دنیا بھر میں جاسوسی کا نظام آج بھی قائم ہے۔ برصغیر کی فلموں، ڈراموں اور ناولوں کے مطابق تو جاسوس شاید کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو دشمن ملک میں خفیہ طور پر داخل ہو کر وہاں چند مقامات کی تصاویر اور معلومات مہیا کرتا ہے۔ ممکن ہے کسی دور میں ایسا ہو لیکن جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب یہ کام بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں اور ریاستیں اپنے جاسوسوں کو دوسرے ممالک میں اہم عہدوں تک پہنچاتی ہیں کیونکہ جب کوئی کسی اہم عہدے پر ہوگا تو ہی وہ اپنے اصل ملک یا مالکوں کے مفادات کا تحفظ کر سکے گا۔ جاسوس تیار کرنے والے ہر سطح پر جاسوس تیار کیے جاتے ہیں جن میں سے کئی ایک کا کام صرف جاسوسی نہیں ہوتا بلکہ مفادات کا تحفظ اور رائے عامہ ہموار رکھنا بھی شامل ہے۔ دنیا بھر میں کئی ایسے نامور جاسوس سامنے آئے جن کا تعلق میڈیا سے تھا اور انہوں نے تجزیہ کی بنیاد پر نہ صرف رائے عامہ ہموار کی بلکہ شہرت بھی پائی۔ ان کی کریڈیبلٹی پر بھی کوئی حرف نہ آتا تھا کیونکہ جو وہ لکھتے یا کہتے تھے وہی رونما ہو جاتا تھا لہٰذا عوام انہیں انتہائی حد تک ذہین اور قابل سمجھتے تھے۔ ایوانوں میں ہونے والے معاہدوں کی اطلاع انہی کے ذریعے بریک کرائی جاتی تھی۔ یہ صورت حال آج بھی قائم ہے۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پے رول پرکام کرنے والے کئی ایجنٹ باقاعدہ طور پر نہ صرف میڈیا کا حصہ بنائے گئے بلکہ انہیں ہر سطح پر بااثر اور طاقتور بھی بنایا گیا۔ میڈیا سیلز ان کے علاوہ کام کر رہے ہیں جو ان مخصوص لوگوں کوڈیجیٹل سپورٹ مہیا کرتے ہیں۔ عوامی رائے عامہ تبدیل کرنے یا کسی ایک سیاسی جماعت کو حمایت دلوانے کا یہ کام بھی نیا نہیں ہے بلکہ طاقتور ملک اس پر باقاعدہ کام کرتے ہیں۔ دوسری جانب ریاستی سطح پر اعلیٰ عہدوں پر اپنے ایجنٹس کو پہنچانا بھی اسی طریقہ واردات میں شامل ہے۔ سفارت خانوں سے لے کر ایوانوں تک طاقتور ممالک بھرپور پیسہ لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ایسا شخص وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچایا گیا جو مخالف ملک کا ایجنٹ تھا۔ وہ اس ملک کے مالدار خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نے یونیورسٹی تک اعلی تعلیم حاصل کی اور اسی دوران اس
کے ذہن میں ایک مخصوص نظریہ نے قبضہ جما لیا۔ یہ نظریہ ایک اور ملک کی پیداوار تھا۔ وہ اس ملک میں موجود اس نظریہ کے حامی بااثر افراد سے رابطے میں آ گیا اور ان کے قریب سمجھا جانے لگا۔ وہ لوگ اس وقت کی سیاسی قیادت سے جان چھڑانا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے اس شخص کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا اور اس کے لکھے گئے مضامین پر اسے فی ہفتہ کے حساب سے ڈالر بھیجنا شروع کر دیے۔ ایجنٹ بھی جی جان سے ان کے نظریات کو پروموٹ کرنے لگا۔ یہ سب اس کے ماضی کی داستان ہے۔ اس کے مضامین بڑے اخبارات میں شائع کرائے جاتے اور پسند یدگی کی سند پانے لگے۔ اگلے مرحلے میں وہ الیکشن لڑا اور رکن اسمبلی بن گیا جس کے ساتھ ہی اس کو آگے لانے والے ملک نے اس کا معاوضہ بھی بڑھا دیا اور اسے مالی طور پر مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ اسے اپنے ملک کا دورہ کرایا گیا جہاں اسے انتہائی کم وقت میں باقاعدہ جاسوسی کی تربیت دی گئی۔ اس دوران مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی ایسی تصاویر بھی بنا لی گئیں جنہیں بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس وزیر اعظم کو اس کے اپنے ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے بچانے کے لیے حساس معلومات کی ترسیل کے لیے فرنٹ مین پہنچائے گئے اور ایک ایسا میکانزم بنایا گیا کہ پہلے حکومتی رازلندن آفس پہنچائے جاتے تھے اور پھر وہاں سے معلومات اصل ملک جاتی تھیں۔ یہ شخص جب وزیر اعظم تھا تو اسی دوران ملک کی سکیورٹی انٹیلی جنس ایجنسیز کو اس پر شک ہونے لگا، اپوزیشن نے اچانک اس کے خلاف محاذ کھول لیا اور اسے بھی نظر آنے لگا کہ شاید اس کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ اس نے غیر ملکی دورہ کیا جہاں یہ اپنے سہولت کار ملک کی اعلیٰ سفارتی قیادت سے ہدایات لیتا رہا کہ اگر اس کی گرفتاری کے لیے ایجنسز نے گھیرا تنگ کیا تو پھر اس نے کیا کرنا ہے اور اس کی جائے پناہ کیا ہوگی؟ اسے کہا گیا کہ پہلے تو اس بات کی تصدیق کر لے کہ اسے واقعی خطرات درپیش ہیں اور وہ کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے یا پھر یہ معاملات سیٹل ہو سکتے ہیں۔ اگر اسے لگے کہ حالات واقعی خراب ہو گئے ہیں تو پھر دیے گئے منصوبے پر عمل کرے۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد اس نے اپنے ملک کی خفیہ ایجنسی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور بطور وزیر اعظم بعض خفیہ دستاویزات طلب کیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے سہولت کار ملک سے رابطہ کیا اور اپنے ملک سے فرار ہونے کا منصوبہ ڈسکس کر لیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ و ہ شخص ایک مخصوص ساحل پر جا کر سمندر میں کود جائے گا جہاں گہرائی میں موجود آبدوز اسے لے کر نکل جائے گی۔ یہ شخص مقررہ جگہ سے سمندر میں کود گیا اور اس کے بعد آج تک اس کا پتا نہیں لگا۔ اس کا نام ہیرولڈہولٹ تھا اور یہ آسٹریلیا جیسے طاقتور ملک کا وزیر اعظم تھا۔ اس کی موت کے بعد انتھونی گرے نے “جاسوس وزیراعظم” نامی کتاب لکھی جس میں یہ ساری داستان شامل ہے، اس معلومات کا ایک کردار ٹٹکون نامی ایک نیوی آفیسر تھا۔ اس کتاب سے معلوم ہوا کہ 1960 کی دہائی میں ہی طاقتور ملک اپنے جاسوسوں کو وزیر اعظم بنوانے کی گیم میں شامل ہو چکے تھے اور ایسے افرادپر سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ غالب امکان ہے کہ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ اب سوشل میڈیا سمیت ایسے جدید ذرائع دستیاب میں جہاں بھاری رقم لگا کر کسی بھی شخص کو دیوتا بنا کر پیش کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ہولٹ کی کہانی بتانے کا مقصد بھی یہ واضح کرنا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں چند میڈیا سیل بٹھا کر جھوٹی سچی معلومات اور فیک ڈیٹا کی بنیاد پر کسی بھی شخص کے حق یا خلاف رائے عامہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ یہ اتنا خطرناک ہے کہ آپ خود اپنی مرضی سے کسی ایسے شخص کی حمایت میں ووٹ ڈال سکتے ہیں جو ملک دشمن ہو یا کسی کے پے رول پر ہو۔ حالیہ عام انتخابات میں ہمارا ووٹ اس لیے بھی انتہائی اہم ہو چکا ہے لہٰذا کسی بھی پارٹی یا امیدوار کا انتخاب محض اس بنیاد پر نہ کریں کہ وہ بہت ہینڈسم ہے یا بہت بھولا لگتا ہے۔ یہاں بھولے اور ہینڈ سم دونوں ہی تیار کیے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی معلومات کے بجائے اپنے علاقے میں موجود امیدوار کا جائزہ لیں اور اندازہ لگائیں کہ کونسا امیدوار بہتر ہے۔ نعروں، تقاریر اور فیک امیج بلڈنگ کا شکار ہو کرکسی ایسے شخص کو ووٹ نہ دیں کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں