار پر مشورہ دیا تھا کہ دو شاپنگ مال میں جا کر مارکیٹ دیکھ لیں۔
ان کی گاڑی ہمیں ” گنجلک مال ” پر اتار گئی تھی۔ یہ بہت بڑا اور بہت جدید شاپنگ مال ہے۔ اس میں گھومے۔ اس کے اندر اچھے خاصے لوگ تھے۔ باہر نکلے تو واحد فقیر عورت دیکھی جو رو رو کر مانگ رہی تھی۔ میں نے جیب میں موجود سکے اسے دے دیے۔ ٹیکسی پکڑ کر 28 مال نام کے شاپنگ سنٹر پہنچے۔ وہاں میں نے کوشش کی کہ پیک کروائے پیزا کے ٹکڑے کسی ورکر کو دے دوں، ایک کو کہا اس نے نہ لیا تو میں نے اسے ایک کاونٹر پر چھوڑ دیا۔ باہر نکلے تو میرے ساتھیوں نے کہا ” فائر فلیم ” دیکھنے چلیں۔ میں یاندر دگ نام کی جگہ سے متعلق ٹریول گائیڈ میں دیکھ چکا تھا۔ ایک ڈرائیور ہمیں لے جانے پر تیار ہو گیا۔ اب جو گاڑی چلنا شروع ہوئی، شہر سے باہر نکلتے بھی آدھ گھنٹہ لگ گیا۔ اوپر سے ڈرائیور مسلسل باتیں کر رہا تھا۔ راستے میں ولید نے کہا کہا کہ لوٹ چلتے ہیں مگر میں نے انکار کر دیا کہ اب اتنی دور آ گئے ہیں تو دیکھ کر ہی جاتے ہیں۔
آذر بائیجان میں ہزاروں سالوں سے جگہ جگہ پر قدرتی آگ بھڑکتی رہی ہے۔ اسی لیے اسے “آگ کی سرزمین” یعنی آذربائیجان نام دیا گیا تھا اور بعد میں یہ آتش پرستوں کے لیے مقدس مقام رہا۔ ایسی ہی ایک آگ باکو سے 25 کلومیٹر باہر، ایک چرواہے کے جلتی سگریٹ پھینکنے سے بھڑک اٹھی تھی۔ 1950 سے اب تک جل رہی ہے جسے بارش اور ہوا نہیں بجھا پاتے۔ چنانچہ یہ ایک قابل دید مقام شمار ہوتا ہے۔ مسیر نام کے اس ادھیڑ عمر ڈرائیور نے ہماری رہنمائی کی۔ ڈرائیور کو ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ سیاحوں کو لے کر آتے ہیں۔ ہم نے دو دو منات کے ٹکٹ لیے اور آگ دیکھی بھی اور سینکی بھی۔ یہاں پاکستانی پنجابی بولنے والے تین نوجوان بھی آپس میں ٹخ ٹلیاں کرتے پائے گئے۔ آگ کی حرارت سے راستے بھر کی تکان اور کوفت دور ہو گئی۔
میں راستے میں چائے کا ذکر کر چکا تھا۔ آذربائیجان میں چائے اگائی اور بنائی جاتی ہے جو “آذر چائی” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ڈرائیور مسیر کہنے لگا کہ میں آپ کو ایک خاص دکان پر لے جاؤں گا، جہاں سے آپ جو چیز چاہیں مناسب قیمت پر اور معیاری خرید سکتے ہیں۔ میں نے ساتھیوں کی تھکاوٹ کے سبب کہا، ” نہیں کل لے لیں گے”۔ مسیر سمجھ گیا اور بولا،” دنیا بھر میں اگر ٹیکسی والا کوئی پیشکش کرے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ کچھ اینٹھنے کے چکر میں ہے۔ مگر یقین کریں، آپ میرے مہمان ہیں، میں آپ کی ہر طرح سے مدد کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ آپ کو معلومات نہیں ہیں”۔ میں نے اسے تسلی دی کہ میں اسے غلط نہیں سمجھ رہا، وہ واقعی سوویت زمانے کا ایک بے غرض انسان دوست شخص تھا۔ جلتی پہاڑی یعنی یاندر دگ سے فارغ ہو کر ساتھیوں نے “فائر فلیم” دیکھنے کی خواہش کی جس پر مسیر نے کہا، آپ کا مطلب ہے “فیئر مونٹ”۔ جب میں نے یاندر دگ جانے کو کہا تھا تو یہ دونوں اسے فائر فلیم ہی سمجھے تھے۔ فیر مونٹ نام کے اس بلند، مہنگے، جدید اور منفرد طرز کی حامل عمارت والے ہوٹل کو ہی فائر فلیم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ہر منزل پر قمقموں کی مسلسل قطار بار بار رنگ تبدیل کرتی ہے۔ فائر فلیم کی جانب جاتے ہوئے مسیر کی مجوزہ دکان بھی راستے میں تھی جہاں سے میرے علاوہ باقی دونوں ساتھوین نے بھی چائے کی پتی بطور سوغات خرید کی۔ فائر فلیم کے نیچے تصاویر بنانے کے بعد ہم ہوٹل کو چل دیے۔ مسیر نے کہا، کل آپ نے جہاں جانا ہو میں اپ کو لے جاؤں گا۔ ولید کے کہنے پر میں نے اسے کل صبح ساڑھے نو بجے ہوٹل پہنچنے کو کہا۔ میریت کے سامنے اتر کر اسے میں نے چالیس منات دیے، اس نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور کل آنے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ لابی میں جا کر میں نے ساتھیوں سے کہا کہ ایک گھنٹہ آرام کر لیں، پھر یہیں ملتے ہیں۔ کل میں نے قریب ہی ” تندیر ” ( تندور ) نام کا ایک چھوٹا سا ریستوران دیکھا ہے، وہاں ہم روایتی آذری کھانا کھائیں گے۔
جب میں ایک گھنٹے بعد وہاں پہنچا تو صرف ولید ملا۔ ساتوشی اپنی بے تحاشا ای میلز کی وجہ سے نہیں آیا تھا۔ میں اور ولید تندیر پہنچے تو وہ بند ہو چکا تھا۔ کرسیاں الٹی کرکے میزوں پر رکھی جا چکی تھیں۔ دروازہ البتہ کھلا تھا۔ ایک آذری نوجوان موجود تھا جو روسی زبان سے نابلد ہونے کے سبب میرے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہا کہ نزدیک کوئی اور ریستوران ہو تو بتاؤ۔ ہم دونوں کباب ہاؤس نام کے ایک اور ریستوران میں گھس گئے اور لکڑی کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے۔ خاصے لوگ تھے جن یں عرب اور روسی بھی تھے۔ ہم سڑک کی جانب شیشوں کے پاس چار نشستوں والی ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ یہ ترک ریستوران تھا۔ آرڈر لے کر بیرا پہلے کٹے ہوئے ٹماٹر، کھیرے، سلاد کے پتے اور ہرا دھنیا لے کر آیا پھر لکڑی کے ایک پھٹے پر بڑی سی تلوں والی تندوری روٹی جو اندر سے کئی مقام پر حدت سے پھولی ہوئی تھی۔ ابھی ہم روٹی کے لقمے ٹماٹر سے کھا رہے تھے کہ وہ ایک اور لکڑی کی طشت پر میرے لیے لیمب تکے، چاول اور مختلف سلاد اور ولید کے لیے اسی طرح چکن تکے لے آیا۔ مناسب مقدار میں اس قدر لذیذ اور ہلکا پھلکا کھانا ہم چند منٹوں میں چٹ کر گئے۔ چائے کا کہہ کر میں ہاتھ دھونے نیچے گیا تو ایک شخص جھک کر سلام کرتے ہوئے بولا “رجب”۔ میں نے روسی میں ہیلو ہائی کرنے کی کوشش کی تو اس نے انگریزی میں کہا کہ اسے روسی زبان نہیں اتی۔ وہ ریستوران کا ترک مالک تھا جو بہت اچھے اخلاق کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ چائے سمیت کھانا محض 27 منات کا تھا۔ میرا اب بھی وہاں کھانا کھانے کو جی کر رہا ہے۔ جب جانے لگے تو میں نے اسے خدا حافظ کہا وہ “مجاہد خدا حافظ” کہنے کے لیے باہر تک آیا۔ اس سے پہلے وہ بیٹھی ہوئی ایک حور سے بات کر رہا تھا۔ جو بھی تھی فی الواقعی بہت حسین تھی۔ رجب نے پیچھے سے کہا، میں آپ کا پھر انتظار کروں گا۔ میں نے ولید سے کیا، مجاہد تو ایسے کہہ رہا تھا جیسے بچپن میں اکٹھے کھیلے ہوں ہم۔ ولید کا گھومنے کو جی تھا لیکن میں نے کہا، آرام کرتے ہیں بھائی۔
چونکہ ولید اور ساتوشی نے مجھے سوا نو بجے صبح میریٹ لابی میں پہنچنے کی درخواست کی تھی اس لیے اگرچہ جلد بجلی بجھا دی مگر تین بار آنکھ کھلی کہ کہیں تاخیر نہ ہو جائے۔ وعدہ کرکے نہ پورا کرنا میرے دستور میں نہیں ہے۔ سوا نو بجے پہنچ گیا۔ ولید ابھی ناشتہ کر رہا تھا۔ ساڑھے نو بجے مسیر پہنچ گیا تھا۔ آج دھند بہت زیادہ تھی۔ گذری کل ہم نے کئی بار بحیرہ کیسپین کو سڑک سے دیکھا تھا۔ ارادہ تھا کہ آج دیکھیں گے مگر دھند کے باعث ممکن نہیں رہا تھا۔ ساتوشی کی ہدایت پر مسیر کو “صدرک بازار” چلنے کو کہا۔ یہ شہر سے بہت باہر وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھوک مال کی بہت بڑی منڈی ہے۔ مسیر نے مدد کی یوں ہم جلد ان دکانوں تک پہنچ گئے جو الیکٹرونک ایکسیسریز کا تھوک بزنس کرتی ہیں۔ جس شخص سے معاملات طے کرنے کو مناسب جانا اس نے اپنا نام “دومود” بتایا چونکہ ایران، تاجکستان اور سلطنت ایران کی سابق باجگزار آذر بائیجان میں الف کو واؤ بولا جاتا ہے تو اس کا مطلب تھا “داماد”۔ میں نے پوچھا، وہی جو کسی کی بیٹی کا شوہر ہوتا ہے تو بولا جی میرا پورا نام دومود فتح الائیو ہے۔ میں نے کہا کہ میں تمہیں فتح الائیو ہی بلاؤں گا۔ بات چیت میں اتنی دیر ہو گئی کہ مزید کہیں جانے کا وقت نہیں تھا۔ مسیر کو ہوٹل میریٹ چلنے کو کہا۔ وہاں پہنچ کر اسے کہا کہ وہ ایک گھنٹے بعد پہنچ جائے اور ہمیں ایرپورٹ لے جائے۔
میں ہوٹل سے نکلتے ہوئے “چیک آؤٹ ” کر آیا تھا، اگرچہ بیگ اپنے ہوٹل کی ریسیپشن پر رہنے دیا تھا کہ شاید بارہ بجے کے بعد آؤں۔ ولید مجھے اپنے ساتھ پندھرویں فلور پر اپنے کمرے میں لے گیا۔ سامنے نیچے تک شفاف شیشہ ہی بطور دیوار تھا۔ مجھے اونچائی سے خوف آتا ہے۔ میں کچھ دور کھڑے ہو کر نظارہ کر رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اگر کوئی اتفاقا” شیشے سے ٹکرا جائے تو، ولید سے کہا تو وہ بولا ، سر یہ بہت مضبوط شیشہ ہے۔ ظاہر ہے 27000 ہزار روپے رات لے کر مہمان کو اتفاقی طور پر مرنے سے تو بچائیں گے ہی۔
ان دونوں کی پرواز سوا تین بجے سہ پہر تھی اور میری ساڑھے پانچ بجے شام۔ میں نے سوچا تھا کہ انہیں رخصت کرکے کچھ دیر مزید شہر گھوموں گا مگر دھند نے ایسا نہ کرنے دیا۔ ایر پورٹ پر پہنچ گئے تو دسیوں قطریوں کو اپنے جبوں، چپلوں اور پگڑیوں کے ساتھ ہاتھوں پر باز بٹھائے گھومتے پایا۔ میرے دونوں ساتھی چلے گئے۔ میں بہت دیر ان لوگوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا یہاں اس نایاب پرندے کو اس طرح سرعام لے جائے جانے کی اجازت ہے کیا؟ جب میں بورڈنگ کارڈ لے رہا تھا تو قطر ایر لائن کے کاؤنٹر کے سامنے کھڑا شیخ اپنے فون پر کسی کو ایسے ڈانٹ رہا تھا جیسے وہ قطر میں ہی کھڑا ہو۔ ڈیپارچر لاؤنج میں بہت وقت بسر کرنا پڑا۔ ان بدووں کے علاوہ ایرپورٹ کے مختلف شعبوں کی طناز ، خوش شکل اور خوش بدن لڑکیوں کو بھی مختلف طرح کی یونیفارموں میں ملبوس سنجیدہ اور پرتدبر انداز میں گھومتے پھرتے پایا۔ دختران آذری فی الواقعی کوہ قاف کی پریوں کی مانند تھیں۔ حیف کہ آتش جوان نہیں رہا اوپر سے حاجی بھی ہو چکا۔
واپسی پر ایس سیون ایر لائن کا ہی طیارہ تھا اور اس بار میرے پہلو میں شہر تمبوو کی بہت ہی منحنی لڑکی تھی جو آرکیٹیکچر کی طالبہ تھی۔ سنا ہے تمبوو میں لڑکے لڑکیوں کا تناسب 3: 9 کا ہے یعنی لڑکیاں دوگنی زیادہ۔ ہلکی ہلکی بو آ رہی تھی جو بہت ناگوار نہ سہی مگر خوشگوار بھی نہیں تھی۔ بڑی سونگھ کے بعد معلوم ہوا کہ تمبوو کی لڑکیاں نہانے سے بدکتی ہونگی۔ یہ حسینہ کے بدن پر جمے پسینے کی بو تھی۔ شکر ہے زیادہ نہیں تھی۔ سفر مناسب رہا مگر طیارہ پتہ نہیں کہاں اتار دیا۔ اس کے باہر آ کر کھڑی بس میں سوار ہو کر سفر کرتے ہوئے ایسے لگا جیسے شاہدرہ سے گنجو متا جا رہے ہوں۔ لوٹ تو آیا لیکن جاؤں گا ضرور اور ہو سکا تو بار بار۔ باکو باکو ہے بھئی۔
پس نوشت: باز فروشی کے ماہر دوست امتیاز چانڈیو نے بتایا کہ قطری پرندے خرید کر نہیں بلکہ اپنے لائسنس یافتہ پرندے لے کر آذربائیجان میں واپس جاتے ہوئے ہوبارڈ بسٹرز یعنی تلور کا شکار کرنے آتے ہیں۔ ظالم قطری پرندوں کو گھر جاتے ہوئے بھی مار دیتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply