• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)ہنزہ/ مصری بانو سے ملنا۔ ہنزائی بڈھوں سے ذرا تُوتُو میں میں/ التت اور بلتت/سلمیٰ اعوان(قسط11-الف)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)ہنزہ/ مصری بانو سے ملنا۔ ہنزائی بڈھوں سے ذرا تُوتُو میں میں/ التت اور بلتت/سلمیٰ اعوان(قسط11-الف)

علی مدد اور ہنزہ ان دو ناموں سے میرے کان پہلی بار ۱۹۵۸ء کی اس ٹھنڈی شب کو آشنا ہوئے تھے۔ جب میرے ماموں علی حسن غضنفر نے بڑے کمرے میں رضائیوں اور کمبلوں میں لپٹے افراد خانہ کے درمیان ان خوبانیوں کو تقسیم کیا تھا جن کی اندرونی گٹھلی نکال کر انہیں چوڑا کر کے درمیان میں بادام کی گری رکھنے اور اس پر ایک اور خوبانی کی تہہ جمانے کے بعد انہیں خشک کیا گیا تھا۔
یہ تحفہ اُن کا بے حد وفادار ملازم علی مدد ہنزہ سے لایا تھا جسے وہ رخصت پر نیچے آتے ہوئے اپنے ساتھ لے آئے تھے اور اب اہل خانہ کو بھی علی مدد اور ا س کے آبائی گاؤں ہنزہ کے بارے میں بتا رہے تھے۔ پہاڑوں ‘جھرنوں ‘گلیشروں اور لوگوں کی ایسی پر تحیّر باتیں تھیں کہ کسی الف لیلوی داستان کا گمان گزرتاتھا۔

اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اتنا قریب آکر اس وادی کو دیکھنے نہ جاتی جس کے بارے میں اس شب سنتے سنتے میں نے اس کے بے شمار تصوراتی خاکے اور شکلیں بنا ڈالی تھیں۔ وہ شکلیں وہ خاکے کہیں میرے لاشعور میں محفوظ تھے۔

مجھے بچوں کی ہڑک اٹھی تھی۔ انجانے وسوسوں اور اندیشوں نے میرے دل کو بوٹیوں میں کاٹنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پر میں نے سب کچھ اللہ کے توکل پر چھوڑتے ہوئے اپنے آپ سے کہا تھا۔
‘‘ہنزہ تو ہر صورت جانا ہی ہے۔’’
لیکن پریشانی یہ تھی کہ ہنزہ میں کوئی واقف فیملی نہ تھی اور تن تنہا کسی ہوٹل میں رات گزارنا گویا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے والی بات تھی۔ پر یہ بھی تو تھا کہ گزشتہ ہفتہ بھر سے میں ہر روز اپنے آپ کو نت نئے تجربے میں سے گزار رہی تھی۔
‘‘یہ تجربہ بھی سہی۔ میں نے دل کو تسلی دی۔ خدا مسبب الاسباب ہے۔ ’’
ہنزہ جانے کے لئے اڈے پر پہنچی تو ایک عمر رسید ڈرائیور کو اپنی نئی نویلی گاڑی کا شیشہ صاف کرتے ہوئے پایا۔ صفائی کچھ اس دلار سے ہو رہی تھی جس دلار سے ماں اپنے بچے کو چمکاتی دمکاتی ہے۔ میرے استفسار پر کہ ہنزہ جانا ہے اس نے ہاتھ روک کر مجھے دیکھا اور پوچھا۔
‘‘اکیلی ہیں کیا؟’’
میں نے جواب میں ‘‘ہاں’’ کہا تھا۔
‘‘میں دراصل ایک ہوٹل والے کا سامان لے جا رہا ہوں۔ جگہ تو ہے مگر گاڑی اس نے بک کی ہوئی ہے۔’’
‘‘جگہ ہے تو مجھے بٹھا لینے میں کیا ہرج ہے’’۔
‘‘کوئی ہرج نہیں ہم آپ کو لے چلیں گے۔ عقب سے ایک نحیف سی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ میں فی الفور گھومی اور دیکھا۔ ساٹھ ستّر کے ہیر پھیر میں جو مرد مجھے نظر آیا تھا وہ قامت اور صحت کے اعتبار سے قابل رشک تھا۔
میں نے فی الفور شکریہ ادا کیا۔ مگر کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ گو دونوں کے ساتھ قبر میں پاؤں لٹکانے والی صورت حال تو ہرگز نہیں ہے۔ ویسے کناروں پر ضرور بیٹھے ہیں کہیں ایسا نہ ہو اپنے ساتھ میرا بھی پٹڑہ کر دیں۔ میرے شعور کے کسی گوشے میں یہ بات برسوں سے گڑی ہوئی تھی کہ سفر ہمیشہ زیادہ لوگوں کی ہمراہی میں کرنا چاہیے۔ بسا اوقات کوئی اللہ کا نیک بندہ بہت سے اوروں کی بھی سلامتی کا ضامن بن جاتا ہے۔
مجھے اپنے اس خدشے کے بھونڈے پن کا احساس بہت جلد ہو گیا۔
‘‘بھلا میں نے زندگی اور سلامتی کا کوئی پٹہ لکھوایا ہوا ہے’’۔
بہرحال دو بوڑھوں کی ہمراہی میں سفر شروع ہوا۔ یہ بوڑھے ایسے باتونی ‘ایسے چرب زبان ایسے گالڑی کہ ہنزہ تک ان کی زبانیں تالو سے نہ لگیں۔ ہر مقام اور ہر بستی کی نشان دہی کرتے گئے۔ جٹیال کے بارے میں بتایا کہ بیشتر رآبادی ہنزہ کے لوگوں کی ہے۔ لوگ پہلے زمین نہیں خریدتے تھے۔ اب کال پڑ گیا ہے۔ پچھتر فی صد فوجی ہیں۔

دینور کی درختوں سے گھری وادی گزر گئی۔ سلطان آباد بھی خالص ہنزہ والوں کی بستی ہے۔ یہاں سے آگے بنجر پہاڑ شروع ہوئے۔ سبزہ ختم تھا۔ دریائے ہنزہ چھوٹی سی نانی کی صورت میں بہہ رہا تھا۔ شاہرہ ریشم کی کشادگی اور پختگی نے راستے کی دشوار گزاری کو نسبتاً بہت کم کر دیا ہے۔ دریا پار پرانی سڑک کچھ یوں نظر آتی تھی جیسے پہاڑوں کے جگر کو تیز دھار کا کوئی آلہ ایک سیدھ میں چیرتا ہوا چلا گیا ہو۔

رحیم آبا دمیں انہوں نے گاڑی روکی اور مجھے علی شاہ کا کس کی مشہور خوبانیاں کھلائیں۔ ایسی لذیذ اور ذائقہ دار کہ منہ میں رکھو اور گھلتی ہوئی پل میں عین حلق سے نیچے۔

رحیم آباد اور گلگت کے درمیان چوبیس میل کا فاصلہ ہے۔ ایک چھوٹا سا ہوٹل جہاں کھانے اور چائے کا انتظام ہے۔ تمام گاڑیاں یہاں آکر چائے پانی کے لئے رکتی ہیں۔ وہ دونوں تو چائے پینے بیٹھ گئے ہیں میں اِدھر اُدھر گھومنے نکل پڑی۔ خوبانیاں درختوں کے نیچے یوں بکھری پڑی تھیں جیسے کسی بچی کا پیارا سا موتیوں کا ہار ٹوٹ کر بکھر گیا ہو۔ سڑک پار چشمے کا پانی شور مچاتا شوخ گیت گاتا چھوٹی سی ندی میں بہہ رہا تھا۔ ٹھنڈا میٹھا پانی جسے پی کر فرحت اور تازگی کا احساس ملا۔

رحیم آباد کی زمین میر آف ہنزہ کی جائیداد ہے۔ سڑک کے ساتھ چند گھر تھے۔ میں جس گھر میں داخل ہوئی وہ گری خان اور مصری بانو کا تھا۔
کشادہ آنگن میں خوبانیوں اور سیب کے پیڑوں تلے بیٹھی مصری بانو بچے کو پنگھوڑے میں سلا رہی تھی۔ اخروٹ کی قیمتی لکڑی سے بنا ہوا یہ پنگھوڑا عجب ساخت کا تھا۔ باہر مرد کھیتوں میں گندم کے گٹھے اکٹھے کر رہے تھے۔ گواچی کی پہاڑیوں پر جمی برف نالوں کی صورت میں بہتی دکھائی دیتی تھی۔ دریائے ہنزہ کا پاٹ یہاں بہت چوڑا تھا۔ وادی چھلت دریا کے پار تھی۔ عظیم الشان راکا پوشی پہاڑ کی خوبصورت اور پروقار بلند چوٹی کا منظر یہاں سے نظر آتا ہے۔

خضر آباد میں پہاڑ ایسے لگے جیسے شیش محل کی دیواریں ہوں۔ سکندر پل سے آگے دریا کے دائیں طرف نگر اور بائیں طرف ہنزہ ہے۔ سکندر آبا دکے عین اوپر راکا پوشی دنیا کی آٹھویں بڑی چوٹی ۷۷۸۸ میٹر بلند برف سے ڈھنپی مسکراتی تھی۔ سکندر آبا دکی زمین کیا تھی؟ آرٹ بکھرا پڑا تھا۔ گندم کی سنہری فصلیں ‘سبزے کے قالین ‘چھوٹے چھوٹے کھیت ‘شاہ بلوط کے جھنڈ اور ان میں گھر چھوٹے چھوٹے مکان۔
اردگرد کے نظاروں سے مخطوظ ہونے کے ساتھ ساتھ میں ان دونوں بوڑھوں سے بھی باتیں کئے جاتی تھی جب دفعتاً ایک نے پوچھا۔
‘‘عمر کتنی ہو گی آپ؟’’
یہ سوال بڑا تیکھا اور چبھنے والا ہے کہ کوئی بھی خاتون خواہ وہ سچ گوئی کی کتنی بڑی دعویٰ دار کیوں نہ ہو اس سلسلے میں ضرور ڈنڈی ما ر جاتی ہے۔ چار پانچ سال کا ہیر پھیر تو میرے جیسی بھی سدا ہی کرتی ہے پر پتہ نہیں اس خالص لمحے میں سچ کا کوئی جن مجھے چمٹ گیا تھا۔ جس نے ماہ چھوڑ دن کی بھی ہیرا پھیری نہیں کرنے دی۔ میرے جواب دینے پر اسی بوڑھے نے بغور میرے چہرے کو دیکھا اور قطعیت سے کہا۔
‘‘نہیں بھئی۔ اتنی عمر نہیں ہے آپ کی’’۔
مجھے عجب سی خوشی کا احساس ہوا۔ شاید ہر عورت کے اندر کم عمر نظر آنے کا فطری رجحان ہوتا ہے۔ اسی لئے میں نے اشتیاق سے پوچھا۔
‘‘آپ کے خیال میں کتنی ہو سکتی ہے’’؟
بھئی آپ پینتالیس سے کم تو ہرگز نہیں۔
میرے تن بدن  میں جیسے آگ لگ گئی۔ جی چاہا گردن سے پکڑ کر سڑک پر پھینک دوں۔ ‘‘کمبخت کہیں کا’’۔ یہ درست تھا کہ میں نے اپنا حلیہ بگاڑا ہوا تھا۔ بال سفید ہو رہے تھے۔ انہیں رنگا نہیں تھا۔ موٹی سی چادر سے سر کو ڈھانپا ہوا تھا۔ چہرے پر کوئی لیپا پوتی نہیں تھی۔ پر اب اس کا یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ میں اپنی عمر سے نوسال بڑی نظر آؤں۔
مجھے شدید قسم کی چُبھن ہو رہی تھی۔ سچ بھی بولا اور جھوٹی بھی بنی۔
پر میں بھی اول درجے کی کمینی ہوں۔ اب اس کی عمر کا پوچھ بیٹھی۔ جاننے پر اتنا ہنسی کہ آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔
‘‘آپ سمجھتی ہیں میں پچاس سال کا نہیں’’۔ قدرے خفگی سے کہا گیا۔
‘‘ارے بھئی آپ کہاں پھرتے ہیں؟ کسی طوربھی ستر بہتر سے کم نہیں’’
میں نے بھی اپنے پھپھولے پھوڑ دئیے تھے۔
‘‘آپ نے بہت غلط انداز ہ لگایا ہے’’۔ وہ غصے سے بولا۔
‘‘واہ غلط کیسے ہے؟ آپ کی گردن کی لکیریں ہاتھوں کی بیرونی سطح اور آنکھوں کے گرد پیدا شدہ لکیریں سب بول رہی ہیں۔ آپ نے کیا مجھے احمق اور گاؤدی سمجھاہے؟
‘‘دیکھئے خاتون آپ زیادتی کر رہی ہیں’’۔
بیچارا تلملا رہا تھا۔ میں نے محظوظ ہوتے ہوئے ڈرائیور کی طرف دیکھا۔ وہ بھی ہماری اس نوک جھونک سے لطف اٹھا رہا تھا۔
جب تکرار بڑھی میں نے دونوں ہاتھ اس کی طرف جوڑ دئیے۔
‘‘ارے بھائی کوئی بیاہ رچانا ہے ہم نے۔ چلو ستر کے نہیں پچاس کے سہی۔ اب تو خوش ہیں نا’’۔
بعض مردوں کو بھی عورتوں کی طرح کم عمر بننے کا کتنا خبط ہوتا ہے۔ میں نے سوچا۔
دریا کے دائیں ہاتھ ٹنگ داس آباد ہے۔ یہ تھول کی وادی۔ ہم گلگت سے چھیالیس میل کے فاصلے پر ہیں۔ ہندی پل دیکھئے انجینئرنگ کا بہترین شاہکار پل۔ یہاں سے نگر چھٹ گیا اور ہم ہنزہ میں داخل ہو گئے ہیں اور یہ ہندی کی خوبصورت وادی۔ ‘‘ہاں ایک لوک کہانی اس وادی۔ سے متعلق سنیں گی!’’

میرا بوڑھا ہم سفر جس کے ساتھ ابھی ابھی میری خوشگوار سی جھڑپ ہوئی تھی۔ میری طرف متوجہ تھا۔ ‘‘ارے کیوں نہیں’’ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ یہ سب سننے کے لیے ہی تو پینڈا مار رہی ہوں۔
ایک بار وادء ی ہندی کے بارہ مہم جوؤں کی ایک پارٹی سونا نکالنے کے لئے گنش کے پار جزیرے میں پہنچی۔ قسمت مہربان تھی۔ خوب سونا نکل رہا تھا۔ سارا سارا دن وہ ریت چھانتے سونے کی ڈلیاں اکٹھی کرتے اور خوش ہوتے۔ اچانک ایک دن شدید طغیانی آئی اور سونے والوں کا راستہ پانی کی نذر ہو گیا۔ انہیں کچھ سمجھ نہ آتی تھی کہ اب کیا کریں۔ وہ اب فاقہ کشی کی نوبت تک پہنچ رہے تھے۔
پارٹی میں بھبوتن نامی ایک شخص نے رائے دی کہ دو دو آدمیوں میں کشتی کروائی جائے جو ہار جائے اسے غذا بنا لیا جائے۔ گیارہ سونے والے جب اسی طرح ایک دوسرے کی خوراک بن گئے تو آخری آدمی بھبوتن تھا۔ اس دوران جزیرے کا پانی اتر چکا تھا۔ بھبوتن انسانی خوراک کی تلاش میں حسن آباد کے اس پہاڑ پر آیا جہاں سور تو گڈریا اپنے ریوڑ کے ساتھ رہتا تھا۔ بھبوتن جب پہاڑی پر پہنچا۔اس نے دیکھا کہ باڑے کا دروازہ مضبوط اور تنگ ہے۔ وہ باہر بیٹھ کر سور تو کا انتظار کرنے لگا۔ سورتو بھی خطرہ بھانپ گیا۔ اس نے چمڑے کے مشکیزے میں لسی بھری چھوٹا سا اس میں سوراخ کیا۔ اسے چھت سے لٹکایا۔ نیچے لکڑی کا تھال اور چمچ رکھا۔ جب قطرہ گرتا آواز پیدا ہوتی سور تو چلاتا شہ کھپن شہ (یعنی کھاؤ چمچ کھاؤ) چلانے کے ساتھ ساتھ وہ عقبی دیوار سے پتھر اکھیڑ کر باہر نکلنے کا راستہ بھی بناتا رہا اور جب پوپھٹ رہی تھی سور تو باہر نکل کر گاؤں کی طرف بھاگا۔ وہ خوشی سے چلاتا جا رہا تھا۔ بھبوتن اس کے پیچھے لپکا۔ گاؤں کے لوگ بھی اسے دیکھ کر مارنے دوڑے بھبوتن ایک درخت کی کھوہ میں جا چھپا۔ لوگوں نے اسے آگ لگا دی۔ آج بھی جب ہندی میں طوفان آتے ہیں تو بھبوتن کی یاد دلاتے ہیں۔
ڈرائیور نے گئیر بدلتے ہوئے کہا۔
‘‘بس عام سی کہانی ہے۔ مائیں راتوں کو اپنے بچوں کو سناتی ہیں’’۔

‘‘یہ عام سی کہانیاں ہی ہماری ثقافتی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ میں نے ہواؤں میں خنکی کی لطیف لہروں اور ان میں رچی بسی شفتالو’ خوبانیوں اور سیبوں کی خوشبو کو اپنے نتھنوں میں گھسیڑتے ہوئے کہا تھا۔
ہندی میں خاصی آبادی ہے۔ اب فضا میں گندھک کی بو محسوس ہوئی۔ مرتضیٰ آباد’ حسین آباد’ علی آباد یہ ہنزہ کا میدانی علاقہ ہے۔ سڑک کے چکر اب کم ہو رہے تھے۔ زمرد اور یاقوت کی کانوں کا باہر سے نظارہ کیا۔
قیمتی پتھر نکالنے کا کام بند پڑا تھا۔
‘‘کیوں؟’’
میں نے جاننا چاہا تھا۔
‘‘حکومت کی تحویل میں آنے کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ شاید کوئی فنی مسائل ہوں’’۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply