فوج میں گزرے روزوشب/فوج کے خنجر تلے(1)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

میڈیکل کی تعلیم کا آخری امتحان دے کر فارغ ہوچکا تھا۔ لگتا تھا کہ کندھوں سے کو ئی بوجھ ہٹ گیا ہے۔ امتحان بذات خود ایک اذیت ہوتا ہے جس میں امتحان لینے والے اساتذہ آپ کی علمی استعداد کا تقابل اپنے علم سے کرکے آپ کی اور آپ سے منسوب لوگوں کی زندگی کے بارے میں فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ عدالتوں کے کئی غلط فیصلوں کی طرح اِن فیصلوں میں بھی انسانی غلطی کا ر فرماہوسکتی ہے۔

آج بھی کئی بار خواب میں انہیں امتحانوں کا دھوکہ اپنی جھلک دکھلاتا ہے تو نیند میں ہی اعصاب تن جاتے ہیں۔ بیداری کے بعد ہی چند لمحوں کے بعد یقین ہوتا ہے کہ اِس قسم کے امتحانوں کو گذرے ایک عرصہ بیت چکا ہے۔ امتحان کے بعد فراغت کے ایام کو زیادہ دیر اپنے مؤلد علی پور میں ہی گزارا تھا، البتہ گزرے دنوں کی یادتازہ کرنے کے لیے کبھی کبھار ملتان کا رخ کرلیا کرتا تھا ۔

روشن علی ملک نے جان بوجھ کر ایک آدھ مضمون کا پرچہ آئندہ پر چھوڑ دیا تھا اور وہ سینا ہال میں ہی مقیم تھا۔ پھر شمعون سلیم بھی تو قاسم ہال میں اپنا ڈیرہ جمائے ہوئے تھا۔ اعجاز بلو بھی وہیں تھا۔ کالج پہنچ کر ایک کسک ضرور ہوتی تھی مگر دل بہل جایاکرتا تھا۔ یادیں ابھی تازہ بتازہ ہی تھیں، پھر بھی اِس مادر علمی سے اپنا تعلق قطع ہوجانے کا احساس بعض اوقات ضیق کرتا تھا۔میں علی پور میں اپنے محلے اسلام پورہ کے اقبال دھوبی کے ہمراہ ایک بار ملتان پہنچاتھا، اقبال دھوبی تو اپنی ذات کے حوالے سے تھا لیکن وہ علی پور کے میونسپل پارک کی لائبریری کا انچارج تھا۔

میں او ر وہ عموماً رات کو لائبریری کے در بند کرکے خمار کی دیوی حیش ماتا سے ٹخ ٹلیاں کیا کرتے تھے۔ خمار کی دیوی سے آنکھوں کی پتلیاں کھل جاتی ہیں او ر روشنی آنکھوں کولگنے لگتی ہے جبکہ موسیقی خیالات میں مصوری کے عکس بن کر جگمگاتی ہے۔ اسی عالم میں ایک بار میرے سکول کے ہم جماعت سید نوازش علی نے پہلے کہا تھاکہ بلب بجھادو۔ پھر کہا ریڈیو سے آنے والی روشنی کو ڈھانپو اور آخر میں کہا کہ روشن دان سے جھانکتے چاند کو دور ہٹادو۔ یوں وقت ہنسی ہنسی میں کیف و بے کیفی کے درمیان کٹ رہا تھا۔ کبھی کبھار گھبرا کر کہیں اور جانے کو دل کرتا تھا۔ ہم ملتان پہنچنے پر ملک روشن کے کمرے میں مہمان ہوئے تھے ۔ ایک دبلا پتلا بہت طرار سا لڑکا بھٹی ہو ا کرتا تھا، جوحیش کے سگریٹ اِس تیزی اور فنکاری سے بھرا کرتا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے یہی اس کا خاندانی پیشہ رہا ہو، لیکن وہ تھا اصلی بھٹی راجپوت ۔ سگریٹ پھونکے جا رہے تھے۔ اُس نے حیش کی ایک چھوٹی سی ڈلی کو کاٹ کر کئی حصوں میں بانٹنے کے لیے کہیں سے ایک چمکدار خنجر اٹھایا، کاٹنے لگا اور پھر جیسے ارادہ بدل دیاتھا۔ اس کی توجہ کسی اور جانب ہو چکی تھی۔

میں نے یہ دونوں چیزیں اٹھائیں اور ڈلی پر ایک دھار جماکر بغیر توجہ کیے کہ خنجر کی دوسری جانب بھی دھار ہے اس پر ہاتھ کے دائیں انگوٹھے سے زور دے دیاتھا ۔ ڈلی نے تو کیا کٹنا تھا البتہ  خنجر کی دھار نے میرے انگوٹھے کو زخمی ضرورکردیا تھا اور میری سسکاری نکل گئی تھی۔ بھٹی نے  یک  لخت کہاتھا’’ اوئے یہ کیا کرلیا ، خنجر زہر میں بجھا ہوا تھا‘‘ ۔خون تو نکل ہی رہا تھا، بجائے اِس کے کہ خون روکنے کی تدبیر کرتا میں بھاگتا ہوا باتھ روم میں گیا تھااورواش بیسن میں ٹونٹی کھول کر انگوٹھے کو دبا دباکر  جس قدر خون خارج کرسکتا تھا کیا تھا ۔ میں سدا کاوہمی،میرا انگ انگ اندر سے کانپ رہا تھا۔

ویسے بھی حیش کے خمار میں چھوٹی سی بات بہت بڑی لگتی ہے۔ چھوٹا سا مسئلہ مہیب لگتا ہے اور خوف سوار ہوجاتا ہے۔جب میں خاصی دیر باتھ روم میں رہا  تو بھٹی ہنستا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ یار کس چکر میں پڑے ہو ،میں تو یونہی مذاق کر رہاتھا۔ میں اس کے ساتھ کمرے میں تو لوٹ آیا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ اتنی بیساختگی سے کہی گئی اِسقدر سنجیدہ بات مذاق نہیں ہوسکتی۔ میں اُسی طرح گھبرایاہوا تھا۔ روشن نے یقین دلانے کی کوشش کی تھی بالآخر میرے تامل کو دیکھ کر گالیوں پر اتر آیاتھا۔ بھٹی نے قسمیں کھائیں لیکن میں بضد تھا کہ تم مجھے مطمئن کرنے کے لیے اب جھوٹ بول رہے ہو۔ آخرکار اقبال نے کہاتھاکہ لو میں اِسی خنجر سے خود کوگھاؤ لگا لیتا ہوں تا کہ تمہاری تسلی ہو جائے۔ اس نے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر انگوٹھے سے جڑے ہوئے حصے پر خنجر کی دھا رکھی ہی تھی کہ میں نے کھڑے کھڑے بوٹ کی ٹھوکر اس خنجر پر مار دی تھی۔

اس کومجھ سے کہیں بڑا گھاؤ لگ گیاتھا اور خاصا خون بہنے لگا تھا۔ سسکاری تو سسکاری رہی ،و ہ تو ہنستا ہی رہا۔ روشن نے میرے لتے لیناشروع کر دیے تھے کہ بے حد خود غرض شخص ہو مگر میرا مو قف یہ تھا کہ وہ میرے ساتھ علی پور سے آیا ہے اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ذمہ دار اسے ٹھہرایا جائے گا۔ اب جو بھی ہونا ہے تو دونوں کو ہو گا۔دس پندرہ منٹ بعد روشن اور اقبال دونوں نے کہا ’’ اب مطمئن ہو کسی کو کچھ نہیں ہوا‘‘ میں تو اپنی ماں پر گیاتھا، شکی، وہمی اور اڑ جانے والا ۔ میرا جواب یہ تھا کہ زہر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وریدوں کے ذریعے اثردکھا نے والے اور دوسرے اعصاب پر اثر انداز ہونے والے۔ پتہ نہیں خنجر کی دھار پر کونسا زہر تھا۔ پھردوسری باتوں میں لگ گئے تھے اور بعدمیں علی پور جانے والی آخری بس پر سوار ہو گئے تھے۔

اقبال پر غنودگی طاری ہوتی تھی تو میں اس کوکندھے سے جھنجوڑ کر پوچھتا تھا ’’ تم ٹھیک ہو؟‘‘۔ وہ جھنجھلا کر کہتاتھا ’’ ڈاکٹر یار سونے دو‘‘۔ غرض علی پور صحیح سالم پہنچے تو میں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ چلو زندہ سلامت پہنچے۔ اِسی قسم کے اچھے بُرے افعال و اعمال میں وقت کی گنگا بہے چلے جا رہی تھی۔ ایک دن ہمارے نابغہ دوست چوہدری اظہار نے فرمائشی حکم سنا دیا تھاکہ کراچی چلنا ہو گا کیونکہ موصوف کو طارق عزیز کے معروف پروگرام میں شرکت کر کے اپنی علمیت کا لوہا منوانے کا شوق تھا چنانچہ ہم یار کے کہے پر عازم کراچی ہو گئے۔

یہ وہی کراچی تھا جہاں چند سال قبل میں دوسری بار آیا تھا ۔ پہلی بار اپنے بھائی شمیم کے ہاں ٹھہرا تھا۔ ناظم آباد میں ان کادو کمروں اور ایک چھوٹے سے صحن پر مشتمل گھر تھا۔ ندیم کام پہ چلا جا تا تھا۔ بھائی اپنے کام پر ہوتے تھے گھر پہ اپنے تا یا کی بیٹی جو بھابھی بھی تھیں، اور بچپن کی محبوبہ بھتیجی کے ساتھ میں اکیلا رہ جاتا تھا اور پھر بعض اوقات بھول جایا کرتاتھا کہ بچپن جوانی میں ڈھل گیاہے اور محبوبہ واقعی سگی بھتیجی ہے۔ایک باربھابھی آپا عطیہ مرحومہ نے کہہ دیا تھا کہ نزہت تمہارے بائی جی (والد) کی رات کی ڈیوٹی ہے اور میں ڈرتی ہوں۔ یہ کہتے ہوئے میری طرف انتہائی مشکوک اور دہشت خیز آنکھوں سے دیکھا تھا ۔ میں آگ بگولاہو گیاتھا اور بک پڑا تھا کہ اگر آپ عمر میں اتنی بڑی نہ ہوتیں تو ۔۔۔۔ اور کچھ کہتے کہتے رک کر یہ جا وہ جا کراچی کو نہ جانتے ہوئے بھی فیڈرل بی ایریا میں ریاض کے ہاں چلا گیا تھا۔

ریاض کو بھی ان کے آباء کے پیشے کے حوالے سے اس کی غیر موجودگی میں ریاض نائی ہی کہہ دیا کرتے تھے جبکہ عرصہ ہوا کہ وہ لوگ دوسرے پیشوں میں کھپ چکے تھے۔ ریاض اُنہیں ماسٹر رسول بخش کا سگا بھتیجا تھا جن کا تذکرہ روشن علی ملک کو پیٹے جانے اور پھر اس کے والد کے حکم سے ماسٹر صاحب کی ٹھکا ئی کرنے اور ناک کاٹنے کی خوفزدہ کرنے والی ناکام کوشش کے ضمن میں پہلے ہی آچکاہے۔ چھوٹے قد اور اچھے نقوش والا ریاض بے حدہنسوڑ تھا، حاضر جواب اور پھبتیاں کسنے میں ماہر۔ اس کے لیے ماضی کا صیغہ استعمال کر کے کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن مشیت ایزدی میں کسی کو بھی دخل نہیں ۔ وہ اپنے والد کی طرح 44-45 سال کی عمر میں دل کی بیماری میں مبتلا ہوا اور چند برس بعد اِس جہان سے کوچ کر گیا۔ زندہ دل اِس قدر تھا کہ جب میں اس کی موت سے چند ماہ پہلے اُسے ملا تھاتب اسے اچانک کراچی کے امراض دل کے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا تھا۔میں ندیم کے ہمراہ اسے ملنے گیا تو اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا،’’ میں تو دل کے اُس 25فیصد پہ جی رہا ہوں جو کام کر رہاہے‘‘۔

فیڈرل بی ایریا میں ریاض کے ہاں میں ایک رات بھی نہیں ٹھہرا تھا کیونکہ رات دس گیا رہ بجے کے قریب بھائی شمیم بمعہ بیوی کے پہنچے تھے اور کچھ ڈانٹ کر، کچھ پچکا ر کر گھر لے گئے تھے مگر چند روز بعد ہی میری کسی غلطی پر انہوں نے گز بھر کے اس صحن میں مجھے آواز دی تھی جہاں بچھی ہوئی چارپائی پر وہ آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹے ہوئے تھے اور انہوں نے میری طرف منہ کیے بغیر یہ کہتے ہوئے کہ تمہیں واپسی کیلئے کرائے کی ضرورت ہوگی، دوسرے ہاتھ سے مجھے غالباً ایک سو روپے تھما دیے تھے۔ عقلمند کو اشارہ کافی ہوتاہے ۔ میں ایک دو روز بعد ملتان لوٹ گیا تھا۔

اِس قیام کے دو ران کراچی میں مہاجر سندھی فسادات شروع ہو گئے تھے، شہر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ رینجرز کی گاڑیا ں صرف بڑی سڑکوں پر ہی ہوتی ہونگی البتہ محلوں کوچوں میں لوگ چلتے پھرتے رہتے تھے۔ کچھ دکانیں بھی کھلی ہوتی  تھیں۔ اخبارات نے سنسر کے باعث کالموں کو خالی چھوڑناشروع کر دیاتھا۔ میں ایک دو اخبارت کے ان خالی کالموں کو اپنی تحریر سے بھر کر محلے کی نکڑ پہ چسپاں کر دیتا تھا جسے لوگ بے حد دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے اور خوب چہ مگوئیاں ہوتی تھیں۔

ایک بار ایک نستعلیق بزرگ نے پوچھ ہی لیا تھا کہ صاحبزادے یہ مواد آپ کو کہا ں سے ملتا ہے؟ میری تو مسیں بھی تھوڑا عرصہ پہلے بھیگی تھیں۔ میں اپنی کاوش کا تذکرہ کرتے ہوئے خجالت محسوس کرتا تھا اس لیے جواب میں کہہ دیاتھا کہ میرے کچھ عزیز اخبارات میں ہیں وہ مجھے اصل کی نقول دے دیتے ہیں اور میں انہیں خلقِ  خدا کے علم کے لیے اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا ہوں۔ انہوں نے مجھے دعا بھی دی تھی، میرے کام کو سراہا بھی تھا اور آئندہ کرتے رہنے کی تلقین بھی کی تھی۔ تب مجھے احساس ہوا تھاکہ میں متاثر کن سیاسی تبصرے بھی کر سکتا ہوں جو میں نے پھر کہیں جا کر پندرہ برس بعد باقاعدہ تحریرکرنے شروع کیے تھے۔ تخلیقی استعداد کے اِس امتحان کے علاوہ ایک اور واقعہ یہ بھی تھا کہ میں اور ندیم کرفیو کی بندش سے گھر بیٹھے بیٹھے اوبھ گئے تھے۔ گلیوں کے علاوہ گھومنے پھرنے کی خاطرنسبتاً کھلی جگہ شہر میں چلنے والی ریل گاڑی کی لائن تھی۔ ہم دونوں گلیوں سے ہوتے ہوئے وہاں گھومنے پہنچے تھے۔ وہاں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ جاتے ہوئے ایک پاؤندے قسم کے سرحدی پٹھان نے ہم سے سگریٹ مانگی تھی۔ہم نے دے دی تھی۔تھوڑی دور جا کر وہ لائن پر بیٹھ گیا تھا اور اِس نے سگریٹ اپنی ہتھیلی پر خالی کرناشروع کر دی تھی۔

ہم دونوں انہماک سے اسے دیکھتے رہے تھے۔ا س نے اپنے اس عمل کی تکمیل کے ساتھ سگریٹ سلگا کر ایک لمبا کش لے کر دھواں پھیپھڑوں میں سنبھالتے ہوئے سگریٹ ہماری طرف بڑھادی تھی۔ ہم نے بھی دو دو لمبے لمبے کش لے کر دھوئیں کو پھیپھڑوں میں سنبھالنے کے لیے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہمیں نہ تو چکر آیا تھا اور نہ ہی خمار چڑھا تھا۔ اس نے خود دو چار مزید کش لے کربچاہواسگریٹ ہمیں دے دیا تھا۔ جب ہم ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ کچھ بھی تو نہیں ہوا تو اُس نے کہاتھاکہ اگر کوئی میٹھی چیز کھا لیتے تو نشہ ہوتا ۔ یہ کہہ کر چلتا بنا تھا۔ ندیم سامنے والی گلی میں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر میٹھی گولیاں اور ٹافیاں لایا تھا جنہیں کھا کر بھی ہم ویسے کے ویسے رہے تھے۔

مگر اِس بار جب میں چوہدری اظہار کے ہمراہ کراچی آیا تھا تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ ندیم کو میں نے مارکس او ر لینن کی کتابیں پڑھنے یا کم از کم انہیں خریدکر رکھنے کا چسکالگا دیاتھا۔ جتنا کچھ بھی اس نے پڑھا ہو گا اُس کا گفتگو میں اظہار بھی کیا ہو گا۔ اس کے والدیعنی میرے بھائی شمیم مرحوم صاحب اپنی سرشت میں سخت گیر واقع ہوئے تھے ندیم میں اس کا ردعمل بھی تھا۔اِسطرح کی خلاف سماج اور مذہب سے عدم متوازن کلمات پر مبنی گفتگو کے ساتھ ندیم کو فریال نامی ایک اسماعیلی لڑکی سے عشق بھی ہو گیا تھا۔

ندیم فلمیں دیکھنے اور ناول پڑھنے کا تو ویسے ہی شوقین تھا اِس لیے ا س نے اِس نام نہاد عشق کو دل پر لے لیا تھا۔ ان دونوں باتوں کا خمیازہ اسے باپ کا گھر چھوڑ کربھرنا پڑا تھا۔ اب اس نے چڑیا گھر کے نزدیک گارڈن ٹاؤن میں ایک گھر کرائے پر لے لیا تھا جس میں اُس کے علی پور سے عارضی طور پر آئے ہو ئے دو ایک دوست بھی تھے۔ میں بھی وہیں ٹھہرا تھا۔ دن کو ندیم کے ہمراہ دفتر چلا جا تا تھا ۔ شام تک چوہدری اظہار اپنے نیلام گھر کے چکر سے آجایا کرتا تھا۔ فریال بھی آجاتی تھی اور ہم چاروں کسی ریستوران یا کیفے میں جا بیٹھتے تھے۔ فریال کو سبھی فیری کہتے تھے جس کے بارے میں ریاض کہاکرتا تھا:

فیری ہیرا پھیری نہ تیری نہ میری

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply