امریکی قبائل کی تخلیقی داستان -(1) Earthmaker/احمر نعمان

دو برس قبل تخلیق کی ہندوستانی داستان یعنی سناتل اقوام کی ٹھاکر جیو کی کرم بنتی یہاں لکھی؛ کچھ عرصہ بعد بھارت میں اسی قبیلہ کی ایک خاتون صدر منتخب ہو گئیں ۔ آج ایک مقامی امریکی قبیلہ کی تخلیقی داستان پیش خدمت ہے، اگلا امریکی صدراب قبائل سے منتخب ہوتو لطف آ جائے۔ کچھ تمہید مگر ضروری ہے۔

بہت سال قبل پڑھنے کا شوق ہوا، کُل وقتی نوکری اورچھوٹے بچوں کے ساتھ مشکل تو تھا مگرمقامی یونیورسٹی کی شام کی کلاسز میں داخلہ لے ہی لیا۔ ایک دن چھٹی کے بعد بھاگم بھاگ شام کی کلاس لینے پہنچا توسامنے ہی کےایف سی والے بابا جی جیسے ایک محترم سوفٹ وئیر ڈیزائن پیٹرن پر بورنگ لیکچر دے رہے تھے، علم کتابی تھا، حقیقت سے بہت دور، کلاس اونگھ رہی تھی۔ جمائیاں آنے لگیں، انکل نے برا مناتے ہوئے بلا لیا، مجھے یقین ہے آپ بہت تھکے ہارے ہیں، مگر بہتر ہے یہاں آ کر اپنا تعارف کرا دیں اسی بہانے نیند کم ہو جائے گی۔ ڈائس پر جا کر تعارف کرایا اور بتایا کہ یہ جو پڑھا رہے ہیں بس یہی کچھ میں ابھی کر کے آ رہا ہوں، بابا جی کی آنکھوں میں دلچسپی آئی، انہوں نے کہا کہ بس اب تم ہی پڑھاؤ  جو آج کر کے آ رہے ہو۔

میں ٹھہرا پرانا استاد جو ہمارے ہاں ہوتے ہی گولی باز ہیں،ان کی پریزنٹیشن بند کی، اور بورڈ پر جا کر مارکر پکڑ کرسمجھانا شروع کر دیا، کہ ہم یہ پیٹرن عملی ڈیزائن اوراس کی امپلی منٹیشن/ پروگرامنگ میں کیسے استعمال کرتے ہیں، پانچ منٹ میں کلاس میں جیسے پن ڈراپ سائلنس ہو گیا۔ کچھ عملی مثالیں دیں جو نئے بچوں کے لیے الگ ہی دنیا تھِی۔ بابا جی کچھ متاثر ہوئے اور کچھ اپنی جان چھڑاتے کہا کہ آج سے یہی حضرت آپ کو پڑھایا کریں گے،اس دن کے بعد کلاس میں نے ہی لی اور شاید تیسرے لیکچر میں باہر کے لوگ پیچھے کھڑے ہو کر نوٹس لے رہے تھے۔ وہاں معروف ہو گیا ورنہ وہ نہ ہوتا جو آگے چل کر ہوا، وہ تفصیل پھرسہی۔

ایک دن یونیورسٹی میں ایک خاتون نے راستہ روک لیا، انہوں نے ایک لمبا چوغہ پہن رکھا تھا، حلیہ سے نہ وہ افرنگ معلوم ہوتی تھیں، نہ بھارتی اور نہ ہی میکسیکن۔ اس کلاس میں تاجک، ازبک اور نیپالی بھی تھے، میری کوآرڈینٹر نیپالی تھیں مجھے لگا شاید انہی کے علاقہ کی ہوں، مگر انہوں نے تعارف کرایا کہ وہ یہاں پڑھاتی ہیں اور میری تعریف سن کر آئی ہیں اور وہ ‘مقامی’ native یا ‘انڈین’ ہیں۔ اب انڈین سے ان علاقوں میں مراد بھارت نہیں بلکہ مقامی قبائل جنہیں ریڈ انڈین بھی کہا جاتا تھا ،اب تو یہ بھی ایک تضحیک آمیز  لفظ گنا جاتا ہے اب انہیں indigenous کہتے ہیں۔ میں تازہ تازہ جعلی امریکا یعنی ایسٹ کوسٹ سے یہاں آیا تھا،اور وہ پہلی مقامی ملیں، اس لیے مجھے دلچسپی پیدا ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں ۵۸۵ رجسٹرڈ قبائل ہیں جو کہ ایک طرح سے نیشن کے اندر نیشن ہیں، کولمبس انکل پندرہویں صدی عیسوی میں جب یہاں تشریف لائے تو مقامی آبادی سو ملین( ایک کروڑ) کے لگ بھگ تھی۔ حوادث زمانہ خاص کرنسل کشی، غلامی اور پھر وباؤں کے باعث اب پانچ صدی بعد بمشکل ڈھائی ملین بھی نہیں۔ ان کے اپنے قوانین ہیں، امریکا کے اندربھی ان پر بہت سے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح ہم برصغیر میں زمین زادوں کی تحقیر کرتے ہیں یہاں یہی کام یورپین آبادکاروں نے مقامی باشندوں کے ساتھ کیا اور ابھی بھی ان سے نفرت کی جاتی ہے، ان کی نسبت ایشیائی اور کالوں کی زیادہ عزت ہے۔ خیر یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، جو پھر سہی (۲)۔

اس موضوع پر بات چلی اور انہوں نے بتایا کہ وہ والدہ کی جانب سے ایک متروک قبیلہ کی تقریباً آخری نسل ہیں، جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ اپنے نام کا مقامی تلفظ بتایا۔ “ورشانک خپ” جیسا کوئی نام لیا اور دلچسپ بات تھی کہ ‘خ’ کی آواز حلق سے نکالی۔ خیر میں نے بھی اسی تلفظ میں دہرا کر حیران کیا ، پھر بتایا کہ ہمارے علاقہ میں پنجابی/پشتو/اردو کی جداگانہ آوازیں دنیا میں کسی بھی بولی/زبان کی آوازوں سے زیادہ ہیں، پنجابی کی تو58 ہیں، جو شاید برصغیر میں سب سے زیادہ ہیں، اس لیے ہم لوگ کچھ بھی بول سکتے ہیں۔ ویسے ان کے چند جملے پوچھے جو پشتو سے ملتے لگے۔ جانس گے شانک (کیا حال ہیں)؛ پیخ جے (میں ٹھیک ہوں)۔ یا اگر کھڑا ہو تو” حی پی نخ شانا یا “حی پیخ جی نا” (میں ٹھیک نہیں)۔”خ، ‘ف’ کی آواز جو پھ اور ف کے درمیان کی ہو کافی دلچسپ لگیں۔
یہ فقرے ان کی دوسری زبان ہوچانک کی ہے، جہاں وہ اب آباد ہیں، جو ان کے والد کا تھا، اس کا مطلب ہی “مقدس آواز” ہے، میں نے سنتے ہی عرض کی کہ کائنات کی تخلیق آواز سے مکمل ہوئی؛ وہ اچھل پڑیں، پوچھنے لگی کہ یہ تمہیں کیسے علم ہے؟ پھر بولنے کا موقع دیے بغیر ہی اپنی کہانی بیان کرنے لگیں جو ان کے بقول پندرہ ہزار سال قدیم ہے۔

کرم بنتی میں ٹھاکر جیو خالق تھا، ہوچانک میں Ma’una ماؤنا خالق ہے، جس کا انگریزی نام Earthmaker ہے اور افلاطون کے مکالمے ٹائمس کے ڈیمی گاڈ کی طرح ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ خالق خلائے بسیط میں بیٹھا تھا جہاں بس وہی تھا، اسے ایک دن یہ احساس ہوا کہ یہاں کچھ نہیں ہے اور اس خلا اور تنہائی سے وہ رونے لگا، اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے، نیچے اس نے نظر ڈالی تو ان آنسوؤں سے سمندر، جھیلیں اور ندی نالے بن گئے۔
اس نے یہاں سوچا کہ “میں جو سوچتا ہوں اس کا ظہور ہو جاتا ہے”۔ اس نے روشنی کا سوچا اور روشنی وجود پذیر ہو گئی۔ اس نے زمین کی تمنا کی، اور زمین ظاہر ہو گئی مگرابھی یہ پانی پر حرکت کر رہی تھی۔ اس نے پھر سوچا کہ اسے ساکن ہونا چاہیے، اس لیے اس نے درخت بنائے مگر وہ زمین کی حرکت روک نہ پائے۔ پھر اس نے گھاس اور چٹانیں بنائیں، بڑے پتھر بنائے جنہوں نے زمین کی حرکت کچھ کم کر دی مگر روک نہ پائے پھر اس نے چار سمتیں بنائیں۔ چار ہوائیں جو چاروں سمتوں سے آتیں لیکن زمین پھر بھی حرکت سے باز نہ آئی، یہاں اس نے پھر چار سانپ بنائے اور زمین پر پھینک دیے وہ زمین سے نیچے کہیں گر گئے اور زمین خاموش ہو گئی۔

اس نے مٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور اس کواپنی صورت دی تو وہ اسی جیسا ہو گیا۔ ماؤنا نے بات کی، مگرتخلیق نے جواب نہ دیا کیونکہ اس کے پاس دماغ نہیں تھا۔ دماغ تخلیق کیا گیا، ماؤنا نے پھر بات کی مگر جواب نہیں ملا تو احساس ہوا کہ اس کے پاس زبان نہیں ہے، اس کے لیے زبان بنائی لیکن بات پھر بھی نہ ہو سکی، بالآخر اس نے روح اس کے منہ میں پھونکی اور اس کو جواب ملا۔ یہ آواز سن کر خالق مطمئن ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ پہلا انسان تھا جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق  کیا، اور اب یہ بیٹا مانا جاتا ہے، غالباً یہ تصور یورپین آبادکاروں کی ملاوٹ سے ہوا، اسی طرح کے اس نے چار مزید خلق کیے، جو چاروں سمتوں سے زمین کی نگہبانی کرتے ہیں اورتھنڈربرڈز Thunderbird کے سربراہان ہیں۔ تھنڈربرڈ ایک اساطیری کردار ہے جوتمام مخلوقات سے زیادہ طاقتور ہے اور طوفانوں، بادلوں، بارش اور بجلی پر راج کرتا ہے۔ اس کے پر پھڑپھڑانے سے بادل گرجتے ہیں، اور آنکھوں سے بجلی کوندتی ہے۔
( جاری ہے) بلکہ ہوچانک میں “جی غے” (آئندہ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply