سردی کا موسم اور پاکستانی شادیاں/اظہر حسین بھٹی

پاکستان دنیا کے خاندان کی وہ واحد پھڈے باز پھوپھو ہے جو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے سے کبھی باز نہیں آتی۔
پاکستانیوں کا لیول ہی کچھ اور ہے۔ ایسی قوم دنیا میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔ اِس قوم کی خیر سے ہر بات ہی نرالی ہے لیکن خیر باقی چیزوں پہ مٹی ڈالو صرف شادیوں کی بابت ہی بات چیت کریں تو پتہ چلتا ہے کہ،رشتہ دیکھنا اس قوم کے نزدیک دنیا کا سب سے ویہلا مگر پُرلطف کام ہوتا ہے۔ یعنی صرف ایک لڑکی دیکھنے جانے کے لیے پورا ٹبّر تیار ہوا ہوتا ہے اور لڑکی بھی انہیں ریڈی میڈ نہیں بلکہ آرڈر پہ تیار کی ہوئی چاہیے ہوتی ہے۔
ناک لمبی، زیادہ موٹی، تیکھی، باریک ،سیدھی یا ٹیڑھی میڈھی نہیں ہونی چاہیے۔۔اگر ناک ہو ہی نہ تو زیادہ اچھا ہے کیونکہ ناک نہ ہونے سے بےعزتی کرنے کا زیادہ مزہ آتا ہے۔
رنگ کالا،سانولا،میلا کچیلا،زیادہ صاف، داغ دھبوں سے بچا ہوا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ زیادہ بھری ہوئی، وزنی موٹی یا زیادہ پتلی والی بھی نہیں چاہیے۔
خیر انہیں چھوڑیں ۔۔۔یہ تو چلتا ہی رہے گا ، ہم آگے بڑھتے ہیں۔
بات طے ہو جائے تو کارڑ بنوانے کا آرڈر دے دیا جاتا ہے۔ جب کارڈ کسی رشتہ دار کو بھیج دیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ اس کی کیا ضرورت تھی،تکلف ہی کیا ہے۔ کال کر لیتے اور اگر کال کر دو تو کہتے ہیں کہ فون ہی کیا ہے ، اب ہم نے شادی پر جانا ہی نہیں ہے۔

اللہ اللہ کر کے شادی کا دن آتا ہے تو رشتے داروں کے پورے کے پورے خاندان اپنے سب سے چھوٹے بچے سے لیکر آخری دموں پہ پہنچے بزرگ سمیت آ دھمکتے ہیں جبکہ کچھ خاندانوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ایک آدمی گھر کی رکھوالی کے لیے گھر ہی چھوڑ آتے ہیں اور پھر دلہے یا دلہن کی ماں یا والد سے یہ کہہ کر نان سالن پیک کروا لیا جاتا ہے کہ دادا چِھیکا گھر پہ اکیلا ہے اور اُسے یہ سالن بڑا اچھا لگتا ہے تو یہ دیگچی فُل بھر دیں ذرا۔

میک اپ سے لدی عورتیں شادی ہال میں جب تک روٹی کُھل نہیں جاتی تب تک جیلسی پن کی باتیں اور غیبت کرتی نظر آتی ہیں۔ روٹی کُھل جائے تو ہر دو میں سے ایک عورت سالن ڈالنے والی کو یہی کہتی ہے کہ “نی مینوں پَٹ آلی بوٹی پا کے دے” ۔ صرف ایک نان پکڑتی ہیں اور اُس پر بوٹیاں رکھ رکھ کے کھاتی ہیں تاکہ لوگوں کو یہی لگے کہ ساتھ نان بھی کھایا جا رہا ہے جبکہ پیٹ کے اندر صرف بوٹیاں ہی بوٹیاں جا رہی ہوتی ہیں۔

کھانے کے دوران کچھ عورتیں سالن کو ساتھ لائے وڈے وڈے شاپرز میں بھی چوری کر کے ڈالتی ہیں اور پھر فری ہونے کے بعد کھانے کے ذائقے کے متعلق تبصرے کیے جاتے ہیں کہ نمک کم تھا، شوربہ ہی شوربہ تھا، بوٹی کچی رہ گئی تھی یا نان جلے ہوئے تھے وغیرہ وغیرہ۔

پھر نیوندرہ کھانے کے ذائقے اور مہیا کردہ qty کے حساب سے دیا جاتا ہے۔ اگر نیوندرہ 5000 دینے کی نیت سے آئے ہوں اور کھانا کم ملے تو بات 1000 تک بھی چلی جاتی ہے۔

شادیوں پہ آپ کو شوہر حضرات بچے پکڑے شادی ہال کے باہر کھڑے نظر آتے ہیں۔ بچوں کی ناک بہہ رہی ہوتی ہے ،مما مما کی رَٹ لگائے رو رہے ہوتے ہیں لیکن باپ بیچارے بحالتِ مجبوری اُنہیں مما کے پاس تب تک نہیں لیجا سکتے کہ جب تک وہ اچھی طرح سے پیٹ پوجا نہیں کر لیتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں شادی کے فنکشن سے فارغ ہونے کے بعد جب میاں بیوی گھر پہنچتے ہیں تو بیوی کہتی ہے کہ منہ کا ذائقہ ذرا میٹھا کرنا ہے آپ باہر سے سوہن حلوہ یا گجریلا تو لے آئیں یا چائے بنانے کا آرڈر دے دیا جاتا ہے اور شوہر بیچارہ منہ بسورے کسی ایک چیز کا حکم بجا لاتا ہے۔
ہاں شادی ہو جانے کے بعد شادی شدہ جوڑے کے ساتھ کیا کیا حالات پیش آتے ہیں وہاں راوی خاموش ہے۔
جہاں رہیں خوش رہیں۔ شادیوں کا موسم ہے تو خوب شادیاں کھائیں۔ ہمیں دیجیے اجازت۔ رب راکھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply