ہم سو سال بعد بھی یہاں ہوں گے/آغر ندیم سحر

2024ء کے یادگار انتخابات نے پوری دنیا میں ہمیں برہنہ کر دیا، ہمیں اور ہمارے سسٹم کی بددیانتی کی مزید وضاحت کمشنر راولپنڈی کی پہلی پریس کانفرنس نے کر دی، اس کانفرنس کے بعد اسے ذہنی مریض کہا گیا، جب اس کمشنر نے دوسری پریس کانفرنس کی اور اپنے الزامات واپس لیے تو اسے ذہین اور دیانت دار ثابت کیا جانے لگا، یہ ہیں ہم اور ہمارے الیکشن۔ پی ڈی ایم پلس جب رات گئے پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت بنانے کا اعلان کر رہی تھی تھی تو پیچھے لگی تصویر جس میں بےنظیر بھٹو عوام سے خطاب کر رہی تھیں، اس پر لکھا تھا طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

عام انتخابات میں جیسے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا اور ایک شخص یا پارٹی کے لیے پورے سسٹم کو برہنہ کر دیا گیا، حیران کن بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں یہ کام تحریکِ انصاف کے لیے کیا گیا، عمران خان کو وزارت عظمیٰ تک پہنچانے کے لیے پورے سسٹم کو ایک ٹانگ پر کھڑا کر دیا گیا، وہی تاریخ دوہرائی جا رہی ہے، ہم تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے؟

ہمیں کیوں لگتا ہے کہ عوام اب تک ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جی رہے ہیں، ہمیں کیوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پروان چڑھنے والی نسل اب وقت سے بہت پہلے سیانی ہو چکی ہے، اس نسل سے مزید کچھ نہیں چھپایا جا سکتا۔ عوامی مینڈیٹ بہرحال عوامی مینڈیٹ ہوتا ہے، اگر حکومتیں انتخابات سے نہیں بنانا چاہتے تو پھر الیکشن پر غریب قوم کو کھربوں روپیہ لگانے کے بجائے قرعہ اندازی کر لی جائے، ہر ڈیڑھ دو سال بعد ڈمی میوزیم سے برانڈڈ وزیر اعظم لا کر عوام پر مسلط کر دیاجائے، یہ زیادہ بہتر رہے گا۔

پاکستان کی موجودہ معاشی و سیاسی صورت حال اس حد تک گھمبیر ہو چکی ہے کہ جو پارٹی بھی برسراقتدار آئے گی، اس کے لیے حکومت کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا، بیرونی قرضہ جات اپنی جگہ، عام انتخابات سے پوری دنیا میں جیسے ہماری جگ ہنسائی ہوئی، اس کی مثال شاید ہی کسی ترقی پذیر معاشرے میں بھی ملتی ہو۔ پوری دنیا ہم سے سوال کر رہی ہے کہ ووٹ کو ایسے عزت دی جاتی ہے، اگر ہر پانچ سال بعد عوامی مینڈیٹ کی دھجیاں اڑانی ہیں تو جمہوریت کا راگ الاپنا بند ہونا چاہیے۔

آج سمجھ آئی کہ ہم ہر سال دو سال بعد اپنے وزیر اعظم سے اکتا کیوں جاتے ہیں، اسے کسی نہ کسی بہانے گھر بھیجتے ہیں اور نیا بھرتی کر لیتے ہیں، ہم نے آج تک اپنے کسی وزیر اعظم کو پانچ سال نہیں چلنے دیا، ایسا کیوں ہے، کیا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی ایسی مثال ملتی ہے؟ حکومت چاہے عوامی مینڈیٹ سے آئے یا دھاندلی سے، اسے پانچ سال پورے کرنے دیں تاکہ کل اسے یہ نہ کہنا پڑے کہ مجھے موقع نہیں دیا گیا، مجھے راستے سے واپس موڑ لیا گیا، میرے پراجیکٹس ادھورے رہ گئے یا کہ میرے خلاف سازش کی گئی۔ ووٹ کی عزت اسی صورت میں ممکن تھی کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام ہوتا مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا، اب نئی حکومت عوام امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ایسے منصوبہ جات شروع کرے جس سے واقعی یہ لگے کہ ووٹ کو عزت دی گئی ہے۔

پاکستان کی چھہتر سالہ سیاسی تاریخ اس قدر تلخ اور تکلیف دہ ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہمیں نے پہلے عرض کیا کہ یہ عوام اور نئی نسل، سب جانتے ہیں، ان سے مزید کچھ نہیں چھپایا جا سکتا، اس کی تازہ ترین مثال عام انتخابات ہیں، ایک ایسی پارٹی جس کے پاس نہ اپنا نشان ہے اور نہ ہی آج کل لیڈر، (یعنی لیڈر بھی جیل میں ہے، اس کے امیدواروں کو مولی، گاجر، کرسی، گدھا گاڑی، پھول، بیڈ، صوفہ، چارجر، موبائل فون جیسے نشان الاٹ کیے گئے، اس کے باوجود عوام نے اسے ووٹ دیا، اسے حکمرانی کا حق دیا، یہ مثال بھی آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔

کمشنر لیاقت چٹھہ کے بعد چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کا بیان بھی حیران کن تھا، انھوں نے بھی کہانی کاروں سے دبے لفظوں میں گزارش کی کہ کہانی جیسے بھی لکھیں، اس کا انجام اچھا ہونا چاہیے، یہ ظلم ہے کہ کہانی بھی خود لکھیں، اس کے کردار اور مکالمے بھی خود طے کریں اور پھر آخر میں اس کہانی کے ہیرو کو غدار اور ولن کو ہیرو بنا کر پیش کر دیں، یہ کہانی کے قاری کے ساتھ زیادتی ہے۔

یہ تو تھا الیکشن اور عوامی مینڈیٹ کا رونا، اب معاملہ یہ ہے کہ جیسے تیسے بھی، حکومت بن رہی ہے، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نئی حکومت میں مرکزی کردار ہوں گے، تحریک انساف کے حمایت یافتہ امیدوار کہانی کے امدادی کردار ہیں، ممکن ہے کسی وقت انہیں واپس لایا جائے اور ہیرو گھر چلا جائے، لیکن اس ساری صورت حال میں تمام سیاسی جماعتوں، بالخصوص تحریک انصاف۔

پارلیمان کو مضبوط کرنے اور کہانی کے انجام کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اب دھاندلی کا رونا رونے سے کچھ نہیں ہوگا، عوام کا مفاد اسی میں ہے کہ حکومت جو بھی آئے، جیسی بھی آئے، اسے پانچ سال چلنے دیا جائے، اسے پوری طرح موقع دیا جائے کہ وہ ڈیلیور کرے، وہ عوامی پراجیکٹس اور مفادات کو اپنی انا، تعصب اور لڑائی پر ترجیح دے، سیاسی جماعتوں کا بنیادی کردار ڈیلیور کرنا ہوتا ہے، اگر یہ لوگ چھہتر سال بعد بھی اپنی تاریخ اور اپنے انجام سے سے کچھ نہیں سیکھ سکے تو انھیں گھر چلے جانا چاہیے، ہمیں چھہتر سال بعد اب نئے دور کا آغاز کرنا چاہیے، ہمیں سیاسی طور پر کچھ تلخ فیصلے کرنے ہوں گے مگر یہ تلخ فیصلے ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، جیسا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی۔

اگر سیاست دان کٹھ پتلی بن کر حکومت کرتے رہیں گئے تو اگلے چھہتر سال بعد بھی ہم یہاں ہی کھڑے ہوں گے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم آگے بڑھیں، کچھ نیا سوچیں یا کچھ بڑا کریں تو سب سے پہلے سیاست دانوں کو بدلنا ہوگا، انھیں اپنے رویے اور مزاج کو تبدیل کرنا ہوگا، ایسا نہیں کہ جو دھاندلی سے آئے وہ نا خوش، باقی سارے خوش۔ ہمیں تاریخ کو جانتے ہوئے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ رہے، ہم یہ دیکھ بھی رہے ہیں کہ ہمیں اندرونی اور بیرونی طور پر کیسے مفلوج کیا جا رہا ہے، اس کے باجود ہم خوش ہیں، محض اس لیے کہ ہم حکومت چاہتے ہیں، ہم مفاد کی خاطر یہ جنگ لڑ رہے ہیں، ہمیں یہ سب روکنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا اچھا ہوتاکہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی خود سرنڈر کرتی اور تسلیم کرتی کہ مینڈیٹ تحریک انصاف کو ملا ہے، اسے حکومت بنانی چاہیے، اس سے نواز شریف اور ذرداری کا قد بڑا ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے، اب ذاتی عناد اور بغض سے آگے بڑھنے کا وقت ہے، چھہتر سال ہم نے ضائع کر دیے، صرف تجربات میں، کٹھ پتلی بن کر ہم ناچتے رہے اور یہاں تک کہ ہم غدار قرار دے دیے گئے، ہمیں یہ رویہ بدلنا ہوگا، ہمیں تاریخ کے ساتھ چلنا ہوگا اور تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا، اگر ایسا نہ کیا تو خدا نخواستہ ہم تین ہزار پچیس میں بھی دھاندلی کا رونا رو رہے ہوں گے اور ہم تین ہزار پچیس میں بھی سسٹم کو گالی دے رہے ہوں گے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply