چہرہ فروغ مئے سے گلستاں(قسط10)۔۔فاخرہ نورین

رمضان میں بڑے پیمانے کی ایک افطاری زبیر کا معمول ہے اور ہماری شادی کے بعد جب میں ایک افطاری میں شامل ہوئی تو ہال میں داخل ہونے کے بعد
آپ نے کس کا سوٹ پہنا ہے، اتنی مرتبہ پوچھا گیا کہ تقریب کے اختتام تک میں شدید غصے میں آ چکی تھی ۔زرق برق کپڑوں اور بھاری زیورات کے ساتھ بھاری میک اپ سے منہ پیسٹری کیے عورتیں کن اکھیوں سے میرے ہاتھ کان کے زیور ڈھونڈتی ہوئی اور کانوں کے پیچھے دوپٹے اڑس اپنے سونے کے جھمکے دکھاتی ہوئی اگر مجھ سے مخاطب ہوئی بھی تو صرف یہ پوچھنے کے لئے ۔
کپڑے کیہدے پائے جے۔
واضح رہے کہ میں ان کے درون خانہ حالات کی محرم ہی نہیں نشانہ بھی ہوں ۔ ان کی بغلانِ گنجان آباد سے اٹھتی بھبکاروں، پسینے سے بھیگے بدن سے اتری مٹیالی سویوں، سر پر آباد جوؤں اور میل بھرے کانوں کے علاوہ گندگی بھرے ناخنوں اور گندے دانتوں سے بھی آشنا ہوں ۔ مہنگے جوتوں سے جھانکتی پھٹی اور میل بھرے رخنوں والی ایڑیوں کو تو آن دی سپاٹ بھی دیکھ سکتی ہوں، اس سوال پر بھناؤں نہیں تو کیا کروں؟
ادھر سے کوئی اور پوچھتی ہے
کپڑے کس کے پہنے ہیں؟
میرا جواب ہے ۔
میرے اپنے ہیں ۔
وہ میری جہالت پر مجھے سمجھاتی ہیں ۔
نہیں نہیں اوہ تے پتہ اے تہاڈے آپنے نے ، برینڈ پچھیا اے ۔
میں برینڈ نہیں پہنتی، کپڑا اچھا لگے تو کہیں سے بھی خرید لیتی ہوں ۔
میں دانستہ جھوٹ بولتی ہوں ، سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس اتھلے پن پر غصہ آجاتا ہے ۔ عورت کے لئے کب سے برینڈ اہم ہو گئے ؟ خرید سکنے کی سکت ایک الگ معاملہ ہے لیکن صرف برینڈو برینڈی ہوئے رہنا اور لباس یا زیور کی قیمت سے انسان تولنا یہ بیماری ہے اور متعدی ہے ۔
ہمیں یہ بیماری بڑی پلاننگ سے لگائی گئی ہے لیکن اس کی کوئی ویکسین شاید کبھی نہیں آئے گی ۔
مخلوط معاشرے کے خیالات اور نظریات مانگے تانگے کے ہیں ۔قوت خرید بڑھی ہے تو ہم نے باہر لے ملک کتے نہلا کر، سیل مینیاں کر اور ٹیکسیاں چلا کر کمائے پیسے سے پہلے وہ خریدا جس کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ۔ ہم کرائے کے سپاہیوں نے وہ جنگ چھیڑ لی ہے جو ہماری ہے بھی نہیں ۔
زرعی معاشرے کی عورت طاقت تھی ہم نے اسے کمزوری بنا دیا ۔ دھیاں رانیاں تھیں ہم نے بوجھ بنا لیں ۔بیویاں ہمسر ہواکرتی تھیں ہم نے انھیں مدمقابل کر لیا ۔بہنیں تو منہ بولی بھی بڑی عزت تھیں ہم نے انھیں غیرت بنا لیا ۔
ہمارے ہاں تو عورت گھر باہر سب کی مالک تھی، صارف تو اسے ہم نے بنا دیا ہے ۔ عرب سے انتہا پسندی اور یورپ سے بے مہار بغاوت کی غلاظت اٹھائی اور اپنے منہ پر لیپی کبھی دوسرے پر پوت دی۔
ہمارے گھر کے ساتھ سپورٹس سٹیڈیم میں دو لڑکوں کی ذاتی رنجش پر لڑائی جاری تھی اور معاملہ ابھی صرف ہتھ پڑتھی تک محدود تھا ۔میری خالہ کا بیٹا بابر بیٹ پکڑے کھیلنے کو سٹیڈیم میں داخل ہوا۔لڑنے والے دونوں اس کے دوست تھے وہ اندھا دھند لڑائی میں یوں گتھم گتھا افراد کے بیچ گھسا کہ فریقین نے اسے مخالف دھڑے کی طرف سمجھتے ہوئے اس کے بیٹ سے ہی اس کی دھنائی کر دی۔ وہ کھنے سینکا کر سرپھٹول کے بعد گھر آ گیا ۔متحارب دھڑوں میں سے ہر ایک نے پرچے میں اسے بھی نامزد کیا اور اس پر حسب ذائقہ ناگفتناں بھی ڈال دیں ۔ چند دن بعد وہ دونوں آپس میں تو شیروشکر ہو گئے البتہ یہ خدائی فوجدار عرف نادان سپاہی بہت دن تک تھانے حاضری اور رشوت دیتا رہا ۔
مردو زن کی
لڑائی ہماری تو تھی نہیں، اب بھی نہیں ۔ ہمارے ہاں تو سڑکیں نہیں، سکول نہیں، ہسپتال نہیں،روزگار نہیں، نظریہ کہاں سے آئے گا ۔ مرد عورت نے تو ابھی رج کے ایک منجی پر بیٹھنا ،سونا ہنسنا بولنا نہیں سیکھا، فرائض کی ادائی کیسے سمجھیں گے ۔ابھی تو پیار کی لڑائی دل کھول   کر  نہیں لڑے، حقوق کی جنگ کیسے لڑنے لگ گئے ہیں ۔
زیادہ تر گھروں میں ابھی تک میاں بیوی سب کے سامنے ایک چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتے ۔ شادی کے بعد ایک فیملی میٹنگ میں ایک دن اپنی دھن میں صوفے پر بیٹھے زبیر کے ساتھ بیٹھنے لگی تو ابا جی کی چارپائی پر گویا کانٹے اگ آئے۔
کڑییے ایتھے رواج نہیں مرداں نال بہن دا، اوتھے پراں منجی اتے بھراواں نال بیہ ۔
انھوں نے چارپائیوں پر بیٹھے میرے دیوروں کی طرف اشارہ کیا ۔
لیکن اس گھر میں میں صرف زبیر کے ساتھ بیٹھنے کی حقدار ہوں ۔ دیور میرے لئے زبیر سے زیادہ محرم نہیں ہیں ۔
میں نے بات نہیں کی، خود کش دھماکہ کر دیا ۔
دیور بھرا ہوندے نیں، اوہناں نال نہیں بیہنا تے کرسی لے آ۔
میں اس موضوع پر تین گھنٹے تک تقریر کر سکتی تھی لیکن
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا
کے عین مطابق زبیر نے چہرے کے تناؤ سے مجھے شٹ اپ کال دے دی۔ میں نے بھی خاموشی اختیار کر لی کہ پہلے کھلے ہوئے کٹے کو باندھ لیا جائے، اپنا والا پھر کسی وقت میدان میں اتارنا بہتر ہو گا ۔ دیور کے خلاف تمام اقوال و احکامات دل ہی دل میں دہراتی موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلانے لگی یعنی دودیوروں کے درمیان جا کر بیٹھ گئی ۔ شروع شروع کی تابعداری نے بہت سارے معاملات سمجھنے میں مدد دی اور اب ہم دونوں بہت آرام سے صحن میں دو چارپائیاں بچھا کر ایک پر بیٹھ جاتے ہیں ۔سوتے ہم شروع سے ایک ہی پر تھے لیکن نظربندی کا تعویذ یعنی دوسری چارپائی ہمیشہ ساتھ بچھاتے ہیں ۔آخر مشرقی اقدار وغیرہ بھی کوئی چیز ہیں ۔
درمیانی راستہ تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔کیونکہ جن والدین نے تربیت کو مقدم رکھا وہ اپنی مرضی کا ایک سانچہ بنا کر اولاد کو اس کے مطابق ڈھالتے رہتے ہیں اور جن کے نزدیک تعلیم ضروری نہیں وہ اولاد کو بے مہار محض ڈگری کے حصول میں لگانا کافی سمجھتے ہیں ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply