پاکستان کی ڈوبتی معیشت۔۔عامر کاکازئی

دنیا کے ہر ملک کے پاس ایک مرکزی جو  قانونی اور آئینی طور پر اس ملک کا اپنا سرکاری بینک ہوتا ہے، جس کی مدد سے ملک چلایا جاتا ہے ۔ پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس کی اپنی حکومت نے قانونی طور پر آئین میں ترمیم کر کے اسے بین الاقوامی ایک قرضہ دینے والے ادارے کے حوالے کر دیا ہے۔ اب یہ بینک پاکستان اور اس کی حکومت اور عوام کے پیسے کو کنٹرول کرے گا۔ اب اگر حکومت کو پیسہ کی ضرورت پڑے گی تو وہ حکومت اس بینک سے نہ ہی رقم  نکال سکتی  ہے ،نہ  قرضہ لے سکتی ہے اور نہ ہی اس کا پرافٹ، کیونکہ یہ بینک اب عالمی مالیاتی باڈی (آئی ایم ایف) کے کنٹرول میں چلا گیا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اپنے ہاتھ کاٹ کر اپنی مالیاتی خود مختاری آئی ایم ایف کو بیچ ڈالی ہے۔ یعنی اب آئی ایم ایف نے فیصلہ کرنا ہو گا کہ پاکستان اپنے اسٹیٹ بینک (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) سے رقم نکال سکتا ہے یا نہیں۔

حال ہی میں پاکستان ، آئی ایم ایف کنٹرولڈ مرکزی بینک آف پاکستان سے قرضے لینے کی درخواست لے کر گیا ۔ اسلام آباد نے قرضے لینے کی عرضی میں لکھا کہ اسےآئندہ مالی سال ملک چلانے کے لئے جی ڈی پی کے 2 فیصد مالیت کے قرضے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف نے کیا جواب دیا؟ سُن کر آپ کو ہرگز بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس ادارے نے سوکھے منہ کے ساتھ سیدھا سیدھا انکار کر دیا۔

انکار کیوں کیا؟ کیونکہ پاکستان کے اوپر پہلے ہی بہت سا قرضہ چڑھا ہوا ہے اور ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔

آخر پاکستان پر کتنے قرضے چڑھے ہوۓ ہیں پاکستان کے سٹیٹ بینک کے مطابق اس وقت ملک کا مجموعی بیرونی قرضہ 116 ارب ڈالر ہے ۔ ان میں سے 7 ارب ڈالر آئی ایم ایف کو اکیلے، پیرس کلب کو 11 ارب ڈالر، یورو بانڈ اور سکوک کو 12 ارب بانڈ، چین کو 17 ارب ڈالرز، سی پیک کے سلسلے میں ملٹی لیٹرل ڈونرز کو 33 ارب ڈالر اور باقی 42 ارب ڈالر جی 42 اور او آئی سی جیسے کئی دیگر اداروں کو دینے ہیں  ۔ یہ ہے پاکستان کا ٹوٹل بیرونی قرضہ 116 ارب ڈالر۔

پاکستان کی تحریک انصاف کی حکومت اس دنیا کے تقریباً  ہر اس شخص کی مقروض ہے جو پاکستان کو قرض دینے کے لئے تیار ہو جاتاہے۔

کیا ہم ان قرضوں کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈالیں؟ نہیں ہرگز بھی نہیں ،یہ پچھلی حکومتوں کے کرتوت نہیں ہیں بلکہ اس تباہی کی ذمہ داری صرف اور صرف ایک شخص یعنی ملک کے وزیراعظم عمران خان اور اس کو لانے والی اسٹبلشمنٹ  کی ہے۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کا ایک بیان سُنیے
” ہمارے ملک کی سالمیت داؤ پر لگ چکی ہے ۔  2008 سے 2018 کے درمیان پاکستان کے قرضوں میں چار گنا اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن ہم اپنی ٹیکس وصولیوں میں تیزی سے اضافہ کرکے اس صورت حال پر قابو پا لیں گے۔”

دوسرے الفاظ میں حسب معمول وزیر اعظم صاحب نے ساری برائیوں کی جڑ صرف دو پچھلی حکومتوں کو قرار دے دیا۔ ان کے ذہن کی سوئی اسی بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ پاکستان 2008 سے پہلے دنیا کا سپر پاور تھا، دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں، شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ بس پھر کیا ہوا کہ ایک دن دو شیطانوں نے اپنی شیطانی قوتوں کی بدولت ملک پر قبضہ کر لیا، دہشتگردی کے جِن کو بوتل سے نکالا اور اُس جن کی مدد سےملک کو تباہ کر ڈالا ۔

مگر کیا یہ سچ ہے؟ آئیے اس سچ اور جھوٹ کوسمجھنے کے لیے تاریخ کے پہیے کو گھماتے ہیں۔

پاکستان کا بیرونی قرضہ 2017-2021.
2017 میں 86 ارب ڈالر
2018 میں 93 ارب ڈالر
2019 میں 100 ارب ڈالر
2020 میں 110 ارب ڈالر
2021 میں 116 ارب ڈالر

یہ ہے عمران خان کا حصہ صرف 4 سال میں 30 ارب ڈالر قرضہ لیا۔ کیا موجودہ حکومت اس الزام سے بچ سکتی ہے کہ اس وقت دفاع، سبسڈیز، پی ایس ڈی پی اور سول حکومت قرضہ کے پیسوں سے چلا رہی ہے۔ کیونکہ سارا ٹیکس قرضہ اتارنے پر لگ رہا ہے۔

سادہ الفاظ میں ہم اس قرضے کے گورکھ دھندے کو پاکستانی کرنسی روپے میں بتائیں  تو وہ کچھ اس طرح ہو گا
ملک کے کل قرضے اور واجبات 21 ستمبر 2021 تک 50.5 ٹریلین روپے سے زیادہ ہو گئے ہیں، جبکہ تقریباً تین سال قبل جب پی ٹی آئی حکومت میں ائی تو قرضے 29.8 ٹریلین روپے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری قرضوں اور واجبات میں خالص اضافہ تیزی سے تقریباً 21 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا، جو قرضہ تین سال کی مدت میں حاصل کیا گیا وہ ستر سال کی مدت میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

بزنس میں جب جب کوئی کسی سے مال ادھار پر لے اور اس کا قرضہ نہ اتار سکے تو وہ ٹوپیاں گھماتا ہے، مطلب کہ ایک سے مال لیتا ہے بیچ کر پہلے والے کا ادھار چُکاتا ہے پھر تیسرے سے مال لیتا ہے اور دوسرے کا ادھار اتارتا ہے۔ اس کو بزنس ٹرمینولوجی میں  “ ٹوپیاں گھمانا” کہتے ہے۔

ٹھیک اُسی طرح اس وقت پاکستان کی موجودہ نکمی اور نااہل حکومت کر رہی ہے۔ یہ ایک ملک سے قرضہ لے کر دوسرے کو ادا کرنے کے لئے قرض لیے جا  رہا ہے، یا ایک ادارے کا قرض اتارنے کے لیے دوسرے ادارے سے قرض لے رہا ہے، تاکہ پہلے والے کو ادا کرسکیں۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا سرکل ہے۔ اس وقت جناب عمران خان کی حکومت ٹوپیاں گھما رہی ہے۔

آئی ایم ایف نے اب اس سلسلے میں کیا کِیا ہے؟
اس ادارے نے مزید قرضہ دینے کے لیے مکمل انکار کر دیا ہے۔ اور موجودہ جکومت کو سختی سے بتا دیا گیا ہے کہ مرکزی سٹیٹ بینک سے کوئی منافع پاکستان حکومت کو منتقل نہیں کیا جائے گا یہ منافع بینک سے اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک پاکستان پہلے سے حاصل شدہ بیرونی قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں ہو جاتا ۔
پاکستان کی حکومت نے اس بارے میں شدید احتجاج کیا اور کہا کہ آئی ایم ایف کو کوئی جق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے رقم لینے سے روکے۔ کیونکہ یہ رقم لینا اس کا آئینی حق ہے ۔ مگر آئی ایم ایف نے اجتجاج مسترد کر دیا اور سختی سے کہا کہ پاکستان کو مرکزی بینک سے قرضے لینے کی اجازت نہیں ہے اور اس مالی سال میں جی ڈی پی کے 2 فیصد کے برابر قرضے لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ مزید یہ بھی کہا کہ قرضے حکومت ِ پاکستان نے اپنی خوشی سے لیے تھے نہ کہ اسےزبردستی دیے گۓ۔ جواب میں موجودہ حکومت نے مایوسی سے گردن جھکا دی کہ اس نے خود ہی اپنی شہ رگ کاٹ ڈالی ہے۔

تو اب پاکستان کے پاس کیا آپشن بچا ہے؟ صرف دو، ایک اپنے اخراجات جیسے کہ دفاع اور ترقیاتی منصوبے کو انتہائی کم کر دے دوسرا غریب عوام جو پہلے ہی سے  مہنگائی کی شکار ہے اس پر ٹیکسز کا ہوش رُبا اضافہ کر دے، جیسے کہ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، پاور ٹیرف، جی ایس ٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی وغیرہ۔ اس سے شاید حکومت پاکستان آئی  ایم ایف کو پیسے واپس کرنے کے قابل ہو سکے، جس کی امید اس نااہل حکومت سے بالکل بھی نہیں۔

پاکستان کی عوام کے لیے بس ایک ہی خبر ہے کہ “پاکستان کی معیشت کا سورج ڈوب رہا ہے” ان کے بینکوں میں پڑا پیسہ اب آئی  ایف ایم کے کنٹرول میں جا چکا ہے۔ مصر، ونیزویلا اور افغانستان سے بدتر صورت حال ہونے والی ہے۔

کالم کی دم: جیسے شادی کرانے والی آنٹیاں لڑکی کی تعریف ایسے کرتی ہیں کہ “اتنی اچھی اور نصیبوں والی بچی ہے کہ مٹر بھی چھیلے تو ہر دانہ گول نکلتا ہے” ٹھیک اسی طرح چار سال پہلے ایک “انکل” نے اپنے  لاڑے  کی جیت پر یہ کہا تھا کہ ” نصر من  اللہ  و فتح  قریب ” مزید ارشاد یہ فرمایا تھا کہ 5.8 پر گرو کرتی اکا نامی ملک کو ڈبو رہی ہے۔

ان “انکل” سے چھوٹا سا سوال ہے “تسی تے بال بچ سمیت امریکہ ٹُڑ جاو گے تو اس لولی لنگڑی عوام کا کیا ہو گا؟”

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تحریر کو لکھنے میں ایک ٹی وی پروگرام اور دی نیوز کے ایک آرٹیکل سے مدد لی گئی ہے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply