• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جدید اور مابعد جدیداردو تنقید کے نمائندہ ناقداور “اکتشافی تنقید” کے بنیاد گزار حامدی کاشمیری۔۔۔۔۔احمد سہیل

جدید اور مابعد جدیداردو تنقید کے نمائندہ ناقداور “اکتشافی تنقید” کے بنیاد گزار حامدی کاشمیری۔۔۔۔۔احمد سہیل

حامدی صاحب سے میرا تعلق تقریبا 45 سال کے لگ بھگ رہا ہے۔ ان سے میری خط وکتابت اور ٹیلی فون کے  ذریعے جدید ادبی تنقیدی نظرئیے اور امریکی جدید تنقید کے حوالے سے  رہا ہے ان سے میں نے بہت سیکھا۔ اور وہ مجھ سے امریکہ میں ہونے والی جدید تنقید اور  نئے ادبی نظریاتی رجحانات پر مجھ سے پوچھتے تھے اور اس پر بات بھی کیا کرتے تھے۔ مجھے ان کا اکتشافی تنقید نظریہ شروع میں با لکل سمجھ نہیں آیا تو انھوں نے یہ مجھے ٹیلی فون پراورخطوط لکھ کر سمجھایا۔ مگر میں ہمیشہ ہی ان سے کہتا تھا کہ مجھے اکتشافی تنقید آدھی سمجھ آئی ہے اور آدھی میری سمجھ سے باہر ہے۔ تو وہ مسکراتے اور کہتے جب تو بڑے ہو جاو گے تو بقیہ آدھا حصہ خود ہی سمجھ جاو گے۔
بھر کئی سال بعد میں نے ان کے ” اکتشافی تنقید ” پر ایک چھوٹا سا نوٹ انھیں ارسال کیا جو ان کی اجازت سے فیس بک پر لگا بھی دیا۔ اور ان کو فون پر سنا بھی دیا تو ان کو میری برسوں پرانی بات یاد آگئی اور کہنے لگے” اب تم کو مکمل طور پر اکتشافی تنقید سمجھ آگی ہے۔ ” میرا مختصر سا مضمون یوں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو میں اکتشافی تنقید کیا ہے؟ جواز اور امکانات !

Advertisements
julia rana solicitors

اردو میں اکتشافی تنقید کا چرچا اسی /۸۰ کی دہائی میں شروع ہوا ۔ ہنوذ اردو کے اہل قدم اور قاری اس تنقیدی رویـے سے کم ہی آگاہ ہیں۔ اس کی فکری جڑیں گہری ہیں اور اس سے اغماض برتا گیا۔اکتشاف  کی اصطلاح  لفظ  کشیف    سے کشید کیا گیا ہے۔ جس میں الجھے ہوئے ھوئے نامعلوم رویوں اور اسلوب کی گرہیں کھولی جاتی ہیں۔ یہ تنقیدی مزاج اور مناجیات کا کلیہ بھی ھے۔ دوسرے الفاظ میں کسی علمی اور ادبی متن کے پوشیدہ مظاہر، ماہیت کاتجزیہ اور اس کے اندر چھپے ہوئے پوشیدہ، حرکیات، سکونیات، جمود، تجربات اور رویوں کو دریافت کرنے کا نام  اکتشافی تنقید ہے۔ اس تنقید میں نقاد قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ھے۔ اور متن کی عمل آوری کے لیے متن شکنی کے ساتھ متن کی مرکذیت کو بھی تسلیم کرتی ھے۔ یہ ادب میں تحریک  کا منکر ہے۔ جس میں معنیاتی اور مفہامیاتی امکانات کو بھی مسترد کیا جاتا ھے۔ اکتشافی تنقید میں تخلیق کی جمالیات، مواد کا تجزیہ، تشکیک کے ساتھ کرتا ھے۔اکتشافی نظریہ فن کی سالمیت ، بقا کا تحفظ، کرنے اور اس کے تخلیقی کردار پر مکالمہ کرتا ۔اکتشافی تنقید میں مارکسی، نفسیاتی، ہیتی، ساختیاتی، اور اساطیری دبستانوں سے ان کے نطریاتی اور مناجہیاتی سانچوں اور پیمانوں سے بھی فاصلہ کئے ہوئے ہے۔ ۔ اکتشافی تنقید صرف تخلیقی عمل میں لفظیاتی یا صورتحا ل کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتی ہے۔۔ جو حقیقی بیں العمل کی پہچان بھی ہے۔ ۔۔ کیا اردو تنقید میں  اکتشافی انتقادات  سے اردو کے ناقدیں، ادبا اور دانشورآٓگاہ ہیں؟اور اس تنقیدی رویے کے کیا امکانات اور جواز ہیں؟ کیا اردو تنقید اکتشافی تنقید کو سمجھ پائی ہے ؟ اردو میں اکتشافی تنقید یں اب تک کونسی اہم تحریرٖیں لکھی گئی ہیں۔ اس موضوع پر دوستوں کو  دعوت شیراز  ھے۔” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے ادبی اور علمی جریدے ” سہ ماہی “جہات” میں میرے کئی تنقیدی مضامین اور شاعری بھی شائع ہوتی رہی ہے۔
حامدی کاشمیری مرحوم ایک سید ھے سادے انسان ہیں ۔ طبیعت میں سادگی اور ستھر اپن تھا، کریم النفس اور انسان دوستی اور ہمدردی ان کا خاص وصف ہے ۔ اعلیٰ اورادنیٰ دونوں سے ایک جیسا برتاؤ کر تے ہیں ۔ زبان میں مٹھاس اور اندازِ کلام میں نہایت شائستگی اور نرمی ہے ۔ ان کا تنقیدی مزاج بہت ستھرا دیانت دارانہ تھا۔۔ مصر ہ مریم لکھتی ہیں :
’’ کم گوئی حامدی ؔ کاشمیری کی عادت ہے ۔ چند ضروری باتیں کرلیتے ہیں اور بس ، گھر میں بھی غیر ضروری باتیں نہیں کر تے ہیں ۔ نہ کسی کی شکایت نہ مخالفت نہ غیبت نہ کسی پر تبصرہ نہ تنقید ، وہاں بات ہوتی ہے تو اپنے بارے میں ، اپنے گھر ، اپنے بچوں ، اپنے لکھنے پڑھنے کے بارے میں سب سنجیدگی کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔۔۔’’ حامدیؔ کی شخصیت کی میرے لئے کئی حیثیتں ہیں وہ چہیتے شوہر ہیں ، میرے محبوب فن کار ، میرے عزیز دوست ، میرے شفیق اور غم گسار ، ایک فن کار کی حیثیت سے جب میں ان کو دیکھتی ہوں تو مجھے ان میں بظاہر شاعروں اور فن کاروں کی سی کوئی بات نظر نہیں آتی ہے ․․․․ سگریٹ نوشی یا شراب نوشی کی کی عادت ، چائے خانوں اور کافی ہاؤسوں میں وقت برباد کرنا ، ذاتی پروپیگنڈ ا کرنا ، اپنے عم عصروں سے رشک اور حسد کرنا، دشمنوں کے خلاف محاذ آرائی کرنا ، ان میں سے کوئی بات نہیں  ، بلکہ ان کی جوعادتیں ، اور خصائص ہیں وہ سب کی سب ان کے الٹ ہیں اس کے باوجود میری نگاہوں میں ہمیشہ ایک منفرد اور بلند قامت فن کار رہتے ہیں ۔”
پروفیسر حامدیؔ کاشمیر ی ۲۹/جنوری ۱۹۳۲ ؁ء میں بمقام بہوری کدل میں پیدا ہوئے اور وہیں والدین کی آغوش میں پرورش پائی ۔ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں ان کے چچاؤں کا بھی ہاتھ رہا ۔
جب حامدی ؔ صاحب کی عمر چار سال تھی تو ان کے چچا اور والد صاحب کی خواہش کے مطابق ان کو کلا شپورہ سری نگر کے پیر عبدالاحد شاہ کی دینی درسگاہ میں داخل کیا گیا ۔ اس درسگاہ میں قرآن شریف ناظرہ مکمل کرنے کے بعد ان کے چچا غلام نبی بٹ نے ان کو بہوری کدل کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں درجہ اوّل میں داخل کیا۔
حامدی کاشمیری کا بچپن اپنے والدین کے ساتھ مشترک خاندان میں بسر ہوا ۔والدین نے ان کو بچپن ہی سے دینی اور دنیوی تعلیم کی طرف راغب کیا ۔ ان کے والدتعلیم حاصل نہ کر سکے تھے مگر تعلیم کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے ۔ وہ مسجد میں جاتے وقت اپنے لخت ِ جگر کا ہاتھ پکڑکر ساتھ لے جاتے ۔ چنانچہ بچپن ہی سے اپنے شفیق والد کی صالح عادات کو دیکھ کر نیک کاموں کی طرف مائل ہوگئے اور مذہبی رجحان ان کی فطرت کا حصہ بن گیا ۔ ان کی شخصیت پر ان کے والد صاحب کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔۱۹۵۰  میں انٹر میڈیٹ اور ۱۹۵۲  میں بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ بی ۔ اے کی ڈگری کے ساتھ ہی انہوں نے فارسی آنر ز کی ڈگری بھی حاصل کی اور اوّل آئے ۔ بی ۔ اے میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ کالج کی تعلیم مکمل کر کے وہ عملی زندگی میں داخل ہوئے ۔ کالج سے ان کو قلبی وابستگی رہی ۔۱۹۵۴  میں انہوں نے جموں وکشمیر یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔ اے اور ۱۹۵۸طمیں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ۱۹۵۹طمیں سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انگلش حیدرآباد ’’ جو اب سے انگریزی اور غیر ملکی زبانوں کی سینڑل یونی ورسٹی بن گئی ہے ‘‘تدریس کایک سالہ کورس بھی مکمل کیا۔ ۱۹۶۶  میں کشمیر یونیورسٹی سے پی ۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ کالج میں لیکچرر ہونے کے بعد وہ ’’ پرتاپ ‘‘ کے نگراں رہے” { “پروفیسر حامدی کاشمیری فن اور شخصیت” از ڈاکٹر مشتاق قادریؔ۔۔ Issue 6, تحقیق وتنقید, رفتار ادب،یکم جولائی 2015}۔ اسی زمانے میں انہوں نے رسائل میں چند افسانے پڑھے اور ان کو افسانے لکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ اور یہیں سے ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔ چنانچہ ان کا پہلا افسانہ بہ عنوان ’’ ٹھوکر ‘‘ شعائیں ، دہلی میں توصیفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا ۔ اس کے بعد افسانہ نگاری کی مشق جاری رہی ۔ حامدی کشمیری برگزیدہ ناقد اورادبی نظریہ ساز بھی ہیں فکشن کے علاوہ انکے شعری تحرباب سات مجموعوں پر مشتمل ہیں … ایسے لوگ اپنے ذہنی ارتقا کے زمانہ سے پہلے پیدا علمی افق پر نمودار ہوحاتے لہذا انکے معاصر انہیں سمجھ نہیں سکتے. حامدی کی فکری بالیدگی سے پتہ چلتا ہے وہ اکیسویں صدی کے انسان ہیں اور مدبرات اجل کی فروگزاشت یا بھول چوک سے بیسوی صدی میں پیدا ہوگئےان کے افسانے ’شاعر‘ ، ’آجکل ‘ ، ’ بیسویں صدی ‘،’ راہی ‘،’ شعائیں ‘ اور ’نقوش ِ لاہور وغیرہ میں چھپتے رہے ۔ انہوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول نگاری میں بھی طبع آزمائی کی مگر وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ لہذا ۱۹۶۱  میں افسانہ ، ناول نگاری کو ترک کر کے مکمل طور پر شاعری پر توجہ کی اور غزل گوئی اور نظم نگاری میں ایک اہم مقام حاصل کیا ۔ اور تحقیق وتنقید پر توجہ مرکوز کی ۔حامدی ؔ کاشمیری مرحوم نے شاعری ، تنقید ، افسانوں اور ناولوں کے علاوہ ریڈیائی ڈرامے ، ٹی وی ڈرامے اور ریڈیائی غنا ئیے بھی لکھے ہیں۔حامدی نے تنقید پر ۲۲کتابیں لکھی ہیں وہ افسانہ نگار بھی اور شاعر بھی …پانچ اردو شعری مجموعے ہیں. کشمیری میں بھی شاعری کی ہے..تنقید کے حوالے سے اکتشافی تنقید کی شعریات آخری کتاب ہے اوریہ انکے نظریات کو سمجھنے کے لئے مکمل رہنما ہے..کارگہہ شیشہ گری.. میر کے مطالعہ پر زبردست تنقیدی کتاب ہے اسکے پہلے ابتدائی باب دریائے سخن میں شاعری اور نقاد کی اہمیت ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں :
“شاعری بنیادی طور پر ایک طلسم کارانہ تخلیقی فن ہے. شاعر لفظ و پیکر کے علامتی برتاؤ سے تجربات کے طلسم کدوں تک عام قاری کی رسائی ممکن نہیں. اس لئے ایک صاحب نظر نقاد کی رہنمائی ناگزیر بن جاتی ہے.حامدی کاشمیری نے اکتشافی نظرئیے کو اردو تنقید سے متعارف کروایا۔ اور اس پر مدلل بحث کا آغاز کیا۔ اس نطرئیے نے جیاں شہرت پائی وہا یہ متنازعہ بھی رہا۔ کامدی کاشمیری کا کہنا ہے “اکتشافی تنقید کی اصطلاح وضع کر نے اور اس کی وضاحت کر نے سے میں یہ دعویٰ نہیں کر رہا ہوں اور نہ ہی مجھے اس کی ضرورت ہے ، میں جیسا کہ بعض دوستوں کاخیال ہے کسی نئے دبستان تنقید کا بانی کہلایا جاﺅں ، میں صرف یہ عرض کر نا چاہتا ہوں کہ تنقیدی معا ئر کو اپنے صحیح تناظر میں برتا جا ئے ، تاکہ فن اور تنقید کے صحیح تفاعل کی پہچان ہو سکے اور ادبی اقدار فروغ پاسکیں ، یہ تنقیدی کام موضوعی ہے ۔ نہ شخصی اور نہ ہی تاثراتی ہے ۔ جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے یہ ٹھوس لسانیاتی اساس رکھتا ہے اور لفظ کی صوتیاتی اور معنیاتی نزاکتوں کی تحلیل و تفہیم کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر ترکیبی الفاظ سے متنوع اور متضادرشتوں کی شناخت پر منحصر ہے ۔ اور ساتھ ہی لفظوں کے علامتی بر تاﺅں کے تجزیہ پر استوار ہے ، بھلابتا ئیے اس میں تاثراتی انداز کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟۔ یہ ٹھوس ، معروض اور متو ازن طریقہ نقد ہے جو نہ صرف تخلیق کے باطنی رموز کو آشکار کرتا ہے ۔ بلکہ علامتیت کی پیچیدگی کے مطا بق تجربے کی دقت جیسے جو ناتھ کلر ”لفظی مسافت کی وقعت “ قرار دیتا ہے ۔ کے مطابق تعین قدر کے مسئلے کا معقول حل بھی پیش کرتا ہے ۔”
حامدی کاشمیری مرحوم کی ایک غزل ملاخطہ ہو:
شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت
اس کے لوٹ آنے کا امکاں ہے بہت
آئے گی نور مجسم بن کر
صورت سایہ گریزاں ہے بہت
کچھ بھی ہوں موج و ہوا کے تیور
جسم پروردۂ طوفاں ہے بہت
شاید آ پہنچے ہیں وہ اسپ سوار
شہر کا شہر ہراساں ہے بہت
جسم و جاں ورطۂ ظلمت ہی سہی
پیکر حرف درخشاں ہے بہت
زیر فرماں رہے اقلیم سخن
رہنے کو گوشۂ ویراں ہے بہت
—————–
حامدی کاشمیری نے کی تصانیف کی فہرست کچھ یوں بنتی ہے۔
۔ وادی کے پھول افسانے
۲۔سراب افسانے
۳۔ برف میں آگ افسانے
‘۴۔ بہاروں میں شعلے ناول
۵۔ پگھلتے خواب ناول
۶۔ اجنبی راستے ناول
‘۷۔ بلندیوں کے کواب ناول
۸۔مقبول شاہ کرالہ واری تنقید
۱۔ افتخار اما م صدیق ۔ ماہنامہ شاعر، گوشہ ۔س۲۳
۹۔ دلسوز کشمیری
۱۰۔ جدید اردو نظم اور یورپی اثرات تنقید
7۱۱۔ غالبؔ کے تخلیقی سرچشمے تنقید
۱۲۔ نئی حسیت اور عصری اردو شاعری تنقید
۱۳۔ اقبالؔ اور غالب تنقید
۱۴۔ ناصر ؔ کاظمی کی شاعری تنقید
۱۵-۔ کا رگہ شیشہ گری
۱۶۔ انتخاب غزلیاتِ میرؔ تنقید
۱۷ ۔ تفہیم وتنقید تنقید
۱۸۔ امکانات تنقید
۱۹۔ جدید شعری منظر نامہ تنقید
۲۰۔ معاصر ِ تنقید ایک نئے تناظر میں تنقید
۲۱۔ ریاست جموں وکشمیر میں اردو ادب تنقید
۲۲۔ انتخاب کلام میر شاعری
!۲۳۔ عروس ِ تمنا شاعری
۲۴۔ نایافت شاعری
۲۵۔ لاحرف شاعری
۲۶۔ شاخ ِ زعفران شاعری
۲۷۔ آئینہ ادراک ، اقبال کا مطالعہ تنقید
۲۸۔ حرفِ راز (اقبال کا مطالعہ) تنقید
۲۹۔ انجمن آرزو سفر نامہ
حال ہی میں ان کی یہ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
۱۔ حضرت شیخ العالم کی تخلیقی شناخت ۔
۲۔ اردو نظم کی دریافت ۔
۳۔ اردو تنقید کا مجموعہ مرتب
۴۔ ایک شعری مجموعہ ۔
انھوں نے۲۹ کتابیں لکھی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply