فرق صرف یہ ہے کے برطانیہ جا چکا اور امریکہ جانے کو ہے۔
برصغیر سفید چمڑی کو راس نہیں پھر بھی یہ ہر نئی صدی آن پہنچتے ہیں۔
چونکہ ہم سے زیادہ زہین ہیں اس لیے ہر دفعہ مختلف چال چلتے ہیں ان کی ہر چال میں وسائل مال اور دولت لوٹنے کی فکر لازمی طور پر ان کے مکمل پلان کا حصہ ہوتی ہے۔
اسکندر بھی آیا تھا پرتگالی فرانسیسی برطانوی اور امریکی خباثتیں بھی ہم سہہ چکے روسیوں کو بھی ہم پسپا کر چکے
لوٹا تو سب نے ہی لیکن شاید سب سے کم حصہ امریکہ کو ملا
امریکی کی بد قسمتی اس نے برصغیر میں قدم جمانے کے لیے افغانستان کو چنا
حالانکہ روس کی مثال موجود تھی البتہ اسے آنا ہی تھا تو برصغیر کے باقی ماندہ خطے سے اسے کم مشکلات ہوتیں اور کھانے پینے کو بھی مل جاتا
لیکن اگر مفادات کم ملے ہیں امریکہ کو تو نقصان بھی کم ہی ہوا ہے ہمارے پیسے بھی روک کے بچت کر رہا ہے جبکہ تاریخ دیکھیں تو اسکندر کے خالی ہاتھ ادھر ہی اٹھے تھے تاج برطانیہ نے بھی آخری ہچکیاں ادھر ہی لی تھیں روسی وسعتوں کو بھی برصغیر میں ہی کٹ لگا تھا۔لیکن امریکہ قدرے بہتر حالات میں آہستہ آہستہ رخصت ہو رہا ہے۔گو کے پینٹاگون صدر ٹرمپ کی عجلت سے خاصا تنگ لگ رہا ہے لیکن واپسی کا فیصلہ اٹل ہے اور ڈوبتے امریکی معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کی فضول جنگوں سے کنارہ کشی کی پالیسی امریکہ کو شاید چند دہائیوں تک مزید سپر پاور برقرار رکھنے میں معاون ہو سکتی ہے۔
امریکی واپسی کے بعد کے حالات کیا ہوں گے اس خطے کی باقی طاقتیں جن میں چین بھارت روس پاکستان ایران کے آپسی مسائل میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے ابھی تک دو بلاک بنتے نظر آئے ہے چین پاکستان اور روس کے مشترکہ مزاکرات سے پاکستان کی آمدہ خارجہ پالیسی کی سمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ بھارت ایران چاہ بہار کے زریعے اپنی قربتیں بڑھا رہے ہیں۔بھارت کی ہمیشہ سے ہی یہ خارجہ پالیسی رہی ہے کے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیا جا سکے اپنی اس پالیسی میں مکمل طور پر تو کبھی انڈیا کامیاب نہیں ہوا لیکن تھوڑے عرصے کے لیے ہی سہی جزوی کامیابیاں ضرور ملتی رہی ہیں البتہ اس وقت اپنے ہی خطے میں پاکستان کی بہ نسبت انڈیا کے حالات دیگر ہمسائیوں سے کافی خراب ہیں۔سوائے ایران اور بنگلہ دیش کے اسے کسی ہمدرد کا ساتھ میسر نہیں ہے جبکہ پاکستان چین روس کے بعد مڈل ایسٹ کی ریاستوں کی توجہ بھی
سی پیک کی بدولت حاصل کر رہا ہے عالمی تنہائی الگ معاملہ ہے لیکن ایشیا میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں پاکستان ضرور کامیاب ہوا ہے۔
اور اب افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد شاید ہندوستان کو ہم افغانستان سے بھی ہاتھ ملتے دیکھیں گے۔
طالبان کے امریکہ سے مزاکرات کے بعد افغان حکومت کے ساتھ بھی مزاکرات کی خبریں بھی آ رہی ہے اور امید ہے کے اس آخری سیٹملنٹ میں بھی پاک چائنا اور روس مل کر اہم کردار ادا کریں گے اور پاکستان اپنے مفادات کو بہتر طور پر حاصل کر سکتا ہے جتنی بھی دہشت گرد تنظیمیں افغانستان ميں چھپ کر پاکستان کو نقصان پہنچاتی رہی ہیں ان کا قلع قمع کرنا بھی پاکستان کے لیے حد درجہ آسان ہو جائے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں