برہان وانی اور بھگت سنگھ کا مقدمہ !!۱

برہان وانی اور بھگت سنگھ کا مقدمہ !!۱
دستک
روبینہ فیصل
rubyfaisal@hotmail.com

Advertisements
julia rana solicitors london

“جہاں تک ہمارے مقدمہ کا سوال ہے تو ہمیں کہنے دیجئے کہ جب آپ نے ہمیں موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو یقیناآپ اس پر عمل بھی کریں گے ۔آپ کے ہاتھوں میں طاقت ہے اور اس دنیا میں طاقت ہی سب سے بڑا جواز ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ “جس کی لاٹھی اس کی بھینس”آپ کا ماٹو ہے۔اور ہمارا سارا مقدمہ اس کا بین ثبوت تھا ۔
ہم جس بات کی طرف اشارہ کر نا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے مطابق ہم جنگ کے مر تکب ہو ئے ہیں سو جنگی قیدی ہیں ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ہم سے جنگی قیدیوں جیسا سلو ک کیا جائے اور ہمیں پھانسی کی بجائے گولی مار کر سزائے موت دی جائے ۔اب آپ نے یہ ثابت کر نا ہے کہ آپ کو عدالت کے احکامات کا واقعی پاس ہے ۔
ہم درخواست اور امید کر تے ہیں کہ آپ ہماری سزائے موت پر عملدراآمدکے لئے فوج کو دستہ بھیجنے کا حکم جاری کر یں گے ۔۔۔”
بھگت سنگھ،راج گرو،سکھ دیو
یہ تھی بر طانوی سامراج سے،انقلابیوں کی آٹھ دہائیاں پہلے کی جانے والی اپیل ، جس میں موت سے معافی نہیں بلکہ موت دینے کے طریقے کار پر ایک درخواست تھی ، انصاف مانگنے والوں کی منصفوں سے ۔۔ لیکن یہ سب بے سود تھا کیونکہ جس طرح بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی موت کا فیصلہ بھی عدالتی کاروائیوں سے پہلے طے ہو چکا تھا ، بالکل اسی طرح موت کا طریقہ کار بھی سوچ لیا گیا تھا ۔ درخواست رد ہو ئی اور وطن پرستوں کو ، آزادی کے متوالوں کو جنہوں نے انسان کے ہاتھ انسان کے استحصال کو للکارا تھا ، بہرے کانوں کے پردے کھولنے کے لئے اسمبلی میں بے ضرر سا بم دھماکہ کیا تھا ، جنہوں نے بڈھے لالہ لجپت کی پو لیس کے ہاتھوں لاٹھیوں سے بے بس موت کا بد لہ لیا تھا ، جنہوں نے بھوک ہڑتالیں کر کے قیدیوں کے حقو ق کی بحث چھیڑ دی تھی ، جنہوں نے اسمبلی ، کورٹس اور جیل کو اپنی آواز سنانے کا ذریعہ بنا لیا تھا۔۔ آزادی کے ان متوالوں کو عین جوانی میں بالاخر 23مارچ1931 کو سولی پر چڑھا دیا گیا ۔
8 جولائی2016کو بھگت سنگھ کوپھر سے عین جوانی میں، سن اکیس کا ہی تھا ، انصاف اور اپنا حق مانگنے کے جرم میں ایک دفعہ پھر حکومتِ وقت نے سزائے موت دی مگر اس دفعہ طریقہ کار بھگت سنگھ کی خواہش کے مطابق تھا ، یعنی گولیوں سے بھوننے والا، فائرنگ سکواڈ کے ہاتھوں مر نے والا ۔ مگرایک اور فر ق بھی تھا ، 86 سال پہلے سرکار بدیسی تھی ، آج سرکار دیسی ہے ۔
بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھیوں نے کہا تھا کہ” انقلاب کے مقتل پر ہم اپنی جوانی لوبان کی مثل لے کر آئے ہیں” اور ان کا خیال تھا کہ ان کی موت ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنے گی ، لہذا انہیں پھانسی کے دن کا بے صبری سے انتظار تھا اسی لئے پھانسی کے تختے کی طرف جا تے ہو ئے وہ تینوں مل کر انقلابی گیت گا رہے تھے :
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازؤے قاتل میں ہے
ان کا خیال تھا کہ ان کی موت سے وہ دن آئے گا جس میں سب انسانوں کے لئے ایک سی ہوا اور ایک سا پانی ہو گا ، ایک سی زندگی اور ایک سی موت ہو گی ۔۔۔جیسے :
کبھی وہ دن بھی آئے گا
کہ جب آزاد ہم ہو ں گے
یہ اپنی ہی زمین ہوگی
یہ اپنا آسماں ہو گا
شہیدوں کی چتاؤں پر
لگیں گے ہر برس میلے
وطن پر مر نے والوں کا
یہی نام و نشان ہو گا
افسوس آٹھ دہایاں گذرنے کے بعد بھی بھگت سنگھ کی موت کا مقصد پو را نہیں ہوا ، بھگت سنگھ آج بھی عدالتی قتل کا سامنا کر رہے ہیں ،زمین انسانوں کے لئے آج بھی تنگ ہے اور ظلم اور ناانصافی کا ننگا ناچ پہلے سے بھی ذیادہ ننگا ہو کر ہمارے سامنے کھڑا ہے ۔سامراج نے اس ننگے پن سے آنکھیں چرا رکھی ہیں انسانیت اور جمہوریت کی ریاکارانہ باتیں کر کر کے سامراجی چہروں کو ڈھک دیا گیا ہے ۔
کیا قصور تھا بھگت سنگھ کا اور کیا قصور تھا بر ہان وانی کا ؟
دونوں میں کوئی فرق نہیں ایک کو بر طانوی آمر یت نے دہشت گرد قرار دے دیا تھا اور آج بر ہان وانی کو ہندوستانی میڈیا چیخ چیخ کر دہشت گرد کہہ رہا ہے ۔ جنر ل ڈائر کے بقول” ایک بھی انگلش گولی ضائع کئے بغیر،”بے گناہ ہندوستانیوں کے خون سے 13اپریل 1919کو جلیانوالہ باغ خون میں نہا چکا تھا ، بھگت سنگھ نے خون سے رچی مٹی ماتھے پر لگائی تھی اور کچھ جیب میں ڈال کر اپنے آنسو پی لئے تھے کہ کم سن بھگت سنگھ جا نتا تھا کہ اس کے آنسو ہندوستانیوں کو زندگی نہیں دے سکیں گے ۔
2010میں سکول میں اے گریڈ لینے والے, ،کر کٹ کھیلنے والے نوجوان کو کیا سوجھی کہ وہ بھگت سنگھ کی کھال میں چلا گیا ۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے لئے ، قائد اعظم نے اس وقت جب سب کانگریسی لیڈر ان معصوم متوالوں کے ساتھ دہری چالیں چل رہی تھی ، اسمبلی میں تقریر کر تے ہو ئے کہا تھا :”کوئی بھی جج جس میں ذرا سا بھی انصاف کا احساس ہو گا ، ملزم اور اس کے وکیل کی غیر مو جودگی میں کسی ایسے مقدمے میں فریق نہیں بن سکتا اور بغیر ضمیر کی چبھن کے موت کی سزا نہیں دے سکتا لیکن جب ایک ملک جابر سامراجیت کے روپ میں جلو ہ گر ہو تا ہے،تو وہ ضمیر کی چبھن اور انصاف کے احساس کو پہلے ہی قتل کر چکا ہو تا ہے ۔اس کے نمائندے صرف قتل کر نے کا ہنر جاننے والے روبوٹ ہو تے ہیں اور نفرت اور ظلم کا وہ بیج بو تے ہیں جو آنے والی صدیوں میں تنا ور درخت بن جا تا ہے ۔”
کیا قائد اعظم کے الفاظ آج برہان کے مقدمے کے لئے بھی موزوں نہیں ؟
کشمیری اپنا حق اور انصاف ہی تو مانگ رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ بھارت، کشمیریوں کی خواہشوں اور ان کی زندگیوں کے پر خچے اڑا کر بھی دنیا کے سامنے سب سے بڑی جمہوریت کا امیج بر قرار رکھنے میں کامیاب ہے ۔
اندرا گاندھی نے 1971میں ایک بر طانوی صحافی کو انٹرویو دیتے ہو ئے بڑی درد مندی سے کہا تھا کہ پڑوس میں عورتوں کی عزتوں کی پامالی اور انسانوں کا قتلِ عام دیکھ کر ہم کیسے چپ بیٹھ سکتے تھے اور یہ جواز تھا مشرقی پاکستان میں سازشیں کرنے اور کھلم کھلا مکتی باہنی کا پاکستانی فوج اور غیر بنگالیوں کے خلاف گوریلا کاروائیاں کر نے میں ساتھ دینے کا ۔۔۔اور بے شرمی کی انتہا ہے آج اسی ملک نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی تشدد کی انتہا کی ہو ئی ہے اور پاکستان مسکین ایک بیان اس کے خلاف دے تو انڈیا کا پو را میڈیا چیخ چیخ کر سر پر آسمان اٹھا لیتا ہے کہ پاکستان کو ہمسائیوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کر نا چاہیئے ۔ہمسائے تو 1971میں آپ تھے ، ہم تو متنازعہ کشمیر کے معاملے میں فریق ہیں ۔۔۔ واہ رے!! دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت!! تیرا انصاف۔۔۔۔۔
حکومتِ پاکستان کو ان مکار اور نا انصاف لوگوں سے پوچھنا چاہیئے کہ یہ سیب اور مالٹے بر ابر کیسے کر لیتے ہیں ؟ کون سا دہرے پن اور بے شر می کا کورس ہے جو اس معاملے میں انڈین میڈیا ،حکومت اور فوج نے کیا ہوا ہے ۔
برہان وانی کا مقدمہ آٹھ دہائیاں پہلے بر طانوی راج میں لڑا جا چکا ہے ۔ اگر بر ہان وانی دہشت گرد ہے تو دلی یو نیورسٹی میں چالیس سال تک پڑھائی جانے والی ہسٹری کی کتاب جس میں بھگت سنگھ کو انقلابی دہشت گرد لکھا ہو ا ہے ، اور اس پر انڈین میڈیاچیخ رہا ہے ، تو کیوں چیخ رہا ہے ، پھر وہ بھی سچ ہی لکھا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہیرو ہے تو برہان وانی کیوں نہیں ؟ اور اگر بر ہان وانی دہشت گر د ہے تو بھگت سنگھ کیوں نہیں ؟
جلیانوالہ والا بر طانوی سامراج، ظالم، تو سر ینگر میں بے گناہ بچوں ، عورتوں اوربوڑھوں کو مارنے ، اندھا کر نے والا ، کیسے جمہوری ؟ جب گاندھی نے” گاندھی اروین “سمجھوتہ کیا تو بھگت سنگھ کے چاہنے والوں نے غم و غصے سے گاندھی کو کالے پھولوں کے ہار پیش کیے تھے ۔۔ اگر پاکستان نے یو نہی کشمیر کو مصلحتوں کے تحت درندوں کے آگے تنہا چھوڑ دینا ہے ، تو اسے چاہیئے اپنے گلے میں خود ہی کالے پھولوں کا ہار ڈال لے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply