کتاب الطواسین/ عاصم کلیار

برسوں پہلے محمد کاظم صاحب کی کتاب میں قصیدہ بردہ شریف کے بارے میں ایک مضمون پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ بردہ کا مطلب چادر ہے۔اس قصیدے کے پس منظر کو جاننے کے بعد میں اشکبار سا کئی دن اس چادر کی پناہ میں رہا۔
وقت کا دریا کون روک پایا ہے۔
برسوں بعد عقیدے اور عقیدت کے کاروبارِ روگ کو ممتاز مفتی کے حوالے سے جاننے میں مجھے کئی پُر پیچ راستوں اور اَن دیکھی منزلوں سے گزرنا پڑا۔میں اس دشت ِسوس کا مسافر نہ تھا۔سو حاصل سفر اور من کی مراد پانے سے پہلے ہی کسی کھائی میں جا گرا۔جہاں زندگی روح اور انتظار کے کرب میں مبتلا کسی اور چادر کی پناہ چاہتی تھی۔

دستِ غیب نے مدد کی اور ایک مرد کامل نے کہا عقل اور کتاب کی سیڑھی کے سہارے زندگی کے سفر میں بہت کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔باطن پر لگے داغ دھوتے دھوتے عمر بیت گئی وہ مٹنے کی بجاۓ مزید چمکدار ہوۓ جاتے ہیں۔ان داغوں کی چمک سے گھبرا کر کبھی کتاب میں پناہ ڈھونڈتا ہوں اور کبھی صاحبان ِعلم کے در پر دستک دیتا ہوں۔
وقت کا دریا چٹانوں سے پٹختا ہوا مجھے اپنے ساتھ بہاتا رہا۔

کئی برس پہلے دنیا زاد کے کسی شمارے میں کتاب الطواسین کا ترجمہ پڑھتے ہوۓ روح کے اضطراب نے سکوت اختیار کر لیا تھا۔
کتاب الطواسین کے مترجم کی علمیت سے متاثر ہو کر اسی شام امریکہ میں بسنے والے اپنے اَن دیکھے کرم فرما ڈاکٹر داؤد رہبر کو فون کیا۔
ہیلو! داؤد صاحب۔وہ کوئی ڈاکٹر نعمان الحق ہیں جن کا حلاج کا ترجمہ پڑھا۔وہ ترجمہ محسور کن اور مترجم کوئی عالم ۔۔۔۔
جملہ مکمل ہونے سے پہلے داؤد صاحب نے پاٹ دار آواز میں میری بات کاٹتے ہوۓ کہا اے عزیز تم لاہور میں رہتے ہو اور نعمان صاحب کی ذات اور کام سے واقف نہیں۔وہ مولانا فضل حق خیر آبادی کے خانوادے سے ہیں۔جن کے مشورے اور راہنمائی میں غالب نے اپنے مروجہ دیوان کو ترتیب دیا تھا۔میں نعمان صاحب سے علمی مسائل و شعری رموز کے بارے برسوں سے مشاورت کرتا رہتا ہوں۔جب وہ امریکہ ہوں تو ان سے ملاقات ہمیشہ میری اولین ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔آجکل وہ لاہور میں ایک یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔تم ان سے ضرور ملنا۔

وقت کے دریا کو کون روک پایا ہے۔میں مکروہات دنیاوی میں مصروف شکم کی آگ بجھانے میں صَرف ہوتا رہا۔جب آشفتہ سری کے سفر کی گرد نے نڈھال کر دیا تو پھر سے حلاج کے مترجم سے ملنے کی آرزو مجھے کچوکے دینے لگی۔

وہ گرمیوں کی ایک شام تھی۔جب سورج کا تھال ڈوبتے ہوۓ بھی حدت سے فروزاں تھا۔میں نے نعمان صاحب کے دروازے پر دستک دی۔قد آدم لیمپوں کی روشنی کتابوں پر پڑنے کے بعد عجب دلکش زاویے بنا رہی تھی۔ہر شئے قرینے سے رکھی صاحب ِمکان کی نفاست اور ذوق کی گواہ تھی۔سکون کی چاپ ہر سُو محسوس کی جا سکتی تھی۔

میں نےجھجھکتے ہوۓ دنیازاد میں کتاب الطواسین کے ترجمے اور داؤد رہبر سے اپنی نیاز مندی کا تذکرہ کیا۔نعمان صاحب پہلی ہی ملاقات میں   میری کم فہمی کو جان گئے  تھے۔
وہ بولنے سے گریزاں اور میں سننے کا متمنی تھا۔انہوں نے چاۓ کی پیالی میری جانب بڑھاتے ہوۓ کہا حلاج کی کتاب کے ایک باب کا ترجمہ دنیازاد میں چھپا ہے۔مکمل کتاب پر برسوں سے کام کر رہا ہوں جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچ جاۓ گا۔

وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔میری ان سے نیاز مندی اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔میری خوش قسمتی کہ وہ کئی بار میرے گھر تشریف لاۓ۔میں ہر بار کتاب الطواسین کے ترجمے بارے   پوچھتا۔مشفق ایسے کہ میری یاد دہانی کو فرمائش سمجھتے۔وہ شاید ہمیشہ سے ہی الجھنے کی بجاۓ سمجھنے اور سمجھانے کے قائل ہیں۔وہ گفتگو کی بجاۓ عمل کو ترجیح دیتے ہیں۔

وقت کا دریا مجھے صحرا کرنے کو ہے۔پندرہ برس بعد اب کتاب الطواسین کا ترجمہ رنگ رنگ طیلساں کی صورت مکمل ہوا۔

طیلساں بھی ایک ایسی چادر کو کہتے ہیں جو ایک حد قائم کرتے ہوۓ ڈھانپ لے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس نام میں ایک لطیف اشارہ موجود ہے۔اسرار کائنات کے بارے میں انسانی ذہن ایک حد سے تجاوز نہیں کر سکتا۔مظاہر فطرت عیاں ہونے کے باوجود پوشیدہ ہیں۔جلوہ تو ہے مگر منظر بدلتے رہتے ہیں۔جو آج تھا وہ کل کہاں ہو گا؟ انسان صاحب ادراک ہونے کے باوجود محوِ حیرت ہے۔اسی حیرت کی طرف اشارہ کرنے پر منصور جان کی بازی ہارا تھا۔
بابِ حیرت سے پردہ اٹھاتے ہوۓ حلاج نے روش چراغ سے رجوع کیا۔تو افکار آبشار کی صورت الفاظ میں ڈھلنے لگے۔
“کوئی عالم اُس کے علم کو نہیں پہنچا
اور نہ کسی حکمت والے کی رسائی اس کی فہم تک ہوئی”

حلاج نے روشن چراغ کو جلتا ہوا چھوڑا اور فہم کے سامنے دست سوال دراز کیا۔
“حقیقت کے علم کو ادراک کی گرفت میں لانا بہت کٹھن ہے
سو حقیقت کی حقیقت تک پہنچنا اور کتنا کٹھن ہو گا
حق،حقیقت سے پرے ہے
اور حقیقت حق کے آگے
فرومایہ ہے”
فہم صفا کے سامنے حقیر ٹھہرا۔اہل فہم بھی کم کم صفا کا راستہ اپناتے ہیں کیونکہ
“حقیقت بہت باریک چیز ہے
اس کی طرف جانے والے راستے تنگ ہیں
ان میں چنگھاڑتی ہوئی آگ کے ڈھیر ہیں”
اور اس پُر خطر راستے کے بعد ایک دائرہ ہے جس میں اہل فہم اور اہل صفا ہاتھ میں روشن چراغ ہونے کے باوجود جانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ
“داخلی دائرے تک پہنچنے کے لیے  کوئی دروازہ نہیں
اور اس دائرے کے بیچ جو نقطہ ہے
وہی حقیقت ہے”
منصور جس قافلہِ عشاق کا سربراہ تھا اس کے ایک مسافر نے “نقطے وچ گل مکدی” کا درس حلاج سے ہی سیکھا تھا۔کیونکہ منصور حلاج برسوں پہلے یہ کہہ چکے تھے۔
“اور اس سے بھی باریک تر چیز
نقطے کا ذکر ہے
تمام شکلیں اسی سے پھوٹ کر نکلتی ہیں
نہ یہ بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے
اور نہ اپنے آپ میں مٹ جاتا ہے”

منصور کا تعلق اہل فکر کے اس طبقے سے تھا۔جن کے ہاں قطرہ بھی سمندر کی حیثیت رکھتا ہے۔وہ دیوانہ ہونے کے باوجود باہوش بھی ہوتے ہیں۔وہ طغیانی میں تحمل کی پتوار سے راستہ بناتے ہیں۔وہ جاننے کے باوجود علم کی جستجو میں مگن رہتے ہیں۔وہ خیر و شر کی ازل سے جاری جنگ میں مشیت کی طاسین میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔وہ رات کو لُٹ جانے پر دن کو بے خطر سوتے ہیں۔وہ مسلسل سفر میں رہنے کے باوجود نقشِ پا نہیں چھوڑتے۔وہ صحرا کو سمندر اور دریا کو قطرہ سمجھتے ہیں۔وہ حیات کو وقفہ سمجھتے ہوۓ موت کو مقدم رکھتے ہیں۔وہ جمع کرنے کی بجاۓ تقسیم کا درس دیتے ہیں۔وہ بے خبر سے سوال اور باخبر سے جواب کے طلبگار رہتے ہیں۔وہ صاحب اسرار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں انکشافِ ذات کا ہر وقت اندیشہ رہتا ہے۔

میں نے نعمان صاحب کے ترجمے کے چند نمونے واوین میں پیش کیے ہیں۔یہ کتاب کس صنف ادب سے تعلق رکھتی ہے۔وہ محقق لوگ جانیں۔جو عربی اب اہل عرب بھی پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔برسوں کی محنت کے بعد استاد گرامی نے کس عمدگی کے ساتھ دلکش اور سادہ اسلوب میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔اس ترجمے کو مکمل کرنے کے لیے نعمان صاحب کو بنیادی مآخذوں سمیت حوالے کے سب لوازمات بھی اہل مغرب سے دستیاب ہوۓ۔

آجکل کے کانفرنسی نقاد ایسے بھاری پتھر چومنے سے بھی ڈرتے ہیں۔کتاب الطواسین جیسی علمی و صوفیانہ کتب کے متن کو پڑھنے کے لیے تو جگر خون کرنا پڑتا ہے۔
حلاج کی کتاب رموز سے بھری ہے۔حجاب در حجاب کہانی اور داستان حکایات کا رنگ لیے ہوۓ ہیں۔نعمان صاحب نے اس جہان رنگ و نور کو جس لحن اور اسلوب میں پیش کیا ہے وہ کسی بھی طور آئینہ حیرت سے کم نہیں۔حلاج نے جذب کی جس کفیت میں اس کتاب کو تحریر کیا۔نعمان صاحب نے اسی رنگ اور لحن میں برسوں کی محنت کے بعد اسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔حلاج کی شخصیت اور فن حقیقت سے استعارے کی جانب بڑھتے ہیں جبکہ نعمان صاحب نے ابن منصور کی شخصیت کو تاریخی حقائق کے سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرنے کے علاوہ اس تحریر میں موجود استعاروں کو کمال چابکدستی کے ادبی رچاؤ اور آہنگ سمیت اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

نعمان صاحب کی نثر حلاج کے نعرہ مستانہ کی طلیساں میں لپٹی کسی کہنہ مشق کاریگر کی صناع گری کی طرح ہے۔جو موج در موج اترتے ہوۓ آپ کے ذوق اور روح کے لیے تسکین کاساماں لیے ہوۓ ہے۔علمی شخصیت بالعموم صاحب اسلوب نہیں ہوتیں،مگر نعمان صاحب نے ترجمے کو تخلیق کے دو آتشہ سے آب کوثر کا ایسا جام بنا دیا جس کی قرات ہر بار سواد دیگر سے روشناس کرتی ہے۔
بقول افتخار عارف مختار مسعود ہوتے تو داد دیتے محمد حسین آزاد سینے سے لگا کے پیشانی پر بوسہ دیتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھول کو سنگ میں بدلنے کا امیدوار منصور حلاج عالم بالا میں بیٹھا یہ ضرور سوچتا ہو گا کہ خود کو لگنے والے تمام سنگ پھول بنا کر نعمان صاحب کو پیش کروں۔جنہوں نے کتاب الطواسین کو اہل اردو سے متعارف کروایا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply