چوہدری لیاقت خاموش اور افسردہ تھا۔ اس نے یہ رویے سہے تھے۔ اسے اندازہ تھا پہلے پہل جب آپ ذہنی طور پر ان رویوں کے لیے تیار نہ ہوں توکتنی تکلیف دیتے ہیں۔لوگوں کے حقارت بھرے ان رویوں اور ہزاروں سال سے برصغیر کے واسیوں کی نس نس میں بسے اس ذات پات اور چھوت چھات کے سماج میں بسنے والے لوگوں کے معاشرتی رویوں نے اس پیشے کو گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس معاشرے کی اجتماعی ذہنی کیفیت ایسی کر دی ہے۔ ہزاروں سال پہلے دھرم کے نام پر اس وقت کے مذہبی ٹھیکے داروں نے سماج کی بنیاد ایسی رکھ کرجنہیں شودر اور کمی کمین بنایا آج کی اشرافیہ نے ان کااتنا معاشی استحصال کیا ہے کہ مذہب بدلنے کے بعد بھی مذہبی سے وہ معاشی و معاشرتی شودر ہو گئے۔
ذہنی بیماریوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ پاکستانیوں شہریوں کے نوکر اور پاکستانی شہریوں کی خدمت کا حلف اٹھانے والے بڑے اداروں کے فارغ التحصیل پڑھے لکھے پاکستانی حلف اٹھانے کے بعد شاہوں کی نوکری کرتے کرتے اب نوکر شاہی کہلاتے ہیں۔ وہ سرکاری اشتہاروں میں بڑے دھڑلے سے لکھتے ہیں ہمیں صفائی کے کام کیلیے غیر مسلم چاہیے یعنی وہ مساوات کی تعلیم کی نفی کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی ریاست کو صاف غیر مسلمان ہی رکھیں گے، ہم تو گند ہی ڈالیں گے۔ ہر طرح کااور غیر مسیحی تو یقیناً ایک خاص رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن سفید پوش مسیحی بھی ان خاک نشینوں کے ساتھ حقارت ہی برتتے ہیں بلکہ اصل شرمندگی تو اقبال کے بھائی جیسے لوگوں کو اپنے لوگوں سے ہوتی ہے۔لیاقت بے چینی محسوس کر رہا تھا جب وہ گاؤں میں باپ کے خرچے پرسر پر پگ باندھ کر مونچھوں کو تاؤ دیتا، کندھے پر بندوق لٹکائے گھومتا تھا تو وہ شہر سے جانے والے اپنے غریب رشتہ داروں کو حقارت سے پوچھا کرتا تھا کہ ”ہاں وائی شہر وچ کی کردے او“ (ہاں بھائی شہر میں کیا کرتے ہو؟) تو وہ بیچارے شرمندگی سے بغلیں جھانکنے لگتے اور پھر جان چھڑانے کے لیے کہہ دیتےپاء لیاقت اسی او تھے سکا کم کرنے آں (بھائی لیاقت ہم وہاں خشک کام کرتے ہیں)۔ذات پات کے نظام کے ساتھ ہی برصغیر میں لوگوں کے ذہنوں میں ایسا زہر بھر دیا گیاہے خاص کر صفائی کے کام کو تو ایسی گالی بنا دیا ہے کہ جہاں جن آبادیوں میں اس پیشے سے منسلک زیادہ لوگ بستے ہیں وہاں جو نالیاں گٹر کھولنے کی بجائے کسی دفتر یا گھر میں صفائی کا کام کرتے ہیں وہ اپنی کلاس زرہ بہتر بتانے کے لیے کہتے ہیں ہم (سکا کم) خشک کام کرتے ہیں۔چوہدری اپنی کمینی فطرت کی وجہ سے جب اپنے کسی غریب رشتے دار سے یہ کہلا لیتا تو وہ پھر ایک کمینی مسکراہٹ سے کہتا(اوئے کھیتی باڑی چھڈ کے ایہہ کی کرن لگے او) یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر یہ کیا کر رہے ہو۔پھر باپ کی موت اور چوہدری کی شاہ خرچیوں سیتھوڑی بہت زمین جو باپ کے سلیقے کی وجہ سے بڑا رقبہ لگتی تھی جلدی ہی بکنا شروع ہوئی اور پانچ سالوں میں ہی تمام بک گئی۔ چوہدری کی شادی باپ کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی۔ اب جب بال بچے بھوکے مرنے لگے تو پہلے گاؤں میں محنت مزدوری کی جس سے ظاہر ہے گھر چلنا مشکل تھا۔ پھر کراچی آیا اور بھوک نے جلد ہی ساری چودراہٹ نکال دی۔ اور پھر اس نے بھی کھیتی باڑی چھوڑ کر (سکا کم) خشک کام جو اکثر گیلا بھی ہو جاتا شروع کیا۔ اس لیے اس نے یہ وار سہے بھی تھے اور یہ وار کیے بھی تھے۔ لہٰذا وہ اس موضوع سے کنی کتراتا تھا۔ کبھی جس موضوع پر وہ مزے لے لے کر بات کرتا تھا اب کوئی اس پر سنجیدگی سے بات کرتا تو اسے لگتا جیسے یہ شخص اسے گالیاں دے رہا ہے۔ اسے اپنے آپ پر رحم آنے لگتا اور اس کا دل کرتا وہ دھاڑیں مار مار کرروئے۔ اسی کیفیت میں اسے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے چاچے سے پوچھا چاچا جس بندے نے یہ کتاب لکھی ہے وہ ہمارا بندہ ہے یا تمہارابندہ ہے؟۔۔چاچے نے ہنس کر کہا ”بندے تو سارے رب کے ہی ہوتے ہیں لیکن یہ تمہارا ہی لگتا ہے میں نے اپنے بیٹے سے اس کا گوگل پروفائل نکلوایا تھا“۔ اب لیاقت کو بات بڑھانے کا موقعہ ملا اور اس موضوع پر فرار کی بھی راہ نظر آئی جس پر بات کرکے وہ دونوں بے خبری میں لیاقت کی روح کو کانٹوں پر گھسیٹتے تھے۔ لیاقت نے فوراً کہا ”چاچا آخر کسی نے ہمارے لیے کچھ کیا ورنہ ٹی وی، ریڈیو، اخبار میں تو ان باتوں کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوا“۔ چاچے نے کہا ”اوئے چوہدری اس بندے نے اظہارِ تشکر میں زیادہ تر مسلمان پاکستانیوں کا ہی لکھا ہے جنہوں نے اس کام میں اس کی مدد کی اور تو اور زیادہ کتابیں جس سے اس نے مدد لی ہے وہ بھی مسلمان ادیبوں کی ہی لکھی ہوئی ہیں اور یہ سب کام حکومتی اداروں کی راہنمائی میں معاشرے کے ذرائع ابلاغ نے کرنا ہوتا ہے حکومتی اداروں نے ہمارے لیے کون سی دودھ شہد کی نہریں بہا دی ہیں جو تمہارے لیے نہیں اور رہ گئے ذرائع ابلاغ تو وہ بھی پورے معاشرے کی طرح پیسے کی دوڑ میں ہیں لہٰذا پورا معاشرہ ہی ایک فکری انارکی کا شکار ہے تو بس جس کو جو فوری اپنے فائدے میں نظر آتا ہے وہ ہی کرتا ہے۔ ہاں ایک بات مجھے یاد آ گئی میں نے تمہاری بستی کے ذرا چوہدری ٹائپ بندے سے جب بھی بات کی ہمیشہ ساری محرومیوں مصیبتوں کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر ڈالتے ہو۔ کبھی اپنے گریبانوں میں جھانک لیا کرو۔
”دھرتی جائے کیوں پرائے“ کے باب پاکستان کامسیحی وزیر اعظم سے اقتباس
مارٹن سیموئیل برق ایک عظیم مدبر، سفارت کار، مورخ، استاد جس کی بین الاقوامی شہرت اس کے مرنے پر 9 اکتوبر 2010ء کو وفات پانے کے بعد رجنالڈ میسی کے ذریعے ڈاکٹر عادل انجم، بریگیڈیئر سیمسن سائمن شرف، عارف آزاد کیتک پہنچی ہے۔ بلکہ ساجدہ مومن کا ان کی زندگی کے آخری حصے میں لکھا گیا آرٹیکل بھی ان کی موت کے بعد ہی زیادہ پڑھاگیا۔ پاکستانی نسل اور پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اگر مارٹن پور کے نوجوان بھی اس عظیم پاکستانی سفیر،جج، دانشور، پروفیسر، تاریخ دان، ادیب کے بارے میں نہیں جانتے تو اس کے ذمہ دار مارٹن پور کے مسیحی مذہبی، سماجی و سیاسی کارکنوں کے ساتھ مارٹن سیموئیل برق بھی ہیں۔ ”اگر وہ اس بات کو ذہن میں رکھتے کہ معاشرے کا ہر فرد معاشرے کا مقروض ہوتا ہے چاہے اس نے مفلسی میں جنم لیا ہو یا منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہو اور جن معاشروں میں یہ قرض واپس کرنے کی روایات ہوتی ہے وہ معاشرے زیادہ خوبصورت ہو جاتے ہیں بہ نسبت ان معاشروں کے جن میں یہ قرض واپس کرنے کا رواج نہیں ہے“۔ لہٰذا اگر مارٹن سیموئیل برق مارٹن پور کی اس مٹی کا تھوڑا سا قرض بھی واپس کرتے جس سے ان کا خمیر اٹھا تھاتو بہت سے نہیں تو کئی مارٹن سیموئیل برق اورپیدا ہوتے۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہوتااگر مارٹن سیموئیل برق جیسے دیگر مقامی وہ ہی راستہ اپناتے جو مسیحیت کے اس خطے میں بانیوں نے اپنایااور ان کی فکر سے ان درختوں سے نکلنے والے بیجوں کی اگر مزیدفکر مندی، صبر،محنت اور لگن سے آبیاری ہوتی اور یہ عمل تسلسل سے چلتا تو یہ سایہ دار شجر مسلسل بیج پیدا کرتے رہتے ہیں جن سے ہر دور اور وقت میں نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ لیکن تب ہی ممکن تھا اگر ایس ایم برق جیسے دھرتی سے اپنی نسبت کو اپنی ترجیحات میں جگہ دیتے۔ اور ان ولی صفت بندوں کا پیچھا کرتے انہی کے دیسوں میں پہنچنے کی تگ و دو کی بجائے ان کے فکر، محنت اور صبر سے آباد کئے گئے چمن بھی آباد رکھنے کی کوشش کرتے۔ خیر یہ میرا کتھارسس تو چلتا ہی رہتا ہے۔ آئیں، پڑھیں مارٹن پور کے باسی اپنے اس سپوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
مارٹن پور کے سادہ دیہاتی جنہیں برق صاحب کی بہت ساری کامیابیوں کا تو اندازہ نہیں اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اس گاؤں کا ایک سپوت سفیر بھی رہا۔مارٹن پور کے ایک رہائشی اور خیر الدین برق کے جانشین مارٹن پور اسکول کے ہیڈ ماسٹر تحریک شناخت کے رضا کار اپنے لڑکپن کی یادیں تازہ کرتے ہیں کہ میرے ایک رشتے کے دادا جوزف مل جو کہ 58-1957ء میں قائم مقام اسکول ہیڈ ماسٹر تھے بتاتے ہیں ”کہ1958-1957ء میں برق صاحب نے گاؤں آنا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے برق صاحب کے آبائی گاؤں کو ہنگامی بنیادوں پر مرمت کیا۔ گاؤں میں ہر وقت انتظامیہ کے افسران انتظامات کا جائزہ لینے آتے جس پر گاؤں کے لوگ سالوں اْتراتے رہے۔ فیروز برق بتاتے ہیں کہ میرے تایا ایک دفعہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر 1952ء میں گاؤں آئے تھے۔ یہ شاید پہلی اور آخری بار تھا جب ان کی بیٹیوں نے اپنے والد کا آبائی گاؤں دیکھا۔ اس کے بعد ہم نے کبھی اپنی ان تایا زاد بہنوں کو نہیں دیکھا۔
لیکن بے شک اس عظیم سفارت کار، استاد، مورخ اور سب سے بڑھ کر تحریک شناخت کے لیے روشنی کے ایسے مینار ہیں جن کی روشنی سے محرومیوں کے بیوپاریوں کی بدولت معاشرتی بیگانگی کے مرض میں مبتلا ہو کر معاشرتی بیگانگی کی گھپ اندھیری راہوں میں بھٹکتے نوجوان کے لیے روشنی کے دیے جلا کر ان کے لیے ان کے آباء کی سرزمین پر فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی، معاشرتی، علمی، مذہبی، تہذیبی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔
جاری ہے
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں