یونانی فلاسفہ زمین کو ساکن سمجھتے تھے۔ یہ بدیہی بھی ہے، لیکن ہر بدیہی بات درست نہیں ہوتی۔ انسان ہمیشہ سے رات کو ستاروں کو مقام بدلتے دیکھتا آیا ہے اور یہ سمجھتا رہا ہے کہ آسمان زمین کا چکر لگا رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ زمین کے اپنے محور کے گرد گھومنے سے ایسا لگتا تھا کہ ستارے اور سورج زمین کا چکر لگا رہے ہیں۔ یہ بات مُلا صدرا کی پیدائش سے تیس سال قبل کوپرنیکس نے واضح کر دی تھی۔ لیکن مُلا صدرا نے اپنی کتاب المبدا والمعاد میں آسمان کی حرکت کی وضاحت کیلئے ایک فصل قائم کی ہے، فصل فی ان محرک السماء لا یجوز ان یکون عقلا محضا، اس میں فرماتے ہیں:
لا تقبل التغیر کما لا یجوز أن یکون طبعا محضا لأن الثابت علی حالۃ واحدۃ لا یصدر منہ إلا ثابت علی حالۃ واحدۃ فیجوز مثلا أن یکون سکون الأرض مثلا عن علۃ ثابتۃ لأنہ دائمۃ علی حالۃ واحدۃ. (1)
ترجمہ: ”عقلِ محض میں تبدیلی نہیں آتی۔ جیسا کہ اس کیلئے طبعِ محض ہونا بھی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ایک حالت میں ٹھہرے رہنے والے سے جو صادر ہو وہ بھی ایک حالت میں ہی ٹھہرے رہنے والا ہو گا۔ مثلاً زمین کا ساکن رہنا اس دلیل سے جائز ہے کہ یہ دائماً ایک ہی حالت پر ٹھہری ہوئی ہے۔“
مُلا صدرا کیلئے یہ بات تو طے ہے کہ آسمان زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین ساکن ہے۔ اب اس آسمان کا محرک کون ہے؟ تو اسکی کھوج لگائی جا رہی ہے مگر خالی الفاظ کے ہیر پھیر، یعنی برہان سے کام چلایا جا رہا ہے۔ نہ وہ ریاضی کا استعمال کرتے ہیں نہ ہی خارجی حقائق کے ڈیٹا کو خاطر میں لاتے ہیں۔ آگے چل کے صفحہ 279 پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ آسمان شہوت یا غصے میں آ کر حرکت نہیں کرتا، بلکہ اس کا سبب کچھ اور ہے:
حرکۃ السماء کما أنہا لیست شہویۃ ولا غضبیۃ لتعالیہا عن الأغراض الحیوانیۃ بل نفسانیۃ کذلک لیست صدورہا عن النفس اہتماما بحال العالم السفلی وتدبیر الأجسام العنصریۃ لحقارتہا بالنسبۃ إلیہ. والعالی لا یلتفت إلی السافل وإن وصل فیضہ إلیہ. (2)
ترجمہ: ”آسمان کی حرکت چونکہ حیوانی اغراض سے بہت بلند ہے لہٰذا یہ شہوت یا غضب کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ یہ نفسانی معاملہ نہیں کیونکہ یہ حرکت نفس کے عالمِ سفلی کے اہتمام اور عنصری اجسام کو سنبھالنے کی خاطر نہیں ہوتی۔ اعلیٰ کبھی ادنیٰ چیزوں میں نہیں پڑتا۔“
یہ خیال بافی جاری رہتی ہے اور صفحہ 282 پر آسمانی چیزوں کی حرکت کا سبب عقول کو بنا دیا گیا ہے۔
وہذہ العقول التی ہی فواعل الجواہر السماویۃ ینبغی أن یکون ہی المعشوقات وغایۃ الحرکات لنفوس السماوات لأن التفات کل شیء فی استکمالہ وطلبہ الخیر إلی ما ہو علتہ وإلی طلب ما ہو التشبہ بہ. (3)
ترجمہ: ”نفوسِ آسمانی کی حرکت کی غایت اور ان کی معشوقائیں ان عقول کو ہونا چاہیے جو جواہرِ سماوی کی فعلیت ہیں۔ کیونکہ ہر چیز اپنی تکمیل میں اور طلب خیر میں اپنی علت کی طرف پلٹتی ہے اور اس کی طلب کرتی ہے جو اس سے شباہت رکھتی ہے۔“
یہاں ہر چیز کا اپنی اصل کی طرف پلٹنا وہی ارسطو کا نظریۂ حرکت ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو بار بار عقل کا لفظ استعمال جا رہا ہے، یہ عقل ہی ہے یا کوئی اور فرضی چیز ہے؟ اس کا جواب فلوطین کی خیالی دنیا میں ملے گا۔
ارسطو کا نظریۂ حرکت
ارسطو کسی چیز کے استعداد سے فعلیت میں بدل جانے کو حرکت کہتا ہے۔ یہ درست تعریف نہیں اور حرکت کے مفہوم کا مکمل احاطہ نہیں کرتی۔ ارسطو یہ سمجھتا تھا کہ چونکہ زمین مٹی اور پانی سے بنی اشیاء کی اصل ہے تو اس لئے یہ چیزیں اس کی طرف گرتی ہیں۔ آگ اور ہَوا کی اصل آسمان ہے، لہٰذا وہ اوپر جاتے ہیں۔ یوں وہ لفظی کَڑیاں مِلا کر برہان سے اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ بھاری چیزوں کو جلدی زمین پر آنا چاہیے۔ وہ خلا کو اس لئے محال سمجھتا ہے کہ اس میں لامتناہی حرکت ہو گی، مُلا صدرا کی بھی یہی سوچ ہے۔ ارسطو کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش قابلِ تحسین ہے اور یہ عقل کا استعمال ہے، لیکن یہ باتیں درست نہیں ہیں۔ ان خیالات سے مُلاصدرا کے معاصر گیلیلیو نے ہمیں نجات دی۔ جب اس نے ایک مینار سے مختلف کمیت رکھنے والی چیزیں گرا کر دیکھا کہ وہ ایک ہی رفتار سے زمین پر گریں۔ گیلیلیو نے ہی دوربین کے ذریعے مشتری کے چار چاند دریافت کیے جو ایسے آسمانی نفوس تھے جو کھلم کھلا زمین کے علاوہ کسی اور مرکز کے گرد گھوم رہے تھے۔ اس تجربی مشاہدے نے کوپرنیکس کے تعقل کو مزید معتبر بنایا۔ بعد میں نیوٹن نے کششِ ثقل کا قانون دریافت کیا جو ابہام سے پاک ریاضی کی مساوات کی شکل میں لکھا جا سکتا تھا۔ آئن سٹائن نے اس قانون میں مزید بہتری پیدا کی۔ البتہ آئن سٹائن کے معاصر امام احمد رضا خان بریلوی کا حال وہی ہے جو گلیلیو کے معاصر ملا صدرا کا تھا ۔
اعلیٰ حضرت بریلوی اور ردِ حرکتِ زمین
سائنس کی یہ باتیں مسلم عرفاء کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ علامہ ذوالفنون احمد رضا خان بریلوی (متوفیٰ 1921ء) نے ”فوذ مبین در ردِ حرکتِ زمین“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں آپ نے نہ صرف مُلاصدرا کی طرح لفظی براہین پیش کیے ، بلکہ قدیم ریاضی کا استعمال بھی کیا ہے۔ مختلف کرّے اور شکلیں بنا کر بھی اپنا موقف واضح کیا ہے۔ اس کتاب سے علامہ موصوف کی قرون وسطٰی کی سائنس پر بھی گرفت کا پتا چلتا ہے، جگہ جگہ خواجہ طوسی اور ان کے تلامذہ کے حوالے آئے ہیں۔ کتاب میں 105 براہین قائم کئے گئے ہیں لیکن جو بات اعلیٰ حضرت نہیں سمجھ سکے وہ یہ تھی کہ جدید علوم نے ان براہین کو کیسے رد کیا ہے۔ لفاظی کا ایک نمونہ دیکھئے:
”ثالثاً سماوی کرہ واقعی خواہ فرضی بالطبع ایسا ہونا لازم کہ تحت حقیقی سے اُس تک بُعد ہر جانب سے برابر ہوا۔ اس کے کوئی معنی نہیں کہ یہ مقعر ایک طرف زیادہ اونچا ہے دوسری طرف کم، تو اسے مرکز شمس پر لینا تھا کہ وہی تمہارے نزدیک تحت حقیقی ہے۔ مگر مجبوری سب کچھ کراتی ہے۔ وہ حسابی و ہندسی غلطیاں یونہی رفع ہوتی ہیں کہ با تباعِ قدما مرکزِ عالم مرکزِ زمین پر لیا جائے۔
رابعاً مرکزِ زمین ہو یا مرکزِ شمس یا کوئی ایک مرکزِ معین، ہیاتِ جدیدہ سب دوائر کو جن سے ہیات کا نظام بنتا ہے، ایک مرکز پر مان سکتی ہی نہیں جس کا بیان عنقریب آتا ہے۔ اور بے ایک مرکز پر مانے، ہیات کا نظام سب درہم و برہم، غرض بیچارے ہیں مشکل میں، دوائر اور ان کے مسائل سب قدما سے سیکھے اور اُنہیں کی طرح اُن سے بحث چاہتے ہیں مگر جدید مذہب والا بننے کو اصول معکوس لئے، اب نہ وہ بنتے ہیں نہ یہ چھوٹتے ہیں، سانپ کے منہ کی چھچھوندر ہیں۔ آسمان گما کر سورج تھما کر جاذبیت کے مثل ہاتھوں سیارے گھما کر، چار طرف ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور بنتی کچھ نہیں۔ بعونہٖ تعالے یہ سب بیان عیاں ہو جائے گا و باللہ التوفیق۔“ (4)
مزید معلومات کیلئے: علامہ حسن زادہ آملی کے بارے میں غلو کی حقیقت -ڈاکٹر حمید رضا نیاکی
آیت اللہ خمینی نے سائنس پر پابندی نہ لگائی
آیت اللہ خمینی کے شاگرد جناب عباس زریاب خوئی کے مطابق آیت اللہ خمینی بھی نظری طور پر جدید سائنس کے مخالف تھے۔ لیکن چونکہ اس کا اثبات تجربے سے ہو رہا تھا تو اس کی تاویل کرتے تھے تاکہ بطلیموسی ہیئت کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اسی طرح مادے اور جسم کے بارے جدید فزکس کے ایٹم جیسے تصورات کو درست نہیں سمجھتے تھے اور اس کے برعکس مادے اور جسم کو سمجھنے کیلئے ہیولا اور صورت جیسے مفاہیم پر اعتقاد رکھنا لازم سمجھتے تھے۔ (5) البتہ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ جب ان کو حکومت ملی تو انہوں نے عمل میں جدید سائنس پر پابندی نہیں لگائی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا:
”میرے لئے ضروری ہے کہ میں ایک نکتے کی وضاحت کروں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ تعلیمی اداروں کی اصلاح سے ہمارا مقصد کیا ہے۔ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید سائنس کی دو قسمیں ہیں:اسلامی اورغیر اسلامی، مثلاً اسلامی انجینئرنگ اور غیر اسلامی انجینئرنگ یا اسلامی طبیعیات اور غیر اسلامی طبیعیات، چنانچہ انہوں نے اعتراض کیا کہ علم تو اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہو سکتا۔دوسری طرف کچھ لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ تعلیمی اداروں کو اسلامی بنانے سے مراد صرف مذہب سے متعلقہ علوم پڑھانا ہے، جیسے فقہ، اصول اور تفسیر، دوسرے لفظوں میں ان کو قدیم دور کے مدرسے بنانا ہے۔ یا تو انہوں نے بات کو نہیں سمجھا یا جان بوجھ کر خود کو اس دھوکے میں ڈالا ہے۔ “ (6)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایرانی مدارس میں اسلامی فلسفے کے نام پر ہیولا اور صورت جیسے تصورات چھائے ہیں تو ایرانی یونیورسٹیوں نے سائنس کو ترک نہیں کیا۔
مسلم فلسفہ اور ہٹ دھرمی
یوں تو فلسفے کا لفظی معنی عقل کی محبت ہے لیکن ماضی میں مسلمانوں نے جب یونانی فلسفے کو ترجمہ کیا تو اسے ایک مذہب یا دھرم کی طرح اپنایا۔ لہٰذا لوگ عموماً کسی ایک مکتب کو اپناتے اور اسے ہی فلسفہ قرار دیتے باقی مکاتب کو فلسفہ ماننے سے انکار کر دیتے۔ اسی لئے جن علما نے ان کا رَد بھی کیا تو اسے مذہبِ فلاسفہ کہہ کر رد کیا۔ یہ لوگ اول تو اختلاف رکھنے والے کو متفلسف، یا فلسفی نما، کہتے۔ اگر کسی کو فلسفی مانتے مگر اسکی کسی رائے سے متفق نہ ہوتے تو یا تو یہ کہتے کہ یہ جان بوجھ کر غلط بات کر رہا ہے یا یہ کہتے کہ یہ بات اس سے غلط منسوب کر دی گئی ہے۔ اسکی مثالیں یوں تو مشائیوں، اشراقیوں اور صدرائیوں میں بہت ملتی ہیں، لیکن یہاں دو کا ذکر کرنا کافی ہو گا۔ ارسطو کی طرف سے افلاطون کے عالمِ مثال کے مفروضے کو رد کرنے پر ملا صدرا ذاتیات پر اتر کر گھٹیا الزامات لگاتے ہیں (7) اور انباذقلس کی کسی بات سے متفق نہیں تو کہتے ہیں کہ ممکن ہے اس پر یہ جھوٹ باندھا گیا ہو (8)۔ ابنِ رشد بھی فلسفے کو عقیدے کی طرح تھامے ہوئے تھا۔ یہ روش معاصرین میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً جناب مرتضٰی مطہری جدید فلسفے کو فلسفہ ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اسی طرح جناب ڈاکٹر حسین نصر یہ کہتے ہیں کہ میں نے 19 سال کی عمر میں حقیقت کو پا لیا تھا اور پھر ہمیشہ اس پر ڈٹا رہا۔ اصل میں یہ حضرات عقل کو ایک عجیب و غریب مخلوق سمجھتے ہیں اور اس فرضی موجود کی محبت کو فلسفہ سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقی عقل کو نہیں جانتے، لہٰذا ان میں فلسفے کی طرف میلان کا مطلب حقیقت کی تلاش، تنقیدی سوچ اور منطقی روش نہیں بلکہ کچھ خاص عقائد ہیں جن پر ڈٹ جانے کا نام انہوں نے فلسفہ رکھا ہوا ہے۔ یہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس عقل سے پیار کرنے کا ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے، دوسرے کا پیار، سچا پیار نہیں۔ ایک مسلم فلسفی کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ عقلمند صرف وہ خود ہے، چاہے جتنا بھی جاہل ہو۔ اسی ہٹ دھرمی کے سبب حرکت اور زمین و آسمان کے بارے انکے نظریات بھی قدیم یونانیوں کی پیروی پر مبنی ہیں۔ مسلمان علماء میں سے جنہوں نے فلاسفہ کی مخالفت کی، وہ تنقیدی سوچ رکھتے تھے اور ان کی نسبت کم ہٹ دھرم تھے۔
حوالہ جات
1. ملا صدرا، ”المبدا والمعاد“، صفحہ 278، تصحیح: سید جلال الدین آشتیانی، طبع سوم، 2001ء۔
2. ملا صدرا، ”المبدا والمعاد“، صفحہ 279، تصحیح: سید جلال الدین آشتیانی، طبع سوم، 2001ء۔
3. ملا صدرا، ”المبدا والمعاد“، صفحہ 282، تصحیح: سید جلال الدین آشتیانی، طبع سوم، 2001ء۔
4. امام احمد رضا خان بریلوی، ”فوذ مبین در ردِ حرکتِ زمین“، صفحہ 285، اعلیٰ حضرت نیٹ ورک۔
5. عباس زریاب خوئی، ”ز ندگانی من“، صفحات 50، 51، مجلہ تحقیقات اسلامی، شمارہ 1 و 2، سال1374 شمسی۔
6.آیت اللہ خمینی کا یونیورسٹیوں کے وفد سے خطاب، ”صحیفہ امام(انگریزی ترجمہ)“، جلد 12، صفحہ 217،بتاریخ 21 اپریل 1980، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران۔
7. فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 341، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔
8. فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 479، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔
سوال: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ملا صدرا اپنے عہد سے ذہنی طور پر اتنے پیچھے کیوں تھے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں