مولانا اچھے آدمی ہیں مگر/نجم ولی خان

مولانا فضل الرحمان اچھے آدمی ہیں مگر اس وقت غصے میں ہیں۔ مجھے ان کے غصے میں ہونے کے بہت سارے اسباب حقیقی بھی نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی ایک طویل جدوجہد کے بعد ایک بڑی کامیابی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ صدر مملکت بننا چاہتے تھے۔ ان کے پیش نظر بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں تھیں۔ وہ عمران خان اور نواز شریف کی طرح عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر اقتدار کی یہ ٹرین مس ہوگئی تو اگلی ٹرین کے سفر کی ہمت ہوگی یا نہیں، رب جانے، سو ان کا غصے ہونا، مایوس ہونا اور دباؤ میں ہونا ہرگز غیر طبعی نہیں، غیر منطقی نہیں۔ وہ عالم دین ہیں، مجھ سے بہت بہت بہتر دینی تعلیمات کو جانتے ہیں۔

ترمذی اور ابودائود کے مطابق حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو اس کو چاہئے کہ بیٹھ جائے اگر بیٹھنے سے غصہ چلا جائے (تو ٹھیک ہے) ورنہ اس کو چاہئے کہ لیٹ جائے۔ ابود ائود ہی میں حضرت عطیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: غصہ شیطان (کے اثر) سے ہوتا ہے۔ شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہئے کہ وضو کر لے۔

بخاری شریف اور مسلم کتاب البراولصلۃ کے مطابق حضرت سلیمان بن صردؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس 2 آدمیوں نے آپس میں ایک دوسرے کو گالی دی۔ ان میں سے ایک کا چہرہ غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگیا۔ رسول کریم ﷺ نے اس آدمی کی طرف دیکھ کر فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر وہ اسے کہہ لے تو اس سے (غصہ کی حالت) جاتی رہے گی (وہ کلمہ یہ ہے) اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم۔

میں معذرت کرتا ہوں اگر میں نے یہ کہا کہ مولانا نے جھوٹ بولا، مجھے بدگمان نہیں ہونا چاہئے مگر حقائق مولانا کی بتائی ہوئی باتوں سے کافی مختلف ہیں۔ وہ بہت کچھ بھول رہے ہیں اور شائد بہت کچھ گڈ مڈ بھی کر رہے ہیں جیسے یہ کہ وہ 26مارچ 2022کی، تحریک عدم اعتماد کے موقعے پر آئی ایس آئی میس مارگلہ روڈ اسلام آباد میں ہونے والی جس ملاقات کی بات کر رہے ہیں اس میں جنرل فیض حمید موجود ہی نہیں تھے۔ وہ آئی ایس آئی سے رخصت ہوچکے تھے، کور کمانڈر پشاور بن چکے تھے۔ اس ملاقات میں آئی ایس آئی کے چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم موجود تھے۔

بلاول بھٹو، اختر مینگل، خالد مقبول اور دیگر بھی تھے۔ اس ملاقات میں شریک لوگوں نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف نے اپوزیشن کے سیاستدانوں کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ تحریک عدم اعتماد واپس لے لیں توعمران خان مستعفی ہوجائیں گے۔ یہاں اب تین نکات اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ سیاستدان خود فوج کے پاس جاتے ہیں اور اگر وہ خود فیصلہ کرلیں کہ فوج کے پاس نہیں جانا، آئین، قانون اور جمہوریت کو اہمیت دینی ہے، کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لانا تو کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد سو فیصد ایک آئینی عمل ہے اور اگر سیاستدانوں نے استعفے کی بجائے تحریک پر اصرار کیا تو بالکل درست کیا جبکہ دبائو پر استعفیٰ غلط بات ہوتی۔

تیسری بات یہ ہے کہ جب وہ فیض حمید کی بات کر رہے تھے تو کہہ رہے تھے کہ انہوں نے سسٹم میں رہ کر کام کرنے کے بارے میں کہا۔ فیض حمید کی موجودگی اور یہ بات بھی درست تسلیم کر لی جائے تب بھی اس بات کو غلط نہیں کہا جا سکتا اگر آئین، قانون اور سسٹم کے مطابق عمل کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ یہاں یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کو یہ از خود یہ فیصلہ کرنا چاہئے تھا، فوج کو نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ باجوہ صاحب استعفیٰ دلوا رہے تھے، یہ سیاستدانوں کا ہی فیصلہ تھا، ہاں، اس میں فوج کا عمل اتنا ہی تھا کہ اس نے ایم کیو ایم اور باپ پر جو بندوق رکھی ہوئی تھی کہ وہ عمران خان کے ساتھ رہیں، وہ ہٹا لی گئی تھی اور معاملات سیاستدان خود طے کر رہے تھے۔

ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ مولانا اصل میں پی ٹی آئی کو گھیر رہے ہیں جب میں یہ سوال کرتا ہوں کہ بلوچستان میں کم و بیش صورتحال وہی رہی اور مولانا کا اصل شکوہ تو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں دھاندلی ہوئی اور دلچسپ امر یہ ہے کہ جن پر الزام ہے کہ وہ دھاندلی سے جیتے، انہی کے ساتھ مل کر دھاندلی کے خلاف احتجاج کا پلان بنا رہے ہیں۔ ان سے بہتر مؤقف اے این پی کا ہے جس نے دھاندلی کی شکایت کی ہے اور پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر تحریک چلانے سے انکار کر دیا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ مولانا کی اس پوری موو کا فائدہ یہ ہوگا کہ سوشل میڈیا پر ان کی میمز بنانے والے، انہیں فضلو اور ڈیزل کہنے والے کم ہوجائیں گے، ان کے چہرے کو وہ نورانی بیان کرنے لگیں گے مگر مسئلہ تو جے یو آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ بھی ہے کہ مولانا اس سے پہلے عمران خان کی جو خوبیاں بیان کرتے رہے، وہ اسے صادق او ر امین کے ساتھ کیسے بدلیں گے مگر مجھے دلچسپ لگا کہ محض اختلافی رائے پر ماں تک کی غلیظ گالیاں دینے میں مولانا کی میڈیا ٹیم کے بعض ارکان نے بھی کسی نااہلی کا مظاہر ہ نہیں کیا، اللہ انہیں جزا دے۔

مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے مخالف تھے مگر صرف اس لئے مخالفت نہیں کی کہ کہیں ان پر عمران خان کو بچانے کا الزام نہ لگ جائے۔ مجھے بصد احترام کہنا ہے کہ میں نے اس دور میں ان کے تمام احتجاجوں اور پریس کانفرنسوں وغیرہ کے بیانات چیک کئے ہیں مجھے کہیں بھی اس تازہ ترین موقف کے حق میں کوئی ایک فقرہ بھی نہیں ملا۔ یہ بات انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بری لگی مگر نہ صرف تحریک عدم اعتماد بلکہ اس کے بعد سولہ ماہ کی حکومت کا ایک ایک دن پورا کرنے میں مولانا سب سے آگے تھے اور یہی بات مسلم لیگ نون میں مریم نواز کا گروپ کہتا ہے کہ وہ اسمبلی توڑنا چاہتے تھے، نواز شریف کو بھی اس کے قائل تھے مگر مولانا رکاوٹ بن گئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بدتمیزی مت سمجھئے گا مگر یہ سچ نہیں کہ آپ کے پی اے کے پولیٹیکل ایجنٹ طورخم لگنے سے جیسے سمدھی کے گورنر لگنے اور بیٹے کے وفاقی وزیر لگنے تک سب سے زیادہ مراعات توآپ کے خاندان نے ہی لیں، بھائی اور داماد نیب سے بھی بچ گئے۔ آپ کو اس وقت عمران خان کے ساتھ چلنے میں سیاسی فائدہ نظر آ رہا ہے مگر بہرحال آپ نے اپنی دس بارہ برس کی جدوجہد پر یوٹرن لے لیا ہے۔ دلوں کے حال رب ہی بہتر جانتا ہے مگر آپ نے جو چال چلی ہے، بصدا حترام، ایک نامناسب چال ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply