پلیز ایک ٹویٹ ۔۔ اظہر سید

ہجوم نے سری لنکن منیجر   کو توہینِ  رسالت کے الزام میں زندہ جلا دیا ہے اور عملی طور پر مملکتِ  خداداد دیوالیہ ہو گئی ہے ،لیکن کسی طرف سے کوئی ٹویٹ نہیں آئی ۔
ہمسائے میں فتح مبین کا ڈھول بجانے والے طالبعلم کامیابی کے بعد جزیہ مانگنے کی بجائے بھیک مانگ رہے ہیں لیکن شکست کھانے والے جزیہ تو دور، بھیک دینے کیلئے بھی راضی نہیں ۔جس بھارت کا نام لے کر کہ افغانستان کو تزویراتی گہرائی بنایا ،اسی بھارت کو ،اس تزویراتی گہرائی کو پاکستان کے راستے گندم پہنچانے کی اجازت دے دی ۔جس کشمیر کو شہ رگ بتا کر چار دہائیاں خطے  کو سلگائے رکھا بھارت اسے اعلان کر کے نگل گیا اور کوئی ٹویٹ ہی نہیں آئی ۔

فیض آباد دھرنے میں ایک ٹویٹ آئی تھی جس میں تمام قوم کے ناموسِ  رسالت کے تحفظ کے عزم کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا تھا اور پھر ہزار ہزار کی خرچی دے کر معاملہ طے کرایا گیا تھا ،اور دھرنہ ختم کرنے کی خوشخبری سنائی گئی تھی ۔

اس سے بھی پہلے ڈان لیک نامی ایک رپورٹ مسترد کرنے کی ٹویٹ ہوئی تھی جس کی بھینٹ وفاقی وزیرِ اطلاعات ہی نہیں چڑھے تھے  وزیراعظم کی بَلی بھی ہوئی تھی ۔یہ اور بات ہے ٹویٹ واپس ہوئی اور وزیراعظم کی فراغت بظاہر پاناما کیس میں ہوئی ۔

عام انتخابات میں تحریک انصاف کی عظیم الشان کامیابی پر ایک ٹویٹ “عزت اور ذلت خدا کی طرف سے” اور ایک ٹویٹ ووٹ کی طاقت سے دشمن قوتوں کی شکست کی آئی تھی ۔
اب جب پاکستان کا حصص بازار ویران ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کا تماشا بنا ہوا ہے کوئی ٹویٹ ہی نہیں کرتا ۔

ٹویٹ کا  دوسرا مطلب یہ ہے، کہ پاکستان کی مسلح افواج آج بھی مرغی اور اس کے انڈوں پر مشتمل معاشی منشور کے ساتھ کھڑی ہیں اور اس موقف کی بھر پور حمایت کرتی ہیں کہ کٹی کو زیادہ اور کٹے کو کم دودھ ملتا ہے۔

جو وزیراعظم ڈھٹائی سے کہتا تھا ڈالر کی قیمتوں میں دو مرتبہ کمی اس کے علم میں لائے بغیر کی گئی ہے اور اعظم سواتی کے متعلق رپورٹ اس کے علم میں نہیں، تبدیلی کے اس عمل کو فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔وزیر خارجہ کہتا تھا وزیراعظم اور آرمی چیف نے جس کرتار پور بارڈر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی وہ ایک گگلی تھی، حیف اس پر بھی کوئی ٹویٹ نہیں آئی تھی ۔

پاناما ڈرامہ کا جب آغاز ہوا پاکستانی روپیہ کی قیمت ڈالر کے مقابلہ میں 98 روپے  تھی ۔بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قرضوں کی نجی شعبہ کیلئے قیمت پانچ فیصد سے کم تھی۔پاکستان کا حصص بازار دنیا کی پانچ بہترین مارکیٹوں میں شامل ہو چکا تھا ۔ پاکستانی روپیہ کو جنوبی ایشیا کی سب سے مستحکم کرنسی قرار دیا گیا تھا۔پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ جی ڈی پی یعنی معیشت کے 67 فیصد تھا۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی سی پیک پر اربوں ڈالر خرچ ہو رہے تھے ۔ اس وقت پریس کانفرنس کی گئی تھی “معیشت بہت بُری نہیں تو بہت اچھی بھی نہیں “ٹیکسوں میں براہ راست ٹیکس زیادہ ہیں ۔”

جب زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے تھے ۔چاروں صوبوں کے پاس بجٹ سرپلس تھا۔معیشت کی شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد سے تجاوز کر چکی تھی ۔افراط زر کی شرح چار فیصد تھی ۔بنگلادیش سے پاکستانی ٹیکسٹائل کی صنعتوں کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔سی پیک کے ثمرات اور متوقع فوائد کیلئے ہر روز غیر ملکی سرمایہ کاروں کے وفود اسلام آباد آ رہے تھے ۔عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستانی معیشت کو بی پلس کر دیا تھا۔ توانائی کے شعبہ میں خود کفالت حاصل کر لی گئی تھی ،اس وقت چیف صاحب معیشت پر سیمینار کی سربراہی کرتے تھے اور پھر کسی ظالم نے جادو کی چھڑی گھمانی شروع کی ۔

کرپشن کے خلاف مہم شروع ہوئی اور تمام پالتو اینکرز برسات کے مینڈکوں کی طرح یک زبان ٹرانے لگے ۔کوئی پکارنے لگا لندن فلیٹ کی منی ٹریل دو ۔کوئی دور کی کوڑی لایا، حکومت نے 35 ارب ڈالر کے اضافی قرضے لے لئے ہیں اور قوم کے غم میں آٹھ آٹھ آنسو رونے لگا۔کوئی شوگر ملوں کا نوحہ پڑھنے لگا ۔کوئی مودی کے یار کا نوحہ پڑھ کر سینہ کوبی کرنے لگا ۔

جادو کی ایسی چھڑی گھومی اچانک ایک مولوی پین دی سری والا جن بوتل سے نکل آیا ۔ہر طرف ناموسِ  رسالت کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔حلف نامے میں تبدیلی کا وہ طوفان مچا کسی نے کمزور طوطی کی آواز نہیں  سنی، حلف نامے میں تبدیلی کے معاملے  میں خود تحریک انصاف والے شامل تھے ۔دشمن قوتوں کو شکست دیدی گئی اور تبدیلی آگئی ۔تبدیلی زبردست ہے ۔

جس کے پاس بینکوں میں چار پیسے ہیں وہ ڈالر خریدنے چل پڑا ہے ۔کوئی اپنی بچت کو سونے کے بسکٹ خریدنے میں صَرف کر رہا ہے ۔کاروبار ختم ہو رہے ہیں ۔لوگ اپنے بچوں کو مہنگے اسکولوں سے سرکاری اسکولوں میں داخل کرانے چل نکلے ہیں اور جو پہلے سے غریب تھے وہ سسک رہے ہیں ۔خودکشیاں اور ڈکیتیاں بڑھنے لگی ہیں ۔فرسٹریشن ہجوم کو قاتلوں کی شکل دینے لگی ہے ۔

عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی معاشی ریٹنگ کم کر دی ہے ۔زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں ۔ قرضوں کا بوجھ معیشت کے 100 فیصد سے بڑھ گیا ہے ۔ افراط زر کی شرح 11 فیصد سے بڑھ گئی ہے ۔بینکوں کے قرضوں کی شرح سود دس فیصد سے بڑھ گئی ہے ۔چینیوں نے سی پیک کی سرمایہ کاروں کو  حقیقت میں منجمد کر دیا  ہے جبکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی خوفناک حد تک کم ہو چکی ہے۔

برآمدات جو توانائی کا بحران ختم ہونے سے بڑھنی تھیں روپیہ کی قدر کم ہونے اور پیداواری لاگت میں اضافہ سے کم ہونا شروع ہو چکی ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالنے کیلئے گویا تیار بیٹھی ہے اور وہ ہیں    کہ کوئی ٹویٹ ہی نہیں کرتے ،آخر کیوں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کم از کم ایک ٹویٹ میں اتنا تو بتاناچاہیے اگر مڈ ٹرم الیکشن ہوئے ،مسلح افواج پہلے کی طرح نگرانی کریں گی یا نہیں ۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply