روس اسلام مخالف ہے یا مسلمان مخالف؟-عزیراحمد

عالمی منظرنامے پر آؤٹ ڈیٹیڈ اسکرپٹ پھر سے دہرائی گئی ہے، مابعد نائن الیون پوری مسلم امہ ایک عجیب مخمصے کا شکار ہوچکی تھی، جس چیز کی مصداقیت اور اصالت کا سرے سے انکار کرنا تھا اس کے لئے دفاعی پوزیشن اختیار کرکے اپنے ہی لوگوں کو مطعون کیا گیا تھا، مابعد نائن الیون کا پورا اسلامی لٹریچر جہاد اور امن عالم، امن عالم اور دہشت گردی، دہشت گردی اور اسلام جیسے موضوعات سے بھر دیا گیا، سمپوزیم، سیمینار، اور عالمی کانفرنسیں سب انہیں اصطلاحات کے ارد گرد گھومتی تھیں، اکیڈمکس میں ان موضوعات پر ریسرچ کی بہتات ہوگئی تھی، مسلم حکومتیں بھی پلٹ کر مغرب سے سوال سے پوچھنے کے بجائے اس کی ہاں میں ہاں ملا کر انسداد کی راہیں تلاش کر رہی تھیں، ان سب سے مسلمانوں میں ان اصطلاحات کے تئیں بیداری ضرور آئی، لیکن غیر مسلموں پر اس کا کتنا اثر ہوا اس کے لئے کوئی ڈیٹا یا ریسرچ نہیں ہے۔

ان سب کے بیچ مسلم انٹلکچؤلز نے اس نقطے پر دھیان دینے کی بہت کم ہی زحمت گوارا کی کہ یہ مکمل ایک نیریٹو کی جنگ تھی، عالم اسلام کو مطعون کرنے کے لئے میڈیا وار، اور اس کے ذریعہ مسلم ملکوں کو برباد کرنے کی ایک صیہونی سازش، مسلم مثقفین بیرونی قبضے کے خلاف اہالیان بلد کی جد وجہد، اور انجان لوگوں کی جماعت جن کا دائرہ کار کوئی خاص علاقہ نہ ہوکر پوری دنیا میں عشوائی طرز پر حملہ کرنا ہو کے درمیان فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھ سکے، وہ یہ سوال مغرب سے پوچھ ہی نہیں سکے کہ جس جماعت کو آپ مسلمان کہہ رہے ہیں اور جس جماعت کی بنیاد پر آپ مسلمانوں کو مطعون کر رہے ہیں وہ کہیں اپ ہی لوگوں نے تو نہیں تخلیق کی ہے؟

آپ یہاں کہہ سکتے ہیں کہ میں شاید کانسپیریسی تھیوری سے متاثر ہوں، اس لئے اپنی قوم کی غلطیوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے غیروں کو ٹھہرا رہا ہوں، تو آپ یقینا ًصحیح کہہ رہے ہوتے اگر معاملات اب اس قدر واضح نہ ہوچکے ہوتے، یہ صحیح ہے کہ کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو خلافت یا اسلامی ریاست و حکومت کے قیام اور اس کے لئے جدوجہد سے ضرور جوڑا، اور اس کے جواز کے لئے اپنی فہم کے اعتبار سے نصوص کو انٹرپریٹ بھی کیا، لیکن یقین کریں کہ یہ سارے واقعات کا تسلسل محض ان کے خیالات کی ہائی جیکنگ تھی، مغرب نے ان کے افکار و نظریات کو قربانی کا بکرا بنا کر ایک متوازی اسلام کے دعویداروں کا گروہ کھڑا کیا، انہیں مالی سپورٹ فراہم کیا، انہیں اعلی کوالٹی کے ہتھیار سپلائی کئے، اور پھر ان کے ذریعہ مسلم علاقوں کو تاخت و تاراج کیا، مغرب بالعموم اور امریکہ بالخصوص کا جھوٹ عراق میں پکڑا گیا، اف-غانستان میں پکڑا گیا، اور پھر سب سے بڑھ کر فلسطین میں، ان کے اصول و ضوابط، ان کے انسانیت کے اعلی اقدار سب اس ملک میں آ کر دھڑام سے گر گئے۔

آپ دیکھیے کہ کس طرح اسلام اور دہشت گردی کی یہ خبریں عالمی میڈیا کے فرنٹ پیج اور ڈیلی بلیٹن میں سب سے ٹاپ پر ہوا کرتی تھیں، پھر 2014-15 آتے آتے سب منظر عام سے غائب ہوتے چلے گئے، کیونکہ لڑائی کے اصول اور ضابطے بدل گئے، زمین کے بجائے سب کچھ ورچؤل ہونے لگا، ہتھیاروں سے ہونے والی آمدنی ثانوی بن گئی، اس کے بدلے میں معاش کے دیگر ذرائع سامنے آ گئے، محض پٹرول بھی انرجی کا واحد سورس نہیں بچا، اس لئے سارے ایکٹر یکے بعد دیگرے پردے کے پیچھے چلے گئے، اب اچانک سے اس عفریت کو پھر کیوں منظر عام پر لایا گیا؟ اس سوال کا جواب حالیہ روس یوکرین تنازعہ اور فلسطین اسرائیل تنازع  میں ہی پنہاں ہے، ایک تیر سے کئی شکار کئے گئے، گزشتہ کچھ عرصے میں روس میں اسلام میں دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، پھر مشرق وسطی کے ممالک نے بھی طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے روس سے تعلقات بہتر کئے، یوکرین جنگ میں مغربی میڈیا نے عالمی فورم پر روس کے خلاف محاذ چھیڑا، بدلے میں روس نے فلسطینی مزاحمت کاروں کو سپورٹ کرنے کا اعلان کردیا، اور کہا کہ انہیں احتلال کے خلاف مزاحمت کا مکمل حق ہے، یہاں تک کہ شروعاتی دنوں میں پوتن کے بہت ہی قریبی مانے جانے والے رمضان قدیروف نے بیان دیا کہ ان کے فوجی احتلال کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہیں، اور ابھی خبریں یہ بھی آئی تھیں کہ پورا فل-سطینی مزاحمتی گروپ ماسکو سے آپریٹ کرنے والا ہے۔

عالمی پیمانے پر اسرائیل کی شناخت ایک ظالم، خونخوار اور آدم خور اسٹیٹ کی ہوچکی ہے، جس کے یہاں نہ جنگ کے اصول و ضوابط ہیں، نہ ہی اس کے لئے عالمی جنگی اقدار معنی رکھتے ہیں، اسرائیل اپنے وجود کی رہی سہی اخلاقی حیثیت بھی کھوتا جارہا ہے، خود مغربی عوام میں اس سے ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد میں گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے، اور اسرائیل کے ساتھ مغربی حکومتیں بھی انسانی حقوق کا چمپئن ہونے کا دعوی کھو چکی ہیں، سو اس عفریت کو دوبارہ زندہ کرنے کا مقصد اپنی کھوئی ہوئی شرعیت کو دوبارہ حاصل کرنا اور اسلام کو بطور ایک عالمی خطرہ دوبارہ پیش کرنا ہے کہ دیکھو جن کی حمایت میں تم انگڑائیاں لے رہے ہو، اٹھ کھڑے ہونے کے لئے تیار ہو وہ کیسے لوگ ہیں، یہی سلوک ایک دن تمہارے ساتھ بھی کر سکتے ہیں، اس لئے آج ان کے ساتھ ہونے والا ہر سلوک روا اور جائز ہے۔

یہ اتنا آؤٹ ڈیٹڈ ہوچکا ہے کہ انہیں کے اخباروں کے کمنٹ سیکشن میں جا کر لوگ لکھ رہے ہیں کہ بات سمجھ میں نہیں آرہی، کچھ نیا لے کر آؤ، پوتن نے کئی محاذوں پر مسلم ایشوز کی حمایت کی ہے، پھر اگر وہ حقیقی معنوں میں اسلام کے تئیں فکرمند لوگ ہی ہیں تو اسرائیل کو چھوڑ کر وہاں کیوں حملہ کر رہے ہیں؟ فی الحال روس اسرائیل سے بڑھ کر کیسے اسلام یا مسلمان مخالف ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

واضح رہے کہ میں روس کا حمایتی نہیں ہوں، لال سلام نے کچھ کم نقصان نہیں پہونچایا، لیکن مغرب کا یہ حملہ سیدھے اسلام پر ہے، اس کی تعلیمات کو مطعون کرنے کی سازش ہے، مغرب نے ہی اپنے لوگوں کی جدوجہد کو لیگل ثابت کرنے کے لئے جن اصطلاحات کا استعمال کیا، مسلمانوں کے معاملے میں ان تمام اصطلاحات کو بلر کرکے دہشت گردی میں ضم کردیا، اس کے ہمنواؤں نے جب جدوجہد کی تو آزادی کی جدوجہد قرار پایا، جیسے سوڈان میں ہوا، جیسے لبنان میں ہوا، اور جب مسلمانوں نے محض ثقافتی نشأۃ ثانیہ کی بھی بات کی تو مطعون ٹھہرے، اس لئے اب کی بار پھر سے بیک فٹ پر آنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ “ہم” نہیں ہیں، اور نہ ہی ہم “وہ” ہیں، اسلام کو بھلا ان سے کیا نسبت ہوسکتی ہے؟ وہ تو محض اسلام کو بدنام کرنے کے لئے مغرب کی تخلیق کردہ ایک ٹول ہیں بس۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply