پہلا قتل۔۔عنبر عابر

“کیا میں اسے قتل کردوں؟ ” یہ سوچ جیسے ہی قابیل کے دماغ میں ابھری، وہ ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔زمین پر ابھی چند ہی انسان بستے تھے اور ان میں سے کوئی بھی قتل سے شناسائی نہیں رکھتا تھا۔ابھی خاکی فرش صاف ستھرا تھا اور اس نے کسی انسان کا خون نہیں پونچھا تھا۔
“ہاں وہ قتل کا مستحق ہے۔میں جس سے محبت کرتا ہوں وہ اس کا حقدار نہیں”
وہ ہانپتے ہوئے خود کلامی کر رہا تھا۔اس کے ہانپنے کا باعث قتل کی سوچیں تھیں، کیونکہ تب قتل کوئی معمولی چیز نہیں تھی۔یہ دنیا کو ایک نئی رسم سے متعارف کرانا تھا۔
“مجھے اس غیر معمولی فعل پر کیا چیز مجبور کر رہی ہے؟ “اس کے دماغ میں سوال ابھر رہے تھے۔
“محبت کی شدت۔اگر مجھے اس سے اس قدر محبت نہ ہوتی تو میں روئے ارض کا پہلا قاتل نہ بنتا۔یقیناً یہ میرا قصور نہیں ہے”
اسے جواب ملا۔۔
تب وہ قتل کی ماہیت بارے سوچنے لگا۔قتل کیا چیز ہے، اس کی کیفیات کیسی ہوتی ہیں، کیا قتل کے بعد کوئی بھونچال برپا ہوتا ہے یا حالات پہلے کی طرح پرسکون رہتے ہیں؟
***
اس نے ہابیل کو ادھ موا کرکے زمین پر گرادیا تھا۔وہ دونوں ہانپ رہے تھے۔ہابیل نے مزاحمت کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔یہ سب اس کیلئے نیا تھا۔قابیل سوچ رہا تھا اگر یہ مزاحمت کرے تو مجھے قتل کرنے میں آسانی ہوگی، اس لیے وہ گرج کر بولا۔
“میں تمہاری جان لینے والا ہوں”
قابیل اسے مزاحمت پر برانگیختہ کر رہا تھا۔
ہابیل نے حیرت سے اسے دیکھا اور مدھم آواز میں گویا ہوا۔
“میں مزاحمت نہیں کرونگا، جواباً تجھے قتل کرنے کی کوشش نہیں کرونگا”
یہ سن کر قابیل کے ہونٹ تھرتھرانے لگے۔قتل اس قدر مشکل بھی ہوتا ہے؟ اسے اندازہ نہیں تھا۔وہ اس کے قریب آیا اور چیخ کر بولا۔
” مجھے پتا ہے تم اعلی ظرف کیوں بن رہے ہو۔ہم ہمیشہ اسی شخص کے سامنے اعلی ظرف بنتے ہیں جس کے متعلق ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ ہم سے اگے نہیں نکل سکتا۔تم جانتے ہو وہ تمہارے نام کا مالا جپتی ہے اور میں تم سے کبھی آگے نہیں نکل سکتا”
ہابیل پریشان نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔قابیل نے ایک بھاری پتھر اٹھایا اور ہابیل کے قریب جا کر بولا۔
“کیا تم مجھے قصوروار سمجھتے ہو؟ اگر میری جگہ تم ہوتے تو کیا تم خود کو قصوراور سمجھنے کی ہمت کر پاتے؟”
یہ کہہ کر قابیل نے ہابیل پر پتھر گرا دیا۔ایک دلدوز چیخ سنائی دی اور خون کے چھینٹوں نے زمین کو ایک نئے لمس سے آشنا کردیا۔تب قابیل پر عجیب سی ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ مسلسل ہابیل کے سر پر پتھر مارنے لگا۔اس دن وہ قتل کی ہر کیفیت جان گیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے ہابیل کو دفنا دیا۔
“جس کی وجہ سے فساد بپا تھا وہ ختم ہوگیا۔اب کبھی قتل نہیں ہوگا”
اس نے کھلی فضا میں ہاتھ پھیلا دئے تھے۔
****
قابیل کے سامنے وسیع زمینین تھیں، پانی تھا، میوے تھے اور خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔وہ اپنے گزرے ایام کے بارے میں سوچ رہا تھا اور زیرِ لب مسکرا رہا تھا۔ہابیل کے بعد زندگی کس قدر پرسکون ہوگئی تھی۔کوئی فساد نہیں رہا تھا، کوئی بے چینی نہیں تھی، امن تھا، سکون تھا۔وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ اس کا بیٹا اس کے قریب آیا۔وہ پریشان لگ رہا تھا۔بیٹا اپنے باپ کے پاس بیٹھ گیا اور خوفناک لہجے میں بولا۔
“اس سال بھی میرے بھائی کی فصل زیادہ ہوئی ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں محنت مَیں زیادہ کرتا ہوں”
قابیل کا جسم ایک جھٹکا کھا کر رہ گیا۔وہ اپنے بیٹے کو پرسوچ نگاہوں سے گھور رہا تھا اور اس کے ہونٹ تھرا رہے تھے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply