• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا آپ کشمیر پر ٹرمپ کا امن منصوبہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟۔۔منور حیات سرگانہ

کیا آپ کشمیر پر ٹرمپ کا امن منصوبہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟۔۔منور حیات سرگانہ

جس بھونڈے اور بے رحمانہ طریقے سے فلسطینیوں کی عدم شرکت کے باوجود ٹرمپ نے نیتن یاہو سے مل کر فلسطینیوں کے لئے نام نہاد امن منصوبے کا اعلان کیا ہے،اس سے یہ خدشات قوی ہو گئے ہیں کہ ٹرمپ مستقبل میں کشمیریوں کے لئے بھی کسی ایسےہی مضحکہ خیز حل کا مسودہ لکھنے کا کام اپنی لاڈلی بیٹی ایوانکا کے ذمہ لگا چکے ہوں،جن کے شوہر ڈیوڈ کشنر نے بہت عرق ریزی سے فلسطینیوں کے لئے وہ شاہکار امن منصوبہ ڈرافٹ کیا،جس میں ان کو گولی یا چھری میں سے کسی ایک چیز کے انتخاب کا نادر موقع دیا گیا تھا۔اور اس صورتحال کی سنگینی میں اس وقت اور اضافہ ہو جاتا ہے،جب کہ ہم ٹرمپ کو مسئلہ کشمیر پر کوِئی کردار ادا کرنے کی کئی بار دعوت دے چکے ہیں۔جو انہوں نے ہر بار قبول کی ہے،اور ایسا کرنے کے لئے اس صورتحال کو بھارت کی رضا مندی سے مشروط کیا ہے۔

تو کیا چوہے دان تیار ہے؟,جس میں پھنسنے کے لئے ہم دل وجان سے تیار بیٹھے ہیں۔خوش گمانیاں اچھی ہوتی ہیں،جو کہ امید کی کونپل کو تروتازہ رکھتی ہیں۔لیکن زمینی حقیقتیں ہی بالآخر حتمی فیصلوں پر غالب رہتی ہیں۔

آج پانچ فروری کے دن ہم چاہے جتنا شور شرابا مچا لیں،زمینی حقیقت تو یہی ہے,کہ عالمی سیاست کی بساط پر ہماری اہمیت ایک رتی برابر بھی نہیں۔
آپ کے دیرینہ عرب مہربان اب آپ کو آتے دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں،کہ آپ ان سے کچھ اور زیادہ نہ مانگ لیں۔انہیں آپ کے مقابلے میں ہندوستان اچھا لگتا ہے،جہاں کے لاکھوں ہنرمندوں نے ان کے کاروبارِ  مملکت کو سنبھال رکھا ہے،اور جہاں سے ان کو وہ کاروباری فوائد مل سکتے ہیں،جو کہ طرفین کی معیشت کو تیزی سے آگے بڑھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔
پتا نہیں ہم کب تک رومانوی سوچ کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہیں گے،جب کہ دنیا کا نظام معاشی حقیقتوں کا مرہون منت ہے۔
امریکیوں کے ساتھ ہمارے معاملات ایسے ہیں جیسا کہ ایک مالک اور تنخواہ دار ملازم کے ہوتے ہیں،جبکہ ہندوستان کو وہ اپنا تزویراتی شریک کار سمجھتے ہیں۔اگر کوئی فلسطین امن منصوبے جیسی چیز ڈونلڈ ٹرمپ کے شاطر ذہن میں کلبلا رہی ہے،تو اس کے خدوخال کے بارے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔وہ اپنے تزویراتی شریک کار کو ناراض کرنے کا رسک کسی صورت مول نہیں لیں گے۔

آخر یہ بنیادی بات کب ہماری سمجھ میں کب آئے گی کہ اپنی ضروریات کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے،ہمیں خود کو دنیا کی ضرورت بنانے پر کام کرنا ہوگا۔معاشی طور پر عالمی اداروں کا دست نگر اور کمزوری سے لڑکھڑاتا ہوا پاکستان کشمیر پر اپنا دعویٰ پوری طاقت سے دنیا کے سامنے پیش کرنے سے مکمل طور پر قاصر رہے گا۔ہم آہستہ آہستہ عالمی سطح پر گنے چنے ممالک کی حمایت بھی کھو دیں گے۔اقوام عالم میں دوسروں پر بوجھ بننے والے ممالک سے دوری بنائے رکھنا ہر ملک کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ہمیں جلد سے جلد ان بڑے قضیوں سے جان چھڑا کر اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ مہنگے ہتھیاروں کی خریداری سے جو پیسہ بچے،اسے ملک میں تعلیم و تربیت،صحت،صنعت کاری کے فروغ اور لوگوں کی خوشحالی پر لگایا جا سکے۔ہمیں پڑوسیوں سے زیادہ ملک کے اندر موجود انتہا پسندی اور عدم برداشت سے خطرہ ہے۔ہمیں پولیو کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں سب کے لئے سماجی برابری اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ہم جیسے جیسے مضبوط ہوں گے ،ویسے ویسے عالمی سطح پر ہماری آواز بھی توانا ہو گی۔

پاکستان کے ہاتھوں میں سودے بازے کے لئے کچھ زیادہ پتے نہیں ہیں۔اگر ٹرمپ ہندوستانی قیادت کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے،جس کا کافی امکان نظر آتا ہے،تو پاکستان کے لئے اپنے کہے ہوئے سے پیچھے ہٹنے کے سبھی راستے بند ہو جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جس طرح فلسطینیوں کے لئے پیش کردہ امن منصوبے،جس کو ٹرمپ نے ڈیل آف دی سینچری قرار دیا ہے،میں فلسطینیوں کے لئے صرف دستبرداری کا آپشن دیا گیا ہے،اسی سے ملتی جلتی ڈیل کشمیریوں کے لئے بھی دی جائے گی۔جس میں ہندوستان کے لئے تو سبھی کچھ ہو گا مگر کشمیریوں کے لئے اور آپ کے لئے کچھ نہیں ہو گا۔

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply