• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ریکس ٹیلرسن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پرچھائیاں۔ظفر الاسلام سیفی

ریکس ٹیلرسن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پرچھائیاں۔ظفر الاسلام سیفی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک انسانی مضحکہ ہی نہیں اعصابی معمہ بھی ہیں،نفسیاتی نشیب وفراز کے باوصف یہ موصوف اخلاق وکردار سے شناسائی رکھتے ہیں نہ وہ اپنے ایسے کسی تعارف پر خوش ہوتے ہیں، وہ کیا ہیں ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا،عالمی منظرنامہ ہی نہیں خود امریکی عوام بھی اپنے سیاسی چہرے کی عالمی قیادت پر احساس ندامت سے دوچار ہیں،بلاشبہ امریکہ عالمی فورم پر بہت سے شعبوں میں دنیا کی قیادت کررہا ہے یہ مقدمہ امریکی حریف وحلیف ہر دو کو بادل خواستہ یا نخواستہ تسلیم ہے مگر اسی سوال کو جب دوسرا پیرایہ بیاں یوں دیا جائے کہ ٹرمپ اقوام عالم کے ہمہ جہتی قائد ہیں تو زیرلب مسکان کے ساتھ شاید یہ بجائے خود امریکی عوام کے لیے بھی باعث تامل ہو ۔

گزشتہ دنوں موصوف نے جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنے پہلے خطاب میں جن ارشادات زریں سے ایشین پبلک کو نوازا وہ یک رخی دلچسپی کے باوجود نہایت سنگین ہیں،انہوں نے فرمایا ”امریکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا ،پاکستان نے اپنی روش نہ بدلی تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں “ فورٹ میر آر لنگٹن میں خطاب کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ۔۔
”بیس غیرملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں کام کر رہی ہیں ،پاکستانی عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت نقصان اٹھایا جس کی قربانیوں کو کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا “ انہوں نے مزید کہا کہ ”پاکستان اربوں ڈالر امداد ہم سے لیتا ہے اور ہمارے دشمن دہشت گردوں کو پناہ بھی دیتا ہے“۔

دوسری طرف امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں ٹیکسس سے تعلق رکھنے والے دہشت گردی سے متعلقہ ذیلی کمیٹی کے صدر رکن ٹینڈپونے ایک بل پیش کیاجس میں ایوان سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کو دہشتگردوں کا کفیل ملک قرار دیا جائے ،اسی طرح حال ہی میں ایک آن لائن پٹیشن کو جس میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا کو وائٹ ہاؤس نے مبینہ طور پر فیک اور جعلی ہونے کی بنیاد پر بند کیا ،

ان جملہ سازشی تحریکوں   کے تناظر میں بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ دھرتی ماں کے باعزت چہرے کو کس طرح خود غرضانہ نظر تنقید رکھے داغدار کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف عمل ہے، خیال کیا جا رہا تھا کہ اس نوع کا احمقانہ کردار صرف ٹرمپ ہی کا ہے مگر امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور وزیر خارجہ ٹیلرسن سمیت متعدد کیبنٹ ممبران کی طرف سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی حماقت کے ان کرداروں میں سنگینی کا عنصر شامل کر رہی ہے ،سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کے اجلاس میں چیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ کے بیان کہ ”اس بات میں مجھے کوئی شک نہیں کہ آئی ایس آئی کے دہشت گردوں سے تعلقات ہیں“ کو اسی تناظرمیں پڑھا جائے تو امریکی عزائم کے مکروہ چہرے سے پردہ چاک ہو جاتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن سے خطے کی عسکری وسیاسی صورتحال پر سنجیدہ نظر کی توقع رکھی جا رہی تھی مگر اپنے سابقہ سطحی بیانات کی طرح بگرام ایئر بیس پر انہوں نے پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا وہ خطے کا غیر واقعی نقشہ ہی نہیں قربانیوں کی زبردست ناقدری بھی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ”پاکستان سے ہمارا رشتہ شرائط پر مبنی ہو گا یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جس سے ہماری نظر میں وہ افغانستان میں امن عمل کی بحالی کے لیے معاون ثابت ہو،یہ نہ صرف افغانستان کے لیے ضروری ہے بلکہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بھی ضروری ہے “۔

حالیہ دورہ پاکستان میں ٹیلرسن نے پینترہ بدلتے ہوئے پاکستان کو امریکہ اور خطے کے امن کے لیے اہم قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ امریکہ وپاکستان کے مشترکہ سکیورٹی تعلقات اہمیت کے حامل ہیں نیز یہ کہ انہوں نے یہ دورہ پاکستان سے اعتماد کی بحالی کے عنوان پر کیا ہے۔انہوں نے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف سمیت متعدد سول وعسکری حکام سے ملاقات کو مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات کے لیے اہم قرار دیا مگر اگلے ہی دن جب وہ دلی ائیر پورٹ پہنچے تو ان کے رنگ وآہنگ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پرچھائیاں نظر آنے لگیں،وہ یاد ہی نہ رکھ پائے کہ پاکستان میں انہوں نے کس کس کو کیا کیا کہا،بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کے ساتھ ان کی مشترکہ پریس کانفرنس تضادات کا عجوبہ تھی ،کیا یونائیٹد سٹیٹ کے وزیر خارجہ اس قدر کم فہم وتنگ نظر واقع ہو سکتے ہیں؟

اس کا جواب ان کے دلی میں بیتے لمحات ببانگ دھل دے رہے ہیں،سوال مگر ہماری عسکری وسیاسی قیادت کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل کا ہے،بلاشبہ ڈومور کے جواب میں نومور کہہ کر منہ پر جرات رندانہ کا مظاہرہ کردیا گیا مگر کیا مستقبل میں اسی جرات رندانہ پر عمل رہے گا یا حکمتیں آڑے آئیں گی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے،ہم ایسے کسی موقع پر آل پارٹیز کانفرنس کر کے دنیا کو آنکھیں تو دکھا دیتے ہیں مگر جب وقت عمل آتا ہے تو خود ہماری ہی ٹانگیں کا پنے لگتی ہیں۔

میری نظر میں خطے میں چائنہ جیسی ابھرتی ایک دوسری قوت کی موجودگی میں امریکہ سے آرزؤوں کا قیام زبردست بے عقلی ہے،ہمیں امریکی انحصار کو ختم کرنا ہوگا،ایک نیوکلئیر سٹیٹ کو اگر واقعتاً  کسی سہارے کی ضرورت ہے تو وہ چائنہ بہتر دے سکتا ہے چائنہ کے ساتھ باہمی تعاون کی درخشاں تاریخ رکھنے کے باوجود امریکی انحصار ہماری تھنک ٹینکس کے طرز تفکر وصاحبان اقتدار کی قوت فیصلہ پر سوالیہ نشان ہے،امریکہ کے ساتھ روایتی دوغلی منافقانہ دوستی کو ختم کرکے خطے کے دوسرے ممالک سے وسیع تر تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے، روس سے تعلقات کو اہمیت وسنجیدگی دی جائے،ہیروشیما وناگاساکی کا غم بھلا کر اگر جاپان وامریکہ ایک پیج پر آسکتے ہیں تو ہمیں روس کے ساتھ تعلق کا نیا خط کھینچنے میں رکاوٹ کیا ہے؟

اسلامی ممالک کو وسیع تر اتحاد کے بندھن میں لایا جائے ،ملک میں امریکی ہمدردی کے جراثیم کو صاف کیا جائے اور پوری شرح صدر سے اپنی خارجہ پالیسی اپنی ترجیحات وضروریات کو سامنے رکھ کر طے کی جائے۔امریکہ کے لیے بہتر ودانشمندانہ فیصلہ یہی بہتر ہے کہ وہ خطے میں کسی نئے دشمن کو نہ پیدا ہونے دے،پاکستان کا مسئلہ عراق وافغانستان سے مختلف ہے،یہاں چنے گلے ہوئے ملیں گے نہ زمین شاداب،ایک نیوکلیر سٹیٹ سے الجھ کر محترم المقام ڈونلڈ ٹرمپ اپنی حماقت کا ذرا ارتکاب کرکے تو دیکھیں،عین انتخابات میں موصوف چند ماہ میں پاکستان کو مٹا کر خطے کا نقشہ تبدیل کرنے کے ارادے  کا بارہا اظہار کرتے رہے مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد شاید انہیں اس مزاح سے آگاہ کرکے خواب سے بیدار کر دیا گیا۔

پاکستانی قوم ایک بے عقل لیڈر سے ڈرنے والی نہیں،دنیا ٹرمپ کے احمقانہ کردار کو جانتی ہے،ایران،چین،روس اور افغانی طالبان سے لڑنے والی مٹھی بھر امریکی بے یار ومددگار فوج پاکستان کو اپنا دشمن بنانے کی لاریب کہ سکت نہیں رکھتی،ٹیلرسن وٹرمپ کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ مشکلات پاکستان کے لیے نہیں خود ان کے لیے کھڑی ہوسکتی ہیں ،جو لوگ ٹرمپ اور روس کے باہمی تعلقات کی بات کرتے ہیں وہ خوابوں کی دنیا کے اسیر ہیں،ان کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ شخصی تعلقات تاریخ پر اثر انداز نہیں ہوتے،امریکہ جب بھی افغانستان میں کسی فیصلہ کن موڑ پر پہنچے گا روس کو مخالف سمت پائے گا،

Advertisements
julia rana solicitors london

معاشی جنگ میں چائنہ سے امریکہ کی خیر کی توقع ٹرمپانہ واحمقانہ سوچ تو ہوسکتی ہے حکیمانہ ہر گز نہیں،خطے کے سرحدی  محل وقوع کے تناظر میں پاکستان سے مثبت تعلقات بجائے خود امریکہ کے لیے مفید ہیں،پاکستان سالہا سال سے اس جنگ سے نبردآزما رہ کر بہت کچھ سیکھ چکا ہے مزید سبق سکھانے سے فرق پڑے  گا نہ یہ ممکن ہے۔ اس لیے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن،وزیر دفاع اور پینا گون کو چاہیے کہ وہ ٹرمپ کی پرچھائیوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں وگرنہ کسی کو سبق سکھانے سے زیادہ آپ کو خود ہی سبق سیکھنا پڑ  جائے گا۔

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply