• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • علامہ حسن زادہ آملی کے بارے میں غلو کی حقیقت -ڈاکٹر حمید رضا نیاکی/مترجم-حمزہ ابراہیم

علامہ حسن زادہ آملی کے بارے میں غلو کی حقیقت -ڈاکٹر حمید رضا نیاکی/مترجم-حمزہ ابراہیم

(عرضِ مترجم: ڈاکٹر حمید رضا نیاکی کی گفتگو کا یہ ترجمہ علامہ حسن زادہ آملی کی پہلی برسی کی مناسبت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ )
خواتین و حضرات! السلام علیکم، جیسا کہ آپ نے خبروں میں سنا، دو دن پہلے، یعنی 25 ستمبر 2021ء کو،  علامہ  حسن زادہ آملی، ایک نامور شیعہ عالم، مسلم فلسفے اور عرفانِ نظری کے شارح و مدرس، 93 سال کی عمر میں فوت ہو گئے۔ اس موقع پر سمجھتا ہوں کہ ان کے بارے کچھ اہم نکات آپکی خدمت میں پیش کروں۔

پہلا نکتہ، جیسا کہ شروع میں کہا، حسن زادہ آملی، ابنِ عربی کے خیالات والے عرفانِ نظری اور ایرانی مدارس میں رائج مسلم فلسفے کے شارحین میں سے ہیں۔ انکی شہرت و مہارت  فلسفے سے زیادہ عرفانِ نظری میں نمایاں ہے۔ (قدیم) فلسفے میں ابنِ سینا (متوفیٰ1037ء) کی کتابوں شفا اور اشارات، کہ جو فلسفہ مشاء کی دو اہم کتب ہیں، پر انکی تصحیح اور تشریح کی مثال دی جا سکتی ہے۔ یا ابن سینا کی اشارات کے آخری تین ابواب، جو مقاماتِ عارفین کے، میں ہے، کا ترجمہ اور شرح کیا ہے۔ یا فارابی کی کتاب فصوص الحکم، جو ابنِ عربی کی فصوص الحکم کے علاوہ ہے اور فلسفے پر ہے، کا نصوص الحکم کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔ اگر ان تراجم و شروح پر ایک اجمالی نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس راستے میں حسن زادہ آملی صاحب نے بہت محنت اور وقت صَرف   کیا ہے۔ مذکورہ کتب کے علاوہ فلسفے کے مختلف موضوعات پر بھی کتابیں اور رسائل لکھے ہیں۔ البتہ ان میں دوسرے فلسفیوں کی لمبی لمبی عبارتوں کو ہو بہو نقل کر کے صفحات کی تعداد بڑھائی ہے جو تحقیق کے جدید معیارات سے میل نہیں کھاتا۔ (عرضِ مترجم: صرف حوالہ دینا کافی تھا کیونکہ آجکل اصل کتاب آسانی سے مل جاتی ہے۔) یہ انداز انکی اکثر کتابوں میں نمایاں ہے، جو مختلف مذہبی و قدیمی موضوعات پر لکھیں۔ یعنی جب حسن زادہ آملی کی کتابوں کو دیکھیں تو اکثر صفحات نقلِ قول پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ تحریر کی خامی ہوتی ہے، اگرچہ شاید وہ اصل متن سے استناد کی نیت سے ایسا کرتے ہوں۔

عرفانِ نظری میں انہوں نے اس میدان کی بنیادی کتابوں کی تصحیح و تشریح کی ہے۔ ابنِ عربی کی فصوص الحکم پر شرح (ممد الہمم) لکھی ہے۔ شرحِ قیصری پر بھی تعلیقہ لکھا ہے۔ یا مثلاً عرفانِ نظری کی ایک بنیادی کتاب، ابنِ ترکہ کی تمہید القواعد کی شرح لکھی ہے۔ یا جیسے ابن فناری کی مصباح الانس پر ایک تعلیقہ لکھا ہے، جو شاید مکمل شائع نہیں ہوا۔ یہ بعنوانِ مشكاة القدس على مصباح الانس شائع ہوا ہے۔ حسن زادہ آملی نے ان دو شعبوں، کہ جو شیعی مدارس میں چنداں مقبول نہیں، اور دوسرے رائج علومِ دینی، جیسے فقہ، اصولِ فقہ، رجال، ادبیاتِ عرب اور بعض دینی متون کی تفسیر کے علاوہ متروک علوم کی بعض شاخوں پر کام کیا، کہ جو آجکل قدر و قیمت کھو چکے ہیں۔ لیکن حسن زادہ نے کافی توانائی ان چیزوں پر خرچ کی اور فرسودہ علوم مثلاً قدیم ریاضی، قدیم علمِ نجوم اور قدیم طب میں جتنا ممکن تھا مہارت حاصل کی اور کچھ کتابیں لکھیں۔

فرسودہ ریاضیات کے بارے انہوں نے کچھ کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے کچھ کی مثال دوں گا۔ جیسے مانالاؤس کی کتاب اکر مانالاؤس (Sphaerica.Menelaos) اور ثاذوسیوس کی کتاب اکر ثاذوسیوس پر خواجہ نصیر الدین طوسی (متوفیٰ 1274ء) کی شرح کی اصلاح کی۔ ان کتابوں کا موضوع مثلثاتِ کروی، یعنی (spherical.triangles) ہے۔ خواجہ طوسی نے ان پر شرح لکھی تھی۔ مانالاؤس (متوفیٰ 140ء) مصر کے شہر سکندریہ میں رہنے والا ایک یونانی ریاضی دان تھا۔ (عرضِ مترجم: اور خواجہ طوسی کو وفات پائے سات صدیاں ہو چکی ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔) یا مثلاً اکر ثاذوسیوس کہ جسے خواجہ طوسی نے جمع کیا، یونانی ریاضی دان ثاذوسیوس کی جیومیٹری پر ہے اور حسن زادہ آملی نے اس کی تصحیح (editing) کر کے حاشیہ لگایا ہے۔ یا مثلاً حسن زادہ آملی صاحب کی ایک کتاب ہے تصحیح و تعلیق تحریرِ اقلیدس، جو یونانی ریاضی دان اقلیدس (Euclid) کی کتاب (Elements)  کی تصحیح (editing) ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے فرسودہ ریاضی پر خود بھی کچھ کتابچے لکھے ہیں، جیسے رسالہ ظل ہے۔ قدیم ریاضی میں (tangent) کو ظل کہا جاتا تھا، جدید ریاضی کی بعض اصطلاحات ماضی میں کسی اور نام سے استعمال ہوتی تھیں۔ سادہ سے مسائل کے حل کیلئے بہت پیچیدہ کلیے بنائے گئے تھے، جنہیں اب آسان بنا لیا گیا ہے۔  قدیم علمِ نجوم میں بھی حسن زادہ آملی صاحب نے زیج کے بارے میں تحقیق کی ہے۔ زیج ایک ایسے جدول (table) کا نام تھا جس میں مختلف اوقات میں سیاروں، ستاروں اور کواکب کا مقام لکھا جاتا تھا۔ مثلاً انہوں نے شرحِ زیجِ بہادری لکھی، اور شرح بیرجندی بر زیجِ الغ بیگ کی اصلاح (editing) کر کے حاشیہ لگایا۔ متروکہ علمِ نجوم (ancient.astronomy) پر ان کے کام کی یہ کچھ مثالیں تھیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر حسن زادہ آملی کی اس ساری محنت و مشقت پر نظر ڈالی جائے جو انہوں نے فرسودہ ریاضی اور متروکہ علمِ نجوم کو سیکھنے، پڑھانے اور لکھنے میں اٹھائی، تو کچھ لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ حسن زادہ آملی ریاضی اور نجوم میں کوئی بڑی شخصیت ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں بہت سے قصے گھڑے گئے، جوحسن زادہ آملی صاحب کے مریدوں میں مشہور ہیں۔ اس سلسلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ باوجود اس ساری مشقت کے جو انہوں نے متروکہ ریاضی  کو سیکھنے میں اٹھائی، ان چیزوں کی موجودہ علمی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں، اور اگر کوئی ریاضی یا علمِ نجوم کی تاریخ کی طرف مائل ہو تو اس کیلئے ہو سکتا ہے کہ یہ کتابیں دلچسپ ہوں، البتہ یہ کوئی مفید کام نہیں۔ یوں سمجھئے کہ کیا جدید ماہرین‌ِ طبیعیات، جیسے آئن سٹائن، ہائزنبرگ، شوڈنگر، بوہر، پلانک وغیرہ ارسطو کی طبیعیات کو پڑھنا اور اس پر کتاب لکھنا چاہیں گے؟ واضح ہے کہ وہ ایسا (لایعنی کام) نہیں کریں گے۔ کیونکہ جدید فزکس کی ماہیت مکمل طور پر ارسطو کی فزکس سے مختلف ہے۔ قدیم اور جدید علمِ نجوم میں بھی اسی طرح فرق ہے۔ (عرض مترجم: نیوٹن (متوفیٰ1727ء) نے علمِ نجوم اور طبیعیات میں تعلق کو دریافت کیا تھا اور وہاں سے جدید علمِ نجوم کی بنیاد پڑی۔) متروکہ علمِ نجوم کی بہت سی بحثیں جدید ماہرینِ فلکیات کے لئے مضحکہ خیز ہیں۔

ریاضی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جدید ریاضی اور فرسودہ ریاضی بہت حد تک مختلف ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حسن زادہ آملی ریاضی اور علمِ نجوم کے علمی قافلے سے پیچھے رہ گئے تھے۔ بالفاظ دیگر، وہ شروع سے ہی جدید علم کی ٹرین پر سوار نہیں ہوئے اور اس کی بنیادوں سے بھی واقف نہیں تھے۔ انکے مرید اور شاگرد انکے علم نجوم و ریاضی بارے جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، بے بنیاد ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ جعلی فضائل تاریخی مایوسیوں اور ناکامی کا ردِعمل ہیں جو مسلم دنیا میں جدید مغرب کے مقابل پیدا ہونے والے احساسِ کمتری کا نتیجہ ہیں، جو ایک اعتبار سے ہم پر استعماری غلبے کی نفسیاتی باقیات ہیں جن سے خود فریبی (wishful.thinking) جیسا شناختی بحران پیدا ہوا ہے۔ یہ لوگ جیسا خود کو دیکھنا چاہتے ہیں، ویسا ہی خود کو فرض کر لیتے ہیں، کہ گویا ویسے ہی ہیں۔ اور یہی فکری تعصب اس بات کا سبب بنا ہے کہ حسن زادہ آملی صاحب کی ریاضی میں مہارت کی داستانیں بنائی گئیں۔ کہ مثلاً فلاں جگہ ایک یونیورسٹی کے طالب علم سے حسن زادہ کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے اس طالبِ علم کو مشکل سوالات حل کر کے دیئے، اور وہ یونیورسٹی کا لڑکا صوفی بابا کی مہارت سے بہت متاثر ہوا۔ اس قسم کی جھوٹی کہانیاں کہ جو انکے شاگردوں اور مریدوں نے بنائیں، اسی احساسِ کمتری کا اثر لگتی ہیں۔

تیسری بات جو کہنا چاہوں گا یہ ہے کہ اگر ہم جدید انسان کی تعریف یوں کریں کہ وہ جدید دور میں زندگی گزارتا ہے اور اپنی عقل کو استعمال کرتا ہے، تو اس اعتبار سے حسن زادہ ایک عقب ماندہ شخص ہیں۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ حتیٰ اپنے علمی سفر میں قدیم اور جدید دور کے سنگم پر بھی نہیں پہنچ پائے ہیں۔ انہوں نے جدید دنیا کے سوالات کا سامنا تک نہیں کیا۔ یہ ان کی کوئی خوبی شمار نہیں ہو سکتی۔

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ انکے شاگردوں نے ان کی کچھ کرامات جیسے چشمِ برزخی رکھنا، طے الارض کرنا وغیرہ، مشہور کی ہیں۔ حتیٰ خود حسن زادہ آملی نے اپنی کتابوں جیسے انسان در عرف عرفان، یا ہزار و یک کلمہ، میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان سنی سنائی باتوں کی تائید یا تردید کا ہمارے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے۔ حتیٰ حسن زادہ آملی کے مریدوں کیلئے بھی ان کی تصدیق کرنا ناممکن ہے، کیونکہ یہ دعاوی شخصی (private) ہوتے ہیں اور کوئی بین الاذہانی معاملہ نہیں ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی پڑھیے: ملا صدرا کے خیالات کی فرسودگی

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply