ہم اور ہماری ’’ب ‘‘ بولی۔۔۔ کبیر خان

ہم اور ہماری ’’ب ‘‘ بولی۔۔۔ کبیر خان/ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے۔۔ مقبول بس،طارق ٹرانسپورٹ اور ڈسٹرکٹ بس سروس کی ’’دھکّے جوگی‘‘گاڑیاں جونہی کوہالہ یا آزاد پتن پُل عبور کرتیں، فرنٹ اور سیکنڈ سیٹ والے معتبر پسنجر درکنار ، بِنڈے سے جنگلے اور ترپال تک کی سواریاں ’’اُڑدُو‘‘میں’’ پشتوُ مارنے ‘‘ لگتیں ۔
’’پوہڑیوں والے پُل کے اُپروُں مونہہ نالہ لئی کی طرف کرکے لال کُڑتی کے پاسے ڈھلیں تو سامنے کوئی نہ کوئی ٹانگے والاخیر منگتا ملتا ہے۔ جغا جغا سواریوں سے دھکّے مروا کر کھڈے ٹاپنے کے بوجود راجے بزار میں مُنشی کی سراں تک ہر سواری سے پوری دوآنی لیتا ہے۔۔۔ دھیلا کم نہ پینسہ اُپّر۔ حالے کہ دو چھتّی بس کے خاکی والے ٹِکّس چیکربستہ چھنکا کے سلاماں باد سیں ماسی گیڈ تیکر چھے پینسے لیتے ہیں ۔ نصف جس کا ایک اوپر دو ہوتا ہے۔ ایدھر پیر اُستاذ کی قسمے انّی مچی ہوئی ہے۔ ادّھے سے زیادہ رستہ ٹانگہ سواریوں پر سوار رہتا ہے ، اُپروں مظہر شاہیاں کرتے ٹانگے بان یہ لمیاں لمیاں شمیم آرائیاں چھوڑتے ہیں۔۔۔۔
تُو سد کے دیکھ ، میں نسنی ایساں
جے جُتّی لاساں تے کافر آخیاں۔۔ ‘‘

’’اُڑدوں‘‘ میں ’’پشتو مارنے‘‘ کی روایت سڑکوں اور ’’بٹّوں کی راہوں‘‘ پر ہی نہیں ، جلسہ گاہوں میں بھی پائی جاتی تھی:
’’ زنابے صَدُر ! یہ گاذیوں اور مزائدوں کی دھرتی ہے ۔ یہاں کے لوکوں نے ڈوغرہ ملٹّری کو نسا نسا اورہفا ہفا کر مارا ہے۔ جس تھاں پراس ویلے زناب رونق ہفت روج ہیں ،ٹھیک اسی جگہ ابّے ہوروں نے کاہن سنگھ کو جپھّی دے کر دھوڑ چٹائی تھی۔ کاہن سنگھ اپنے آپ کو بڑا گِرداول سمجھتا تھا۔ لگ پتہ گیا جد سائیاں نے یا ایلی کہہ کر جانگھوں میں سِر دیا اور گھڑی نِیس میں سرکار ہیٹھ ،رعایا اُپّر تھی۔ باقی آپ خود سیانے بیانے ہیں‘‘۔

یہ ’’اُڑدوں‘‘ تھی یا ’’دیسی‘‘(پہاڑی) ؟اس کا فیصلہ قارئین کرام کریں ۔ ہمیں تو یہ سب ماں بولیوں کے عالمی دن کے موقع پر اُس وقت یاد آیا جب پونچھی پہاڑی بولی کے دو پُرجوش مبلّغ سوشل میڈیا پر مخصوص لِجلِجے لہجے میں ’’اپنے اپنے پاسے‘‘کی پہاڑی کو اصل پہاڑی بولی قراردے رہے تھے :
’’کیا بات کرتے ہیں۔۔۔ آپ کے پاسے گالی گائی جاتی ہے، ہمارے پاسے دی جاتی ہے۔ ہمارے پاسے باٹ گھوٹتے ہیں ، آپ کی طرف ’’گھُٹتے‘‘ ہیں ۔ ہمارے پاسے شرم پردے والیاں بہت ہوا تو ’’اِشّ آئی اے‘‘کہہ کر اپنا ’’گَڑ چھنڈ‘‘ لیتی ہیں ، اُدھر کی بیبیاں جب تک ساتھ میں وچکارلی انگلی کا کنایہ کھڑا نہ کریں ، اُن کی تسلّی نہیں ہوتی ۔اسی طرح ہمارے پاسے ’’چہبّل‘‘ مارتے ہیں ،آپ کے وہاں ’’چبّل‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

اس پر ہمیں مشتاق احمد یوسفی بے طرح یاد آئے۔ ایک مقام پر اُردو اور ہندی کا تقابل کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
(بھارت میں)’’ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مار پیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب! بقول شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ تو اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔۔ ‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے ہاں دو طبقے پائے جاتے ہیں ۔ پہلا وہ ، پہاڑی جس کی ماں بولی ہے اور دوسرا وہ جس کی منہ بولی ہے۔ اوّل الزکر اسے دین دھرم کی طرح مانے ہوئے ہے۔  بے سوچے ،بے سمجھے۔اور ثانی الذکر رواج کی طرح اپنائے ہوئے ہے۔  بے سوچے، بے سمجھے۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں دین دھرم میں ’’ہتھّ پال‘‘ اختراعوں کی بڑی گنجائش ہے ۔ آپ چاہیں تو جس درخت کے تنے پر آوارہ کُتّے مثانے کا لوڈ ہلکا کرتے ہیں،اُس کی شاخ پر ’’ٹہلّ‘‘(رنگین چِندی) لٹکا کر اُسے پیڑ سے ’’پہنچا ہوا پِیر‘‘بنا سکتے ہیں۔ سالانہ عُرس شریف بپا کر سکتے ہیں ۔ چاہیں تو چندے کی صندوقچی رکھ کر پیر کا دربار شریف بھی گاڑھ سکتے ہیں ۔ یوں خالصہ سرکار ہو چاہے کسی یتیم کی حق اسامی،آپ نسل در نسل اس شجرِ ثمر بار سے ثمر بار ہوسکتے ہیں ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں دِین اور رواج کہیں بھی جڑ پکڑ سکتے ہیں ۔ چنانچہ کوئی بھی،کبھی بھی بولی کے ساتھ ہولی کھیل سکتا ہے۔ بس اتنا ہے کہ اب عالمی سطح پر ماں بولیوں کی اہمیت کو مانا جانے لگا ہے۔ محققین کا اس امر پر اجماع امّت پایا جاتا ہے کہ بچّے کی ابتدائی تعلیم و تربیت ماں بولی میں ہو نی چاہیئے۔ ہمارے ہاں موڈرن گھرانوں میں دودھ پیتے بچّے کو پہاڑی لہجے میں ’’ٹونکل ٹونکل لِٹل اسٹار‘‘کی لوری سنائی جاتی ہے۔ جس کی طرز سُن کرروتا چلّاتا ’’بے بی‘‘سہم جاتا ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ بچّہ ہماری ’’انگریزی لوری‘‘سمجھتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply