کشمیر ڈے اور ڈسکو قوم۔۔رمشا تبسم

کشمیر کئی سالوں سے بربریت اور ظلم و ستم سہنے کے باوجود آج بھی موجود ہے۔بھارت لاکھ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ چکا ہو مگر کشمیر کا نام و نشان مٹانے میں ناکام رہا ۔کشمیر آج بھی کشمیر ہی ہے۔ہاں مگر کشمیر کے کئی گھر کئی, اولادیں, کئی سہاگ ضرور اجڑ چکے ہیں۔مگر حوصلے اور ہمت کوئی نہ توڑ سکا نہ توڑ سکے گا۔کوئی کشمیریوں کے جذبے اور آزادی کی جدو جہد کو ختم نہیں کر سکا۔کشمیری اپنی جنگ خود لڑتے آئے ہیں اور آج بھی لڑ رہے ہیں۔اور یہ خالصتاً کشمیر اور کشمیریوں کی ہی جنگ ہے ۔کشمیر کا مسئلہ کافی حد تک خراب کرنے میں ہماری حکومتوں انکی غلط پالیسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے وہی ہاتھ اور وہی پالیساں جو پاکستان کو بھی برباد کرنے میں پیش پیش ہے۔

کشمیر سے پاکستان کے حق میں آواز آتی ہے تو یہاں پاکستان میں بیٹھا ہرشخص چیخنے لگتا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ کشمیر کو پاکستان میں شامل کر کے ہم سب ان پر ہوئے ظلم و ستم کو روکنا اور ان کو آزاد کروا کر ان کی آزادی کے خواب کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔مگر دوغلہ پن یہ کہ اپنے ملک میں ہر روز کئی خواب ٹوٹتے ہیں۔کئی غلام پیدا کئے جاتے ہیں اور کئی غلاموں کو مارا جاتا ہے۔کئی لوگوں کی آزادی کو ان کے گلے کا پھندا بنایا جاتا ہے۔ظلم و ستم عروج پر ہے۔بچوں کی زندگیاں اور عزتیں غیر محفوظ ہیں۔ہر طرف آنسو ہیں۔مگر اپنے ملک کے حالات ٹھیک کرنے اور ملک کے اندر پھیلا ظلم و ستم روکنے میں ناکام رہنے والے آج بھرپور طریقے سے گانے لگا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرنے میں مصروف ہیں۔
اس قوم کی ڈرامے بازی میں اہم کردار ادا کرنے والے خاص کردار ہمارے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔جو کبھی سڑکوں پر جمعہ کو کھڑے ہو کر اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور کبھی غلط طریقے سے امریکہ میں کشمیر کا ذکر کروا اس میں بدترین کرفیو نافذ کروانے اور کشمیر کی حیثیت پر حملہ کرنے والوں کے معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اس قوم میں موجود کچھ ڈرامے بازوں کا ماننا ہے کہ  کشمیری اپنی غلط پالیسی کی وجہ سے مر رہے ہیں ان کو قلم کے ذریعے لڑنا چاہیے تھا۔پڑھتے لکھتے پتھر نہ اٹھاتے تو حالات مختلف ہوتے۔مگر جتنے پتھر کشمیر کی سڑکوں پر پڑے ہیں اتنے ہی پتھر ہماری قوم کی عقل پر بھی پڑے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو آزاد فضا میں پیدا ہوتے ہیں اور چند کتابیں پڑھ کر خود کو عقلُ کُل ثابت کرتے ہیں۔ان کے بچوں سے کوئی اونچی آواز میں بات کر لے تو لڑنے چل دیتے ہیں۔اور کشمیری جو اپنوں کو تڑپتے دیکھتے ہیں ان کو یہی لوگ قلم سے لڑنے کا مشورہ دیتے ہیں۔کشمیریوں کا بہتا لہو لوگوں کے لئے کوئی خاص بات نہیں۔
کچھ لوگ ڈیجیٹل جہاد کے فرائض انجام دیتے ہوئے ڈھیر ساری شاعری کاپی کر کے ہر قسم کے سوشل میڈیا پر اسٹیٹس لگا کر اپنے فرائض سے فارغ ہو جاتے ہیں۔کچھ تیار ہو کر سڑکوں پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی ریلیوں میں شامل ہوتے ہیں اور سب سے کامیاب یہی لوگ ہیں کیونکہ انکو پوسٹ کرنے کے لئے ہزاروں تصویریں بنانے کا شاندار موقع مل جاتا ہے جس سے بھرپور استفادہ حاصل کرتے ہوئے ہنستی مسکراتی، کھانے کھاتے، ہلہ گلہ کرتے ہوئے تصویریں بنا کر دوسروں کو دکھایا جا رہا ہے کہ صرف یہی کشمیر کے سگے ہیں باقی گھر میں بیٹھے سب کشمیر کے دشمن ہیں اور احساس سے خالی بھی۔
کچھ اسی طرح کا ڈرامہ ہمارے ملک کی حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی پارٹیاں کرتی نظر آئیں گی۔حکمران جماعت کشمیر کی صورتحال کا انجام گزشتہ حکومتوں کی غلط پالیسوں پر ڈالے گی اور دوسری سیاسی جماعتیں سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈالے گی۔
آج 5فروری کو مختلف قسم کی کشمیر کے حق میں نئی اور پرانی شاعری کا ہر طرف راج رہے گا۔کچھ نئے شاعر بھی اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ڈالیں گے۔اس کے باوجود ہر چینل مختلف طریقے سے شو کر کے ریٹنگ حاصل کرتا نظر آئے گا۔
ہر اسٹیٹس ہر چینل اور ہر ڈیجیٹل جہادی سے آج کے دن مختلف آوازوں اور سُروں میں “انڈیا جا جا کشمیر سے نکل جا” سننے کو ملے گا۔اور ان کے گانوں اور بدصورت آوازوں کی دہشت سے انڈیا تھر تھر کانپتا ہوا کہیں واقعی نکل ہی نہ جائے۔
ہر سال اس دن پاکستان پورے جوش و جذبے سے کشمیر کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔اور کشمیر میں شہید ہونے والے لاکھوں افراد, اجڑی گودیں اور سہاگ, بھوک سے مرتے بچے زخموں سےتڑپتے لوگ اور عزتیں گنوا چکی خواتین سے افسوس کرتے ہوئے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہم ہر سال ایک گانا بنا کر پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔خواہ کوئی ہمارے بچوں کو اسکول میں گھس کر مار دے مسجدوں پر حملے کرے یا کشمیر جلتا رہے ہم کچھ پوری کوشش اور ہمت سے کر سکتے ہیں تو وہ ہے ایک کامیاب گانا لکھنا اسکو بہترین گلوکار کی آواز میں ریکارڈ کروانا اور کشمیریوں پر ہوئے ظلم و ستم کی تصاویریں استعمال کرتے ہوئے گانے کو جذباتی بنا کر پیش کرنا اور یہی ہماری بہادری ہے۔جس وقت ہر چینل اور ہر شخص گانے بجانے اور تفریح میں مصروف ہو گا اس لمحے کشمیر میں کئی کئی دن سے بھوکے بچے اور افراد تڑپ رہے ہونگے۔کہیں کسی کی عزت لوٹی جا رہی ہو گی۔کہیں کسی کا گھر اجڑ رہا ہو گا۔کسی کے خواب ٹوٹ رہے ہونگے۔کشمیر کی زمین کو معصوم کشمیریوں کا لہو پلایا جا رہا ہو گا۔ہر آنکھ اشک بار ہو گی۔ہر دل اداس ہو گا۔بچے شہید ہونے والے ماں باپ کو ڈھونڈ رہے ہونگے۔مائیں اپنے بچوں کی جدائی میں سینہ پیٹ رہی ہوں گی۔اور یہاں ہم گانے بجانے کے ساتھ بھرپور ڈسکو کرتے ہوئے کشمیر ڈے منائیں گے۔اور بھارت کو للکارتے ہوئے کہیں گے ہم کشمیر کے ساتھ ہیں ہم کشمیر کا مسئلہ فلاں جگہ اٹھائیں گے۔ہم کشمیریوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔دکھ کی اس گھڑی میں ہم کشمیر کے ساتھ ہیں۔افسوس صد افسوس

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں اتنا شدید دکھ ہے کشمیر کا جس کا کوئی حساب نہیں۔کشمیر پر ظلم ہوتا دیکھ کر ہم اس قدر افسردہ ہیں کہ یوم یکجہتی کشمیر پر ملنے والی چھٹی کو منانے کے لئے عوام سیر و تفریح کے لئے مختلف جگہوں اور علاقوں کا رخ کئے ہوئے ہیں۔گھر گھر مختلف کھانے تیار کر کے دعوت منائی جا رہی ہے۔عزیز و اقارب کے گھر دعوتیں منائیں جا رہی ہیں۔مختلف جگہوں پر کھیل منعقد کر کے تفریح کا انتظام کیا گیا ہے۔شہروں کے بڑے ہوٹلوں میں کشمیر ڈے کے افسوس میں اسپیشل ڈسکاؤنٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔بیس ہزار کا کھانا آپ 18000 میں کھا سکتے ہیں۔خاص طور پر کشمیر ڈے پر آن لائن شاپنگ میں ڈسکاؤنٹ انجوائے کرتے ہوئے آپ سستی اشیاء خرید سکتے ہیں۔بناؤ سنگھار عروج پر ہے۔کچھ افراد نے کشمیر ڈے پر ملنے والی چھٹی پر لطف اندوز ہونے کے لئے ناصرف سیرو تفریح کا منصوبہ بنایا بلکہ خاص ملبوسات بھی تیار کروائے۔
گو کہ ہر طرف پاکستان میں کشمیر کے دکھ میں گہما گہمی ہے ہر چہرہ مسکرا رہا ہے سڑکیں مصروف ہیں ریسٹورنٹ مصروف ہیں۔میوزک عروج پر ہے۔کھانوں کی مختلف خوشبو سے فضا مہک رہی ہے۔چہل پہل سے لگتا ہے پاکستان میں عید کا سماں ہے۔
لہذا اس خاص چھٹی پر پاکستان کی عوام حکومت کی شکر گزار ہے۔بلکہ بھارت کی شکر گزار بھی ہے کہ نہ وہ کشمیر میں ظلم کرتے نہ کشمیر جلتا اور نہ ہمیں چھٹی کا ایک اور موقع ملتا ۔ لہذا کشمیریوں آپ کا بہت دکھ ہے ہمیں مگر ہم کیا کریں ہم ڈسکو قوم ہیں ذیادہ دیر تو ہم اپنے کسی عزیز کا دکھ نہیں منا سکتے ۔کسی اپنے کے مرنے پر بریانی میں بوٹیاں ڈھونڈنے میں مصروف رہتے ہیں تو تمہارا کیا غم منائیں تم تو صرف ہمارے منہ بولے فرضی رشتے دار بلکہ ہمسائے ہو ۔
لہذا جو کشمیر کے لئے نیا گانا ہم نے 5 فروری کے لئے بنایا ہے اس پر ہمارا شکریہ کرو راتوں رات وہ گانا لاکھوں لوگوں نے پسند کیا۔اب اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ اپنی جنگ خود لڑو۔ اور لڑتے رہو تاکہ ہمیں گانے بنانے کا موقع ملتا رہے اور تفریح کا ذریعہ بھی۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply